Inquilab Logo

کانگریس کو اپنے لئے بھی کچھ اصول طے کرنے ہو ں گے

Updated: March 13, 2023, 4:16 PM IST | Professor Apurananda | Mumbai

اگر کانگریس فوری فائدے کی امید میں اور یہ سوچ کر کہ اس سے اس کی مخالف پارٹی کی ناک کٹے گی، وہ گورنروں کی بیجا کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے تو ہمیں یہ کہنے دیں کہ وہ ہندوستان میں وفاقی نظام کی قبر کھودنے کا کام کر رہی ہے، حالیہ دنوں میں دہلی اور پنجاب میں کانگریس یونٹ نے کچھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا ہے

If Congress thinks the investigative agencies are doing wrong, it has to accept that they are not just doing it wrong.
کانگریس کو اگر لگتا ہے کہ تفتیشی ایجنسیاں غلط کررہی ہیں تو اسے یہ قبول کرنا پڑے گا کہ یہ صرف اس کے ساتھ غلط نہیں کررہی ہیں


کانگریس پارٹی کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ ان ریاستوں میں جہاں وہ اپوزیشن میں ہے اور جہاں غیر بی جے پی پارٹیاں اقتدار میں ہیں، وہ اپنے اختلافات کی وجہ سے قائم شدہ پارلیمانی روایات کو منہدم کرنے کے حق میں ہے؟کانگریس کو یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ کیا وہ اپوزیشن جماعتوں کے خلاف ریاستی مشینری کے غلط استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے؟ ابھی پنجاب میں اور اس سے قبل دہلی میں اس کے لیڈروں کے طرز عمل سے کچھ یہی ظاہر ہوتا ہے۔
 بی جےپی گورنروں کے ذریعے منتخب حکومتوں کے کام میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سرکاری تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپوزیشن لیڈروں کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور انہیں کام کرنے کی اجازت نہ دینے کیلئے بھی استعمال کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت اپوزیشن لیڈروں پر لگاتار چھاپے مار کر اورانہیں گرفتار کر کے  اپوزیشن کی حکومتوںکو  غیر مستحکم کر رہی ہے۔ مخالف پارٹیوں کے بڑے لیڈروں کو گرفتار کر کے اس پارٹی میں جمود پیدا کردینا چاہتی ہے۔
 گرفتاری سے عوام میں بھی اس شخص کے بارے میں شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی پارٹی کی ساکھ بھی لوگوں میں کم ہوتی جاتی ہے۔اس کا شکار صرف ’عام آدمی پارٹی‘ ہی نہیں بلکہ خود کانگریس اور چند ایک کو چھوڑ کر دیگر پارٹیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔اسی طرح تمل ناڈو ہو یا مغربی بنگال، کیرالا ہو یا راجستھان، وہاں کے گورنر، کسی نہ کسی طریقے سے آئین کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہوئے دستوری روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس طرح ریاستی حکومتوں کے کام میں مداخلت کرتے ہوئے ان کے کام میں رخنہ اندازی کررہے ہیں۔پنجاب کےگورنر ریاستی حکومت کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے جبکہ انہیں حکومت کی تجویز کو مسترد کرنے کا حق نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سیشن کے انعقاد کیلئے حکومت کی درخواست پر قانونی مشورہ لیں گے۔ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں گورنر کو ان کی حدود یاد دلانی پڑیں۔ آخرکار انہیں عدالت کو بتانا پڑا کہ وہ سیشن بلا رہے ہیں۔ اس کے باوجود عدالت نے کہا کہ انہیں حکومت کی تجویز پر عمل درآمد نہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔کچھ اسی طرح چند دن قبل سپریم کورٹ نے دہلی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے انتخاب میں لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے نامزد کردہ اراکین کو ووٹنگ کا حق دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار  دےدیا تھا۔
 سپریم کورٹ کی سختی کے بعد طلب کئے گئے پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب میں گورنر نے  ریاستی حکومت کی طرف سے دی گئی تقریر سے الگ ہٹ کر حکومت کو کچھ نصیحتیں دیں۔  اس کیلئے کانگریس لیڈر نے گورنر کی حوصلہ افزائی کی۔یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ عام آدمی پارٹی سے اپنے اختلاف کی وجہ سےکانگریس پارٹی، قائم شدہ پارلیمانی روایات کی خلاف ورزی میں پیش پیش تھی۔ کانگریس لیڈر نے گورنر سے کہا کہ وہ اپنے خطاب میں حکومت کیلئے’اپنی سرکار‘ یا ’میری سرکار‘ نہ کہیں۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ کو اعتراض کرنا پڑا لیکن کانگریس نے بہرحال گورنر کو ایک موقع دیا کہ وہ اس موقع کو حکومت کو شرمندہ کرنے کیلئے استعمال کریں۔
 اگر آپ کو یاد ہو تو ایسا ہی کچھ تمل ناڈو کے گورنر نے بھی کیا تھا جس کے بعد وزیر اعلیٰ  کو اعتراض کرنا پڑا تھا ۔ پڈوچیری کی لیفٹیننٹ گورنر بھی کچھ اس طرح کا برتاؤ کرتی رہی تھیں۔ دہلی میں تو لیفٹیننٹ گورنروں نے یہ طے کرلیا ہے کہ حکومت وہی چلائیں گے۔
 دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کے بعد کانگریس پارٹی کا ردعمل بھی مایوس کن تھا۔ اگرچہ اُن پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن گرفتاری کی حمایت یا اس پر خاموش رہنا خطرناک تھا۔ سب نے کہا کہ منیش سیسودیا کی گرفتاری غیر ضروری ہے لیکن کانگریس لیڈروں نے مزید آگے بڑھ کر وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا۔
 جمہوریت ہر عمل یا فیصلے کو محض انتخابات میں اکثریت کی منطق پر کسی طور پر نافذ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ مختلف ادارہ جاتی میکانزم بنائے گئے ہیں تاکہ عوام کے ہر طبقے کے خیالات کو وسیع تر غور و فکر میں شامل کیا جا سکے۔ اسی طرح کسی پر الزام لگادینا  ہی کافی نہیں کہ اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے۔یہ درست ہے کہ خود عام آدمی پارٹی کا بھی یہی رویہ رہا ہے۔ منیش سیسودیا کی گرفتاری کے بعد کرناٹک میں دہلی کے وزیر اعلیٰ نے بدعنوانوں کو جیل بھیجنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ اگر جیل بھیجنا اتنا ہی آسان ہے اور یہی اس کا حل ہے تو پھر انہی کی منطق کے مطابق منیش سیسودیا کی گرفتاری درست ہے۔
 لیکن کانگریس پارٹی، عام آدمی پارٹی کی طرح برتاؤ نہیں کر سکتی۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ چونکہ اس نے اس کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا ہے، اس کے لیڈروں کو ہراساں کیا گیا تو وہ خاموش رہی تھی، اسلئے وہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے گی۔کانگریس پارٹی نے پارلیمانی جمہوریت کا رواج قائم کیا ہے۔ اس  بنیاد اور اس رواج کی خلاف ورزی میں ملوث ہونا پارلیمانی طرز عمل کے شعور  ہی کو نیست و نابود کر دے گا۔
 یہ وہی کانگریس پارٹی ہے جس کے لیڈر راہل گاندھی ادارہ جاتی نظام کے زوال پذیر ہونے کی مسلسل شکایت کر رہے ہیں۔ خود کانگریس پارٹی کے لیڈران پارلیمنٹ میں اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اوم برلا اور جگدیپ دھنکر نے اپوزیشن لیڈروں کو بولنے سے روک دیا اور ان کے تئیں ایک سرپرست کی طرح رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے راہل گاندھی اور ملکارجن کھرگے  سے کہا کہ وہ بغیر ثبوت حکومت پر الزام نہیں لگا سکتے۔تو کیا یہ کوئی نئی روایت ہے کہ اپوزیشن کے لیڈران پہلے حکومت کے سامنے ثبوت پیش کریں، پھراس کی تحقیقات ہو اور اس کے بعد وہ اس معاملے پر لب کشائی کریں؟ کیا اب ایوانوں کے اسپیکر حکومت کے مقرر کردہ مانیٹر کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں؟
 پنجاب میں گورنر کے حالیہ دنوں کے رویے نے ثابت کر دیا ہے کہ بی جے پی کے لیڈر، خواہ وہ آئینی عہدوں پر ہی کیوں نہ پہنچ جائیں، جہاں ان سے غیر جانبدارانہ طریقے سے کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے،  وہ بی جے پی کے ترجمان یا نمائندے کے طور پر ہی کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں گورنر  نے ایوان سے حکومت کی طرف سے منظور شدہ کارروائیوں کو زبردستی روکنے کا کام کیا ہے۔ دوسری ریاستوں میںبھی گورنروں نے متوازی طاقت کے طورپر مرکز کی طرح برتاؤ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ سب تسلیم شدہ اور روایتی پارلیمانی اور وفاقی طرز عمل کی صریح خلاف ورزی ہے۔
 اگر کانگریس پارٹی فوری فائدے کی امید میں اور یہ سوچ کر کہ اس سے اس کی مخالف پارٹی کی ناک کٹے گی، وہ گورنروں کی جانب سے ہونے والی بے جا کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے تو ہمیں یہ کہنے دیں کہ وہ ہندوستان میں وفاقی نظام کی قبر کھودنے کا کام کر رہی ہے۔ ایسے میں بار بار  راہل گاندھی کا  ہندوستان کو ’یونین‘ کہنے کا بھی کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK