Inquilab Logo

خالق ِاَرض و سما کے افلاکی کلاک پر غور کیجئے

Updated: November 17, 2023, 3:18 PM IST | Prof. Abdul Rahman Abd | Mumbai

اس کا صحیح وقت بتانے کا طریق کار اس قدر درجۂ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ سالوں پر سال گزرے، صدیوں پر صدیاں بیتیں اور ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں قرن آئے اور گئے، مگر صحیح وقت کے معاملے میں خالق ازل کے اس کلاک میں سیکنڈ کے اربویں حصے تک کا فرق نہیں آیا۔

Man today has much more information and vision about the astronomical wonders of his solar system than his ancestors.
آج انسان اپنے نظام شمسی کے ان عجائبات ِ فلکی کے بارے میں اپنے آباء سے کہیں زیادہ خبر و نظر کا مالک ہے ۔ تصویر : آئی این این

انسان ہر روز بلکہ ہر لمحہ افلاک کے عظیم و جلیل اور وسیع کلاک (گھڑی) کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے دلفریب جمال، اس کی دلکش وقعت اور اس کی دل فزا بیکرانی کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ یہ کلاک اتنا بڑا، اس قدر فراخ، ایسا قوی اور اتنا پرہیبت ہے کہ اس کی حرکات کو اربوں انسان، خواتین اور بچے دنیا کے ہر حصے میں دیکھتے ہیں ۔ یہ کائنات کا کلاک ہے۔ اس پر سوئیاں یا ہندسے نہیں ہیں ، تاہم اس کا صحیح وقت بتانے کا طریق کار (میکانزم) اس قدر درجۂ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ سالوں پر سال گزرے، صدیوں پر صدیاں بیتیں اور ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں قرن گزرے ہیں ، مگر صحیح وقت بتانے کے معاملے میں خالق ازل کے اس کلاک میں سیکنڈ کے اربویں حصے تک کا فرق نہیں آیا۔
  ہمارے معمول کے کلاک میں تین سوئیاں ہوتی ہیں جو گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ بتاتی ہیں ۔ اسی طرح دیدۂ ظاہربین کے لئے آفاق کے کلاک میں بھی سوئیوں کی جگہ تین اجزاء ہیں ۔ یہ تین اجزاء ہماری زمین، چاند اور ہمارا سورج ہیں جو حیات و جمال اور جلال کا مرقع ہیں ۔ انسان کی رہائش اور زندگی کے لئے پانی، ہوا، حرارت اور روشنی جیسی ہزاروں ضروریات کیلئے موزوں ترین زمین، حسن ماہ کامل کا مالک ہمارا شہزادۂ جمال یعنی ضوفشاں قمر اور قوی و عزیز تابندہ و پائندہ آفتاب عالمتاب، آتش و حرارت سے غضبناک کہ جس کی طرف ہم آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہیں سکتے، اصل ابوالہول یعنی ہولناک، مرکز نور و حرارت، صاحب ہیبت و جلال، مہر درخشاں ، مرکز نظام شمسی جس کے گرد آخری سیارہ پلوٹو ۳؍ارب ۶۷؍کروڑ میل کے حیرت فزا فاصلے پر محو طواف ہے۔
  آج انسان اپنے نظام شمسی کے ان عجائبات ِ فلکی کے بارے میں اپنے آباء سے کہیں زیادہ خبر و نظر کا مالک ہے اور اتنا ہی زیادہ متحیر ہے بلکہ حیرت سے انگشت بدنداں ہے۔ اب اسے علم ہے کہ کائنات کی بے کنار فضا میں سیارے اور ستارے اتنے دور اور بعید ہیں کہ گویا امر ِ غیب ہیں ۔ گلیلیو اور دوسرے خردمندوں نے دوربین ایجاد کرکے علم کے اصل حیرت کدے میں گویا ایک کھڑکی کھول دی۔ جدید رصدگاہیں پورے عالم میں جابجا پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنی ہوئی ہیں جن میں ایسی دوربینیں لگی ہوئی ہیں جو کروڑوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع اجرام فلکی کو تلاش کرلیتی ہیں ۔ ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے بعید بین (دور تک دیکھنے والے) ماہرین افلاک اس طرح آسمانوں کو چھان مارتے ہیں جس طرح بہت بلندی پر اڑتا ہوا شاہین، وسیع و عریض زمین و کوہستان پر اپنی تیز اور گہری نگاہ سے اپنے صید کی تلاش کررہا ہوتا ہے۔ 
 انتہائی حساس اور جدید ترین دوربین کائنات کے آخری بعید کناروں سے ریڈیائی لہروں کے سگنل کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ اب ماہرین علم الافلاک ہمیں ریڈیو اسٹرانومی کی مدد سے خالق و مالک کی ناقابل یقین وسعتوں والی اس بے حدود جنت نگاہ میں لے آئے ہیں جو ممکن ہے قدرت کے ازلی منصوبے میں حیات بعدالممات کی ابدی زندگی میں غیرفانی انسان کی جولاں گاہ بنے گی۔
 رصدگاہوں میں بیٹھے ہوئے سائنسداں جدید ترین کیمروں کی مدد سے ان ’’غائب‘‘ سیارگان کو ہمارے دیدہ و دل کے لئے ’’حاضر‘‘ بنارہے ہیں ۔ سیاروں کے فاصلوں کو ناپتے ہیں ، ان کی کمیت، کثافت اور درجہ ٔ حرارت بتاتے ہیں ، ان کے قطر، حجم اور رفتار کے بارے میں معلومات دیتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان میں سے کس کے گرد کتنے چاند ہیں اور وہ آفتاب کے گرد اپنی سالانہ سیر اور اپنے محور کے گرد چکرکتنے عرصے میں مکمل کرتے ہیں ۔ علمائے افلاک ان کی کشش، جھکاؤ اور دباؤ کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ وہی کہتے ہیں کہ ہماری زمین کا مادہ یا کمیت ۶۰؍ کے آگے ۲۰؍ صفیں میٹرک ٹن ہے۔ اف خدایا، ہماری زمین کتنی بڑی ہے!
 لیکن نہیں ، یہ تو سورج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ سورج اتنا بڑا ہے کہ ہماری زمین جیسی سواتین لاکھ زمینیں اس میں سما سکتی ہیں ۔ عطارد ہمارے تین ماہ کے عرصے میں سورج کے گرد طواف مکمل کرتا ہے جبکہ پدی جتنا پلوٹو ہمارے ۲۴۸؍ سالوں کے برابر وقت میں اپنا ایک سال یعنی سورج کے گرد ایک طواف مکمل کرتا ہے۔ زہرہ وہی سیارہ ہے جو کبھی طلوع آفتاب سے پہلے مشرق کی جانب اور اکثر غروب آفتاب کے بعد مغرب کی جانب ضوفشاں نظر آتا ہے۔ فیض فطرت نے آپ کو دیدۂ شاہین عطا کیا ہے تو اسی طرح خلوت زہرہ و زحل و زمین میں یہ اسرار ہیں فاش، جو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ’’نگاہ چاہئے اسرار لاالہ کے لئے۔‘‘
  داستان آفاق کے یہ کردار اپنی دلچسپ سرگزشت بیان کرتے ہیں ۔ یہ جو نظارہ ہائے گوناگوں دکھاتے ہیں ، اس پر اور ان اجرام کائنات کی نزاکتوں اور عظمتوں پر دیدہ ور کا دل عجب طرح سے دھڑکتا ہے اور وہ مجسم سوال بن جاتا ہے کہ ’’وہ عقل کل اور دانا و بینا ہستی کون ہے جس نے ان بھاری بھرکم اجسام کو بے کراں خلاؤں میں ان کے ازلی راستے پر ڈالا ہے اور ان کے مدار و مسیر (سیر کی جگہ) مقرر کئے ہیں ؟ وہ ذات ِ اعلیٰ و عظیم کون ہے جس کے ادراک، دانش اور قوت و طاقت نے ایسی زبردست تخلیقات جلیلہ کیں ؟ کس نے ان کی تصویر و تشکیل اور تخلیق کا حکم دیا اور فرمان جاری کیا ’’کُن‘‘ چنانچہ فوراً تعمیل ہوئی ’’فیَکُون‘‘ اور اعظم زمین، اعلیٰ قمر، شاندار آفتاب، غیرمحدود فضا، زبردست کہکشائیں اور متحیر کن کائنات وجود میں آگئی ۔
 ہماری مقدس کتاب ہمیں ابدی صداقت کی راہ دکھاتی ہے اور بیان کرتی ہے : ’’وہی ہے جس نے سُورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو، اللہ نے یہ سب کچھ (کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) با مقصد ہی بنایا ہے وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں ۔‘‘ (یونس:۵)
  خالق ارض و سما کا افلاکی کلاک کیا ٹک ٹک کرتا ہے اور غور و فکر کرنے والے ہوشمند کو کیا پیغام دے رہا ہے؟ حکیم الامت کی ایک مشہور نظم کے تین مصرعے اس پیغام کی ترجمانی کرتے ہیں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اے وقت اور زمانوں کے پیدا کرنے والے! انفس و آفاق میں تیری نشانیاں ظاہر و باہر ہیں اور (بلاشبہ) تیری ہی ذات لازوال اور حی و قیوم ہے:
اے انفُس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تِری ذات
تُو خالقِ اعصار و نگارندۂ آنات! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK