Inquilab Logo

معیاری تعلیم کو مستحکم بنانا ضروری ہے

Updated: June 22, 2023, 10:28 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

یوپی ایس سی یا نیٹ یوجی کے نتائج میں مسلم اقلیتی طبقے کی تعداد بڑھی ہے تو اس میں خطہ کشمیر اور جنوبی ہند کے امیدواروں کی حصہ داری زیادہ ہے اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان ریاستوں میں پرائمری سے لے کر سیکنڈری اسکولوں میں معیاری تعلیم کا نظام شمالی ہند کے مقابلے قدرے مستحکم ہے ۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

حال ہی میں ملک کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے انٹرنس امتحان یعنی نیٹ کا نتیجہ شائع ہوا اور مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ معلومات عام ہوئی کہ اس بار کے اس قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم اقلیت طبقے کے بچوں نے بہترین مظاہرہ کیا ہے اور گزشتہ دن قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات برائے داخلہ انجینئرنگ کالجوںکے لئے جی ای ای ایڈوانس کا رزلٹ شائع ہوا ہے اور اس میں بھی خاطر خواہ بہتر نتیجے آئے ہیں ۔ قبل از یوپی ایس سی کا رزلٹ آیا تھا اور اس میں بھی ۳۰؍سے زائد اقلیت طبقے کےطلبہ  نے کامیابی حاصل کی ۔ جب کبھی قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات کے رزلٹ آتے ہیں تو ذرائع ابلاغ میں اظہارِ مسرت کی خبروں کے ساتھ ساتھ ان نتائج پر افسوس ظاہر کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی ، ان کی یہ شکایت رہتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی شرح آبادی کا فیصد ہے اس کے تناسب میں ہمارا رزلٹ مایوس کن ہے۔ دراصل اظہار افسوس کرنے والے حضرات شاید اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے کہ قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات کئی سطحی ہوتے ہیں مثلاً یوپی ایس سی کے لئے پہلے پریلیمس ٹیسٹ اور پی ٹی میں پاس کرنے کے بعد مینس امتحان کی کامیابی کے بعد انٹرویو میں شمولیت کا موقع ملتا ہے۔ آخر نتیجہ انٹرویو اور مینس امتحان کے نمبرات کی بنیاد پر حاصل ہوتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ جب پی ٹی امتحان میں ہی ہماری تعداد کم ہوگی تو پھر یہ فطری عمل ہے کہ مینس میں بھی ہماری تعداد قدرے کم ہوگی اور پھر انٹرویو میں بھی ہماری حصہ داری کم ہوگی۔ ظاہر ہے کہ آخری نتیجے میں شرح آبادی کے تناسب میں اعداد شماری اور پھر اس نتائج پر طرح طرح کے سوالات قائم کرنا بلکہ ذہنی تعصبات اور تحفظات کا مبینہ الزام عائد کرنا مناسب نہیں ہے ۔ہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ برسوں میں ذہنی تعصبات اور تحفظات کا گراف بلند ہوا ہے لیکن آج بھی قومی سطح کے مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں شفافیت برقرار ہے اور ان امتحانات کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہمارے طلبہ کامیابی کا پرچم بلند کر رہے ہیں ۔ حالیہ برسوں میں جامعہ ملّیہ اسلامیہ، نئی دہلی ، زکوٰۃ فائونڈیشن دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ، شاہین گروپ کرناٹک ، حج ہائوس کوچنگ مرکز پٹنہ بہار، حج ہائوس کوچنگ مرکز ممبئی اور کئی رضا کار تنظیموں کے ذریعہ ملک کے مختلف حصوں میں اقلیتی  طلبہ کیلئے مفت مقابلہ جاتی امتحانات کی کوچنگ کا اہتمام ہے، بالخصوص جامعہ ملّیہ اسلامیہ ، نئی دہلی کوچنگ مرکز سے یوپی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد اطمینان بخش ثابت ہو رہی ہے۔اسی طرح حج ہائوس پٹنہ مفت کوچنگ مرکز سے بہار پبلک سروس کمیشن اور دیگر ریاستی وقومی سطح کے امتحانات میں شامل ہونے والے امیدوار بہترین مظاہرہ کر رہے ہیں اور فخریہ رزلٹ بھی سامنے آرہاہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حج ہائوس پٹنہ مفت کوچنگ مرکز بہار کے چیف سیکریٹری عامر سبحانی کی خصوصی توجہ سے چل رہاہے اور ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جناب سبحانی آئی اے ایس ٹاپر ہیں اور گزشتہ تین دہائیوں سے اقلیتی طبقے میں مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں بیداری مہم کے لئے سرگرم ہیں۔ 
 بہر کیف! قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات ہوں یا ریاستی سطح کے امتحانات ، ان میں جب تک پہلے مرحلہ یعنی پی ٹی امتحان میں اقلیتی طبقے کی حصہ داری نہیں بڑھے گی اس وقت تک آخری نتائج میں ہماری تعداد نہیں بڑھ سکتی ۔ دراصل حال کے دنوں میں اگر یوپی ایس سی یا نیٹ یوجی کے نتائج میں مسلم اقلیتی طبقے کی تعداد بڑھی ہے تو اس میں خطہ کشمیر اور جنوبی ہند کے امیدواروں کی حصہ داری زیادہ ہے اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان ریاستوں میں پرائمری سے لے کر سیکنڈری اسکولوں میں معیاری تعلیم کا نظام شمالی ہند کے مقابلے قدرے مستحکم ہے ۔ ساتھ ہی سا تھ اعلیٰ تعلیم کا معیار بھی تشفی بخش ہے ۔ جنوبی ہند اور خطہ کشمیر میں اقلیتی طبقے کے صاحب ثروت اور ذی علم افراد نے جتنے تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں ، شمالی ہند میں اس طرح کی کوششیں بھی معدوم ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اپنے طلبہ کو معیاری تعلیم سے محروم رکھیں گے اور پھر مقابلہ جاتی امتحانات کی باریکیوں اور تقاضوں سے انجان رہیں گے تو حسب روایت ہر نتائج کے بعد اظہارِ افسوس کی خبریں آتی رہیں گی ۔ اس لئے سر پیٹنے سے بہتر یہ ہے کہ اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھئے اور اپنے ادارے قائم کیجئے اور معیاری تعلیم کے تئیں بیدار رہئے کہ اب ملک میں جس طرح کی مکدر فضا قائم ہو گئی ہے اس میں ہمیں بس یہی ایک کام فلاح کا راستہ ہموار کر سکتا ہے ۔ریاست بہار کے ایک قومی لیڈر اور بہار قانون ساز اسمبلی میں کانگریس کے لجسلیٹو لیڈر ڈاکٹر شکیل احمد خاں سے کچھ دنوں پہلے راقم الحروف کی ملاقات ہوئی تھی وہ بھی جنوبی ہند کی طرح شمالی ہند بالخصوص اترپردیش، بہار ،راجستھان، مغربی بنگال ، اڑیسہ اور مدھیہ پردیش میں اقلیت طبقے کے تعلیمی اداروں کے فقدان پر فکر مند نظر آئے۔ انہوں نے اپنے آبائی گائوں کدوا ، ضلع کٹیہار میں اپنی پانچ ایکڑ زمین دے کر اور دو ایکڑ زمین فروخت کرکے اسکول کی بنیاد ڈالی ہے ۔اگر اسی طرح کی فکر عام ہوجائے تو الحمدللہ مسلم معاشرے میں بھی ایسے صاحبِ ثروت افراد کی کمی نہیں ہے جو اپنے خطے اور علاقے میں ہم خیال اور ہم درجہ افراد کا گروپ بنا کر تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے زکوٰۃ کی رقم کا بھی اجتماعی طورپر صحیح استعمال کرنے لگیں تو ممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو غریب اور نادار خاندان میں ذہین طلباء وطالبات ہیں ان کیلئے معقول اور معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کا نظم کر سکیں تو وہ دن دور نہیں کہ یوپی ایس سی کے امتحان ہوں یا مختلف ریاستی پبلک سروس کمیشن کے امتحانات، اسٹاف سلکشن کے امتحان ہوں، انڈین ریلویز اور بینک کے امتحانات ہوں یا پھر مرکزی حکومت کے مختلف سکریٹریٹ کے امتحانات ان سبھوں کے نتائج میں ہماری حصہ داری بھی بڑھے گی اور جب حصہ داری بڑھے گی تو نتائج کے تناسب میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ہندوستان میں اقلیتی طبقے بالخصوص مسلم اقلیتی طبقے کیلئے بس ایک ہی راستہ ہے جو اسے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے وہ راستہ ہے معیاری تعلیم کا،  مختلف طرح کے قومی وریاستی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ داری ہی روشن مستقبل کی ضامن ہوسکتی ہے۔

UPSC Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK