Inquilab Logo

جھوٹ کی تشہیر سے عوام کو ’ہیٹ اسٹوری‘ کا کردار بنانے کی سازش

Updated: May 15, 2023, 5:48 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

متنازع فلم ’ کیرالا اسٹوری ‘ کے ذریعہ کچھ اسی طرح کی سازش رچی گئی ہے، اس میں ایک صریح جھوٹ کو سچ کی شکل دے کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے

How far BJP can go to spread hate can be felt through this poster
نفرت کی تشہیر کیلئے بی جے پی کس حد تک جاسکتی ہے، اس پوسٹر کے ذریعہ محسوس کیا جاسکتا ہے

آمرانہ ذہنیت کے حامل حکمرانوں کا یہ پسندیدہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے اہداف کو سر کرنے کیلئے جھوٹ کی تشہیر اتنے زور و شور سے کرتے ہیں کہ جو صریح جھوٹ ہوتا ہے اس پر سچ ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی طرز عمل سے ان کو اپنے مقصد میں کامیابی تو مل جاتی ہے لیکن اس کے عوض میں ملک اور معاشرہ کا جو نقصان ہوتا ہے اس کی تلافی میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ برسوں کی مدت بھی حالات کو بہتر بنانے کیلئے ناکافی ہوتی ہے ۔ اس طرز کے پروپیگنڈہ کو سچ مان لینے والے اس وقت افسوس اور پچھتاوے کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن اس اظہار سے ان نقصانات کی بھرپائی نہیں ہو سکتی جو ملک اور معاشرہ کو مختلف سطحوں پر اٹھانے پڑتے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ملک میں اسی طرز کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جس میں کسی جھوٹ کو حقیقت کا لبادہ اوڑھا کر عوام کو ذہنی طور پر اپنا اطاعت گزار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اکثر یہ کوشش اسلئے کامیاب بھی ہو جاتی ہے کہ عوام کے درمیان اس کی پیشکش کا جو حربہ استعمال کیا جاتا ہے وہ بہت دلفریب ہوتا ہے ۔ اس فریب کے دام میں گرفتار ہونے والے لوگ ان حقائق کو بھی خاطر میں نہیں لاتے جن کی تصدیق مختلف مواقع پر خود اقتدار کی جانب سے کی جاتی ہے۔
 ان دنوں جس متنازع فلم ’ دی کیرالا اسٹوری ‘ پر ملک میں بحث و مباحثے کا دور جاری ہے اس کے متعلق بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ فلم دراصل اسی طرز تشہیر کی ایک کڑی ہے جس میں صریح جھوٹ کو سچ کی شکل دے کر عوام کے درمیان پیش کیا جاتا ہے۔فلمی دنیا میں اقتدار کی چاپلوسی کرنے والا ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو اپنے فن کا استعمال ملک میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کیلئے کر رہا ہے۔ فلمسازی کا فن بنیادی طور پر محبت اور یگانگت کو فروغ دینے سے عبارت ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب یہ فن بھی مذہبی سیاست کے مکڑ جال میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ایسی فلمیں بنانے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اُن کے ذریعہ پیش کئے گئے مناظر، ناظرین کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر کس کیفیت سے دوچار کریں گے؟ دی کیرالا اسٹوری جیسی فلمیں دیکھنے کے بعد ناظرین کے ذہنوں پر کوئی مثبت تاثر قائم ہو ، اس کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے۔ اب سے کچھ برس اسی طرز کی ایک اور فلم ’ دی کشمیر فائلز‘ نے بھی سماجی سطح پر کشیدگی پیدا کرنے کا کام کیا تھا۔ لیکن ’دی کیرالا اسٹوری‘ تو ’کشمیر فائلز ‘ سے بھی دو قدم آگے نکلی۔ اس کے ڈائریکٹر نے دیدہ دلیری سے اپنی من گھڑت کہانی کو ایک حقیقت کے طور پر فلم میں پیش کیا ہے اور اس کا مقصد اسلامو فوبیا پھیلانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران اس طرز کی فلمیں نہ صرف یہ کہ بن رہی ہیں بلکہ عوام کا ایک طبقہ انھیں پسند بھی کرتا ہے؟ 
 اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ارباب اقتدار کی اس حکمت عملی پر نظر ڈالنا پڑے گی جو پس پشت ایسے لوگوں کی پشت پناہی کرنے پر مبنی ہے جو اس طرز کے تشہیری پروپیگنڈہ کو پروان چڑھانے میں ان کیلئے آلہ  ٔ کار بن سکیں۔ اس حکمت عملی کا جو فوری اثر ہوتا ہے وہ یہ کہ ایسی فلمیں دیکھنے کے بعد ناظرین کا ایک طبقہ فرقہ واریت کے اس رجحان پر بڑی شدت کے ساتھ عمل کرنے لگتا ہے جو رجحان مذہبی سیاست کے بازی گروں کا پروردہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جب ایسی نفرت آمیز تشہیری مہم کی مخالفت کی جاتی ہے تو مخالفت کرنے والوں کو ملک دشمن عناصر سے ساز باز رکھنے والوں کے طور پر مشتہر کیا جانے لگتا ہے۔ یہ تشہیر اس وقت مزید شدت اختیار کر لیتی ہے جب اس میں سرکاری مشینری کا استعمال کیا جانے لگتا ہے۔اولاً تو یہی غلط ہے کہ سرکاری وسائل کا استعمال اس طور سے فرقہ وارانہ منافرت کو عام کرنے کیلئے کیا جائے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انتخابی مہم میں رائے دہندگان کے درمیان فرقہ واریت کو عام کرنے کیلئے ایسے حربے استعمال کئے جائیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں الیکشن مرکوز سیاست نے ایسا ہی ماحول تعمیر کر دیا ہے جس میں عوام کی بنیادی ضرورتوں اور مسائل پر گفتگو کے بجائے فرقہ واریت کے رجحان کو تقویت عطا کرنے موضوعات کو ترجیح دی جارہی ہے۔
 گزشتہ دنوں کرناٹک کی انتخابی مہم کے دوران جب وزیر اعظم سمیت بھگوا پارٹی کے دیگر لیڈروں نے اس طرز کی تشہیرمیں اپنا دم خم لگا دیا تو اس سے واضح ہو گیا کہ ایسی فلمیں دانستہ طور پر بنائی ہی اسلئے جاتی ہیں کہ وہ انتخاب کے دوران دائیں ان کی حمایت میں رائے دہندگان کی ذہن سازی کرسکیں۔ اس فلم کے ضمن میں یہ بھی بڑی حیرت کی بات ہے کہ عدلیہ کے سامنے فلمسازوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ فلم میں کیرالا سے لاپتہ ہونے والی لڑکیوں کی جو تعداد (۳۲؍ ہزار)فلم میں بتائی گئی ہے اس کا کوئی مصدقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں ہے۔ فلمسازی کے ذریعہ فرقہ واریت کے کاروبار میں ملوث فلمسازوں نے اس ریاست کے دو سابق وزرائے اعلیٰ کے بیانات کو مسخ کر کے ۳؍ کی تعداد کو نہ صرف یہ کہ ۳۲؍ ہزار میں تبدیل کر دیا بلکہ انتہائی دیدہ دلیری سے اس کی تشہیر بھی کرتے رہے۔ اس فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کیرالا سے لاپتہ ہونے والی لڑکیاں داعش میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں جو آنے والے دنوں میں ملک کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہیں۔  اس طرح سے صریح جھوٹ کی بنیاد پر ملک کے سماجی اتحاد اور یگانگت کو متاثر کرنے والی فلمیں بنانے والے اور ان کی پذیرائی کرنے والے کس منہ سے خود کو ملک کا خیر خواہ کہیں گے یہ سوچنے والی بات ہے۔
 یہ فلم جس موضوع پر بنائی گئی ہے اس ضمن میں سرکاری اعداد و شمار اور فلم میں پیش کئے گئے اعداد و شمار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسے افراد کی تعداد زیادہ سے۲۰۰؍ ہے جو یا تو داعش میں شامل ہوئے ہیں یا کسی بھی سطح پر اس گروہ سے ہمدردی رکھتے ہیں۔یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ فلم بنانے والوں کی اس حرکت کوکیا محض ایک غلطی کہہ کر درگزر کر دیا جائے؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کہنے سے حکومت کی اس کارکردگی پر بھی حرف آئے گا جو ایسے حساس معاملات میں اس کی حکمت عملی کے معتبر اور موثر ہونے سے متعلق ہے۔ ایسی صورت میں اقتدار کو خود اس کا نوٹس لینا چاہئے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے اور وزیر اعظم خود اس فلم کی تشہیر اور پذیرائی اس انداز میں کر رہے ہیں جیسے کہ فلم میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ صد فیصد مبنی بر حقیقت ہے۔جس اسٹیج سے مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے موضوع پر اپنی کارکردگی بیان کرنا چاہئے اس اسٹیج سے ایسی لایعنی اور منافرت پھیلانے والی فلموں کا ذکر یہ ثابت کرتا ہے کہ دراصل اس حکومت نے عوام کی فلاح و ترقی کیلئے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔اسی لئے جہاں کانگریس لیڈر اپنی انتخابی ریلیوں میں عوامی فلاح و ترقی کے مسائل پرمسلسل زور دیتے رہے وہیں دوسری جانب بی جے پی اور اس کی ہمنوا دوسری پارٹیوں نے ایسے موضوعات کے دامن میں پناہ لی جن کا عوام کے مسائل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
 فلمی دنیا سے وابستہ شخصیات کا فرقہ ورانہ عناصر کے ہاتھوں کا کھلونا بن جانا انتہائی افسوس ناک صورتحال  ہے۔یہ شخصیات جس طرح ان عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہیں وہ آئندہ دنوں میں مزید مسائل کا باعث بنے گا۔ ایسے میں عوام کو اپنی ہو شمندی اور بیداری کا ثبوت دینے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ اس طرز کی تشہیری سازش سے اپنے اذہان کو محفوظ رکھ سکیں۔  اگر یہ سازش کسی بھی طور سے عوام کے ذہنوں کو متاثر کرتی ہے تو سماجی ہم آہنگی کا نظام بھی متاثر ہوگا جو بہرحال سماجی ڈھانچے کی سالمیت پر بھی اثر انداز ہوگا۔ چونکہ آئندہ سال پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں اسلئے آنے والے دنوں میں مزید ایسی فلموں کی تشہیر سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو فرقہ واریت کے رجحان کو فروغ دینے کا حربہ بنیں۔ عموماً ایسے حربے وہی حکومتیں یا پارٹیاں استعمال کرتی ہیں جن کا عوامی مسائل اور معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ایسے تشہیری حربوں کو اسی وقت ناکام بنایا جا سکتا ہے جب عوام ان کے فریب سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس وقت ملک کے عوام میں اس سطح کی ہوشمندی وقت کا ناگزیر تقاضا ہے جسے تادیر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK