Inquilab Logo

تیزی سے بڑھ رہے سائبر کرائم پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج

Updated: December 17, 2023, 1:21 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق ملک گیر سطح پر گزشتہ سال کے مقابلے اس سال سائبر کرائم میں اضافے کی شرح ۲۵؍ فیصد رہی ہے۔

Every country is worried about cybercrime whether it is developed or developing. Photo: INN
سائبر کرائم سے ہر ملک پریشان ہے خواہ وہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر۔ تصویر : آئی این این

ملک گیر سطح پر جرائم کا جائزہ لینے والے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے حال ہی میں ۲۰۲۲ء کی جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق سائبر کرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق سابقہ سال کے مقابلے اس سال سائبر کرائم میں اضافہ کی شرح ۲۵؍ فیصد رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک گیر سطح پر مختلف قسم کے جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بیشتر جرائم کا ہدف معمر شہری، خواتین اور بچے رہے ہیں ۔اس رپورٹ کی رو سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کی حقیقی صورتحال کو سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجائے اگرغیر جانب دارانہ طور پر دیکھا جا ئے تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ سماجی نظام میں قانون کی بالادستی کا تصور روز بہ روز دھندلا پڑتا جا رہا ہے۔ ملک گیر سطح پر سائبر کرائم میں اضافہ کی رفتار اس تصور کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔اس ضمن میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے اب تک جو بھی اقدامات کئے گئے ہیں وہ اس قدر موثر نہیں ثابت ہورہے کہ اس طرز کے جرم میں ملوث عناصرپر قانون کی گرفت مضبوط ہو سکے اور عام شہریوں کو اس سے محفوظ رکھا جا سکے۔ دیگر جرائم کی بہ نسبت سائبر کرائم کی نوعیت قدرے پیچیدہ اور سنگین ہوتی ہے اور فی الحال قانونی سطح پر اس کے سد باب کیلئے جو دفعات موجودہیں وہ بجائے خود اس حد تک پیچیدہ ہیں کہ اس طرز کے جرائم کا شکار ہونے والوں کو اکثر جرم اور قانون کی دو متوازی پیچیدہ راہوں پر سفرکرنا پڑ سکتا ہے اور بیشتر اس سفر کی منزل ہاتھ نہیں آتی۔
 ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی معاشرہ میں سہولت اور آسائش کے جو اسباب فراہم کئے ہیں ان سے زندگی میں یقیناً بڑی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں لیکن ان آسانیوں کے ساتھ بعض ایسی دشواریا ں بھی انسانی سماج کا مقدر بن گئی ہیں جن سے نجات پانے کا کوئی موثر طریقہ اب تک دریافت نہیں ہو سکا ہے ۔ جیسے جیسے ٹیکناجولی ترقی کی راہ پر آگے بڑھتی جا رہی ہے ان دشواریوں میں بھی اضافہ اسی تناسب میں ہو رہا ہے ۔ اگر اس صورتحال کا جائزہ سماجی سطح پر لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے سبب نہ صرف سماجی ڈھانچہ میں افکار وافعال کی سطح پر تبدیلی واقع ہو رہی ہے بلکہ اس کے سبب اقدار حیات کی نوعیت بھی بدل رہی ہے اور غلط و صحیح کا تصور اب باطل ہوتا جا رہا ہے جو اَب سے کچھ دہائی قبل سماج میں رائج تھا۔ جس طرح انسان اور کائنات سے وابستہ اشیاکی حقیقت کو کسی ایک جہت کا پابند نہیں بنایا جا سکتا اسی طرح ٹیکنالوجی کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں اور سائبر کرائم اس کا وہ منفی پہلو ہے جس نے عالمی سطح پر مقتدر شخصیات کے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ وہ اپنے ملک اور سماج کو اس سے کس طرح بچائیں ؟
 ہندوستان میں اس طرز کے جرائم پر قابوپانے کیلئے ٹیکنالوجی کی مدد ہی سے کچھ ایسے اقدامات کئے گئے ہیں جوجرم کی نوعیت کے اعتبار سے اس کے سدباب کے اسباب فراہم کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں نیشنل سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل کو ایک اچھی شروعات کے طور پر دیکھا گیا۔ ۲۰؍جنوری ۲۰۲۰ء سے قبل اس پورٹل پر صرف انہی جرائم کو درج کیا جاتا تھا جو جنسی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں لیکن اب اس پورٹل پر ہر طرح کے سائبر کرائم کی اطلاع دی جا سکتی ہے ۔ جرم کی نوعیت کے اعتبار سے پولیس کی سائبر سیل کارروائی کرتی ہے۔ اس پورٹل پر جرم کا اندارج کرانے کیلئے حکومت نے ایک نیشنل ہیلپ لائن نمبر۱۹۳۰ بھی فراہم کیا ہے۔ لیکن یہ پورٹل بھی سائبر کرائم پر قابو پانے میں اب تک کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکا ہے۔ اس ضمن میں چھ ماہ قبل ایک سروے رپورٹ آئی تھی جس کی رو سے اس پورٹل پر ۲۱؍ لاکھ معاملات کا اندراج ہوا لیکن ان میں سے صرف ۲؍ فیصد معاملات میں ایف آئی آر ہو سکی۔ اس مرحلے کو عبور کرنے کے بعد پولیس کی سائبر سیل انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ ۲۰۰۰ء کے تحت کارروائی کرتی ہے۔ خاطی عناصر کو پکڑنے کیلئے جو اقدامات کئے جاتے ہیں وہ قانونی اعتبار سے اس قدر پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان سے نتیجہ حاصل کرنے میں طویل مدت درکار ہوتی ہے اور اکثر و بیشتر یہ کارروائی بے نتیجہ ہی رہتی ہے۔ قومی سطح پر سائبر کرائم کے ۷۰؍ہزار سے زیادہ معاملات التوا میں ہیں ۔ گزشتہ دنوں میڈیا میں ایک خبر آئی تھی کہ صرف ممبئی میں پچھلے پانچ برسوں کے دوران سائبر کرائم میں اضافہ کی شرح ۲۴۳؍فیصد رہی ہے ۔ اس خبر کے مطابق ۲۰۲۲ء میں سائبر کرائم کے جتنے معاملات ممبئی میں درج کئے گئے ان میں سے صرف ۸؍ فیصد معاملات حل ہو سکے۔ یہ صورتحال واضح طور پر سائبر کرائم پر قابوپانے کے سلسلے میں کئے جانے والے دفاعی اقدامات کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔
 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹیکنالوجی کی مدد اور قانون کی دفعات کے ذریعہ جدید دور کے اس مشینی جرم پر اب تک موثر انداز میں قابو نہیں پایا جا سکا تو آخر عوام کو کس طرح اس کے چنگل میں پھنسنے سے بچایا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ انٹر نیٹ اور کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کے استعمال سے وابستہ ان مثبت اور منفی پہلو ؤں سے عوام کو آگاہ کیا جائے جن سے وہ ممکنہ طور پر دوچار ہو سکتے ہیں ۔ اس ضمن میں اب تک جو اقدامات کئے گئے ہیں ان سے عوام کے درمیان ایسی بیداری نہیں پیدا ہو سکی ہے کہ ان کا سائبر کرائم کے جال میں پھنسنے کا خدشہ ختم نہ سہی تو کم از کم اس قدر کمزور ضرور ہو جائے کہ وہ بے فکر ہوکران تکنیکی آلات کو مثبت طور پر استعمال کرسکیں ۔ عوام کو ایسے خطرات سے واقف کرانے کیلئے جو اقدامات کئے جاتے ہیں وہ عموماً مرکز یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ کئے جاتے ہیں اور اس موقع پر حکومتیں اصل موضوع سے زیادہ اپنی تشہیر کو ترجیح دینے والا رویہ اختیار کر لیتی ہیں ۔ ایسی صورت میں ممکنہ خطرہ سے آگہی حاصل کرنے کے بجائے عوام سرکار کی تشہیری چمک دمک میں محو ہو جاتے ہیں ۔چونکہ سماج سے سیاست کے رابطہ کی نوعیت اب عوام مرکوز نہ رہ کر سیاستدانوں کے مفاد پر بیشتر منحصرہو گئی ہے لہٰذا ایسے اقدامات اکثر بے اثر ثابت ہوجاتے ہیں جو عوام کی فلاح اور ترقی کے عنوان سے کئے جاتے ہیں۔
 آج ترقی کے عنوان سے سماج جس راہ پر چل پڑ ا ہے اس میں ٹیکنالوجی کو ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا ہر انسانی معاشرہ اس سنگ میل کو عبور کرنے میں ایک دوسرے پرسبقت لے جانےکی کوشش کر رہا ہے اور سماج کے شر پسند عناصر اس کوشش میں پوشیدہ ان خامیوں سے فائدہ اٹھانے کی نت نئی ترکیبیں تلاش کر لیتے ہیں جن سے عوام اور وسیع پیمانے پر ملک و معاشرہ کو نقصان پہنچایا جا سکے۔اگر ملکی تناظر میں دیکھا جائے تو دور دراز علاقوں کے عوام کی انٹرنیٹ تک رسائی نے ان کی زندگی کو اس حد تک تبدیل کردیا ہے کہ اب گاؤں اور شہر کے طرز زندگی میں فرق بہت کم رہ گیا ہے۔ اس تبدیلی کا ایک اثر یہ بھی ہوا ہے کہ اب پر آسائش اور بعض صورتوں میں پر تعیش زندگی کو عوامی سطح پر ترجیح حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ عوام اس ترجیح کو عملی شکل دینے کیلئے اکثر ایسا راستہ اختیار کر لیتے ہیں جو انھیں تکنیکی بازی گروں کے دام میں الجھا دیتا ہے ۔ اس جال میں الجھنے کے دو اسباب بہت نمایاں ہیں ۔ ایک یہ کہ تھوڑے وقتوں میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنا اور دوسرے اپنی بے قابو ہوتی جنسی خواہشات کی تشفی کے راہ ہموار کرنے کیلئے تکنیکی آلات کا استعمال کرنے کا رجحان۔ان دو رجحانات کے علاوہ دیگر کئی اسباب بھی سائبر کرائم کا شکار بننے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن انسان کی ان دو خواہشوں کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرناعموماً سائبر مجرموں کا وطیرہ ہوتا ہے۔
 قانون اور حکومت سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے جو بھی اقدامات کرے وہ اس وقت تک کارگر نہیں ثابت ہوں گے جب تک کہ خود عوام اس معاملے میں بیداری اور احتیاط سے کام نہ لیں ۔ ٹیکنالوجی کے جو بھی وسائل دستیاب ہیں ان کا مثبت استعمال کرنے سے ہی سائبر کرائم کی بڑھتی رفتار کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کی ہندوستان آمد پر بھی اس پر غور کیا گیا اور سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے ساتھ ایک گھنٹہ تبادلہ ٔ خیال کے بعد امریکہ اور ہندوستان نے سائبر کرائم پر قابوپانے کیلئے باہمی طور پر کئی اہم اقدامات کا خاکہ ترتیب دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سائبر کرائم سے ہر ملک پریشان ہے خواہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک۔ فی الحال اس سے بچنے کا موثر طریقہ یہی ہے کہ عوام تکنیکی آلات کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کریں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK