Inquilab Logo

نظام سے پہلے فرد کی اصلاح کیجئے

Updated: November 19, 2021, 3:47 PM IST | Yousef al-Qaradawi

معاشرے کی دیوار میں فرد سب سے پہلی اینٹ ہے۔ اس وجہ سے فرد کی اصلاح اور ایک حقیقی مسلمان کے طور پر اس کی کامل اسلامی تربیت کیلئے جو بھی کوششیں کی جائیں اس کی دوسری چیزوں پر ترجیح ہے۔ کیونکہ یہ ہر قسم کی اصلاح اور تعمیر کیلئے ایک ضروری تمہید ہے

Faith is always the power of salvation.Picture:INN
ایمان ہمیشہ نجات کے لئے طاقت و قدرت ثابت ہوتا ہے۔ تصویر: آئی این این

اصلاح کے میدان میں اہم ترین ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ معاشرے کی تعمیر سے پہلے فرد کی تعمیر کا اہتمام کریں۔ دوسرے الفاظ میں نظام اور اداروں میں انقلاب لانے سے پہلے فرد میں انقلاب لانے کی فکر کرنی چاہئے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے ہم قرآن کے الفاظ میں بیان کر دیں، جس نے فیصلہ ہی کر دیا ہے کہ کسی بھی انقلاب کیلئے نفس کی تبدیلی ضروری ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔‘‘ (الرعد: ۱۱)یہ ہر اصلاح، ہر تبدیلی اور ہر اجتماعی تعمیر کی بنیاد ہے۔ فرد پوری عمارت کی بنیاد ہے اس لئے آغاز یہیں سے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک اچھی اور مضبوط عمارت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اگر اس کی اینٹیں بوسیدہ اور خراب ہوں۔معاشرے کی دیوار میں فرد سب سے پہلی اینٹ ہے۔ اس وجہ سے فرد کی اصلاح اور اس کی ایک حقیقی مسلمان کے طور پر کامل اسلامی تربیت کے لئے جو بھی کوششیں کی جائیں اس کی دوسری چیزوں پر ترجیح ہے۔ کیونکہ یہ ہر قسم کی اصلاح اور تعمیر کے لئے ایک ضروری تمہید ہے اور اسی کا مطلب نفس کی تبدیلی ہے۔انسان کی ایک صالح فرد کے طور پر تعمیر انبیاء کا کام تھا۔ ان کے بعد ان کے خلفاء اور وارثین بھی اسی ذمہ داری پر مامور ہیں۔انسان کی صحیح تربیت کے لئے سب سے پہلے اس کی بنیاد ایمان پر رکھی جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اس کے دل میں درست عقیدے کا پودا لگا دیا جائے۔ یہ عقیدہ دنیا کے بارے میں اور خود انسان کے بارے میں اس کے نظریے کو درست کردیتا ہے، زندگی کے بارے میں اور اس کے رب کے بارے میں اس کے نظریے کی تصحیح کرتا ہے جو اس کا خالق ہے، جس نے اسے زندگی بخشی ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو اس کے آغاز اور انجام کے بارے میں خبردار کرتا ہے۔ یہ انہیں ان سوالات کا جواب دیتا ہے، جو بے دین لوگوں کو ہر وقت پریشان کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ میں کون ہوں؟  کہاں سے آیا اور کہاں جانا ہے؟ میں کس لئے پیدا کیا گیا ہوں؟ زندگی اور موت کیا ہیں؟ زندگی سے پہلے کیا تھا؟ اور موت کے بعد کیا ہوگا؟ زمین کے اس سیارے میں سمجھ بوجھ کی عمر سے لے کر مرنے تک میرا کیا پیغام ہے؟ایمان اور صرف ایمان ہی ہے جو انسان کو اس کے انجام کے حوالے سے ان بڑے سوالات کا شافی جواب دیتا ہے۔ وہ زندگی کا ایک ہدف، اس کی ایک قیمت اور ایک معنی متعین کر دیتا ہے۔ اس ایمان کے بغیر انسان عالمِ وجود کا ایک حیران و پریشان ذرّہ یا ایک بے وقعت مادہ ہے۔ نہ حجم کے لحاظ سے یہ اس عظیم کائنات کے بڑے مجموعوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتا ہے اور نہ عمر کے لحاظ سے۔ یہ جیولوجی کے لمبے لمبے زمانوں اور مستقبل کے لاانتہا ادوار کے مقابلے میں کوئی وقعت رکھتا ہے نہ اس کے پاس وہ قدرت ہے جس کے ذریعے وہ کائنات کے ان حوادث کا مقابلہ کر سکے جنہیں وہ ہر وقت دیکھتا رہتا ہے۔ جیسے زلزلے، آسمانی بجلیاں، آندھی اور طوفان اور سیلاب جو ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں اور بہت سوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں مگر انسان اس کے سامنے عاجز ہو کر ہاتھ دھرے بیٹھا رہ جاتا ہے، باوجود یہ کہ اس وقت انسان کے پاس سائنس ہے، ارادہ ہے اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ہے۔ایمان ہمیشہ نجات کے لئے طاقت و قدرت ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان کو اندر سے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح اس کے باطن کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ کیونکہ انسانوں کو اس طرح نہیں چلایا جاسکتا جیسا کہ جانوروں کو چلایا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کو اس انداز میں ڈھالا بھی نہیں جاسکتا جیسا کہ لوہے، تانبے یا چاندی وغیرہ سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں۔یہ انسان کی عقل اور دل میں تحرک پیدا کر دیتا ہے۔ پھر جب اسے قانع کیا جاتا ہے تو وہ قانع ہوتا ہے اور جب اسے ہدایت دی جاتی ہے تو یہ ہدایت لیتا ہے۔ جب اسے ترغیب و تربیت کی جاتی ہے تو اس پر ترغیب و تربیت کا اثر بھی ہو جاتا ہے۔ ایمان ہی ہے جو انسان میں حرکت پیدا کرتا ہے، اس کا رُخ سیدھا رکھتا ہے اور اس کے اندر عظیم صلاحیتیں پیدا کرتا ہے، جو اس کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتی تھیں۔ بلکہ وہ اسے ایک نیا جنم دے دیتا ہے، اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دیتا ہے۔ اسے نئی عقل، نیا عزم اور نیا فلسفہ دیتا ہے۔ جیسا کہ ہم فرعون کے ساحروں کے بارے میں دیکھتے ہیں۔ وہ جب موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے تو انہوں نے فرعون کے جبر و تکبر کو چیلنج کرتے ہوئے بڑی جرأت و شجاعت کے ساتھ اس سے کہا: ’’تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے، تو زیادہ سے زیادہ بس اسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔‘‘ (طٰہٰ:۷۲)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK