Inquilab Logo

خلاقانہ ترجمہ اصل فن پارے کی شخصیت کو منہدم نہیں کرتا

Updated: February 07, 2023, 4:10 PM IST | Shamsur Rahman Farooqui | Mumbai

ترجمہ دراصل مترجم کو دو طرفہ جنگ میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ جنگ اس زبان سے بھی ہوتی ہے جس سے ترجمہ کیا جا رہا ہے اور زبان سے بھی جس میں ترجمہ ہو رہا ہے۔

The characteristic of a creative translator is that he is fully familiar with the language and literary tradition of the language he is translating.
خلاق مترجم کی صفت یہ ہے کہ جس زبان سے وہ ترجمہ کر رہا ہے، اس کے ادب اور ادبی روایت سے وہ پوری طرح واقف ہوتا ہے

کامیاب ترجمہ وہ ہے جو اصل کے مطابق ہو (یا بڑی حد تک اصل کے مطابق ہو) اور خلاقانہ شان رکھتا ہو۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کا یکجا ہونا تقریباً نا ممکن ہے۔ لیکن ترجمے میں کامیابی کا تصور بہت وسیع ہے اور اگرچہ کوئی بھی شخص اس کامیابی کی پوری وسعت کا احاطہ نہیں کر سکتا، اچھے اور خوش نصیب مترجم اس کے بڑے حصے کا احاطہ ضرور کر سکتے ہیں۔ کامیاب ترجمہ اس معنی میں خلاقانہ نہیں ہوتا کہ مترجم اصل کی جگہ اس کے برابر کوئی دوسری نظم یا ناول لکھ دیتا ہے۔ مترجم اصل فن پارے کو اپنی زبان میں دوبارہ خلق کرتا ہے اور اس طرح نہیں کہ پہلے وہ اصل فن پارے کو مار ڈالے اور پھر اسی کو اپنی زبان میں دوبارہ زندہ کرے اور نہ اسے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ خود اصل فن پارے کا مصنف ہے اور اب اس فن پارے کو وہ ترجمے والی زبان میں لکھ رہا ہے۔ 
سوفوکلیز کا ترجمہ کرتے وقت ازرا پاؤنڈ نے یونانی دیہاتی لوگوں کو لندن کی کوکنی Cockney زبان بولتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس سے انگریزیت تو ترجمے میں آ گئی لیکن یونانیت غائب ہو گئی۔ ولیم ایروسمتھ  نے یونانی طربیہ نگار ارسٹو فینیز  کے جو تراجم کئے ہیں، ان میں یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے۔ 
ایرو سمتھ کے تراجم میں یونانی عوام اور دیہاتی لوگ ایسی زبان تو بولتے ہیں جو طربیہ مضمون اور لہجے کے لئے مناسب ہے لیکن وہ ’’عوامی‘‘ یا ’’دیہاتی‘‘ زبان نہیں بولتے۔ اس طرح ایروسمتھ اصل ڈرامے اور ہمارے درمیان ضروری فاصلہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ خلاقانہ ترجمہ وہ ہے جو اصل فن پارے کی شخصیت کو منہدم نہیں کرتا اور ترجمے والی زبان میں پہلے سے موجود ادب سے مختلف معلوم ہوتا ہے لیکن مختلف معلوم ہوتے ہوئے بھی وہ ترجمے والی زبان بولنے والوں کے لئے قابلِ قبول اور قابل فہم ہوتا ہے۔ 
لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ ترجمہ کئے ہوئے فن پارے کو ترجمہ نہیں معلوم ہونا چاہئے۔ محمد حسن عسکری، جنھوں نے خود فرانسیسی اور انگریزی سے بہت عمدہ تراجم کیے ہیں، کہا کرتے تھے کہ ترجمے میں ’’ترجمہ پن‘‘ کا ہونا کوئی عیب نہیں، حقیقت یہ ہے کہ ترجمے کے ذریعے ترجمے والی زبان کے نئے امکانات منکشف ہوتے ہیں۔ ترجمہ دراصل مترجم کو دو طرفہ جنگ میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ جنگ اس زبان سے بھی ہوتی ہے جس سے ترجمہ کیا جا رہا ہے اور زبان سے بھی جس میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ جورج اسٹائینر  کہتا ہے کہ ترجمہ ایک زندہ چنگاری ہے، یہ ماضی اور حال اور تہذیبوں کے درمیان تو انائی کا بہاؤ ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ اپنے وجود کی جگہ دوسرا وجود اختیار کرنے کا قریب ترین امکان اسی میں ہے کہ ’’جہاں تک ہم سے ہو سکے، خود کو کسی دوسری زبان میں غرق کر دیں۔‘‘ لیکن چوں کہ ترجمہ ہمیں خود اپنی زبان کے بھی حدود اور امکانات سے روشناس کراتا ہے، اس طرح وہ بذاتِ خود تخلیق بن جاتا ہے۔ 
کہا گیا ہے کہ ناول کے ترجمے میں وہ مسائل نہیں پیدا ہوتے جو شاعری کے ترجمے میں ہوتے ہیں۔ اسٹینلی برن شا کا کہنا ہے کہ ناول کا بڑا حصہ اور یقیناً اس کا اہم ترین حصہ ترجمے میں باقی رہتا ہے۔ برن شا کہتا ہے کہ ’’شاعری یقیناً وہ واحد عنصر نہیں ہے جو کسی بدیسی ناول کے انگریزی ترجمے کے مجموعی گہرے تاثر کو پیدا کرتی ہے۔‘‘ اس کا خیال ہے کہ ناول میں بہت سے ایسے اجزا ہوتے ہیں جو اصل سے الگ کئے جا سکتے ہیں اور وہ ترجمے میں بخوبی آ سکتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ فکشن کا ترجمہ شاعری کے ترجمے کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔ لیکن شاعری کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ مترجم کو اس سے زیادہ کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی جتنی اس فوٹو گرافر کو ہو سکتی ہے جو کسی رنگین تصویر کا یک رنگی فوٹو تیار کرتا ہے۔ 
فکشن میں بہت سی وہی تشکیلات ہوتی ہیں جو شاعری اور ڈرامے میں ہوتی ہیں لیکن کسی اچھے اسٹیج ڈرامے کا خراب ترجمہ بھی اسٹیج پر کامیاب ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ڈرامے کی بہت سی خصوصیات موسیقی کی طرح، ترجمے کی محتاج نہیں ہوتیں۔ مگر فکشن میں لسانی تشکیلات زیادہ ہوتی ہیں، خالص ڈراما کم (اگرچہ ہنر جیمس کی تمنا یہی تھی وہ ایسے ناول لکھے جس میں ڈراما کا وصف ہو)۔ روسی اور فرانسیسی ناولوں کے جو تراجم اردو میں ہوئے ہیں (چاہے براہِ راست، چاہے براہِ انگریزی) ان میں سے اکثر میں یہی خرابی ہے کہ مترجم اصل زبان کو اپنے وجود کا حصہ بنانے اور ’’اندر سے کام کرنے‘‘ سے قاصر رہا ہے۔ ان تراجم میں اصل زبان زندہ تحرک انگیزی کے بجائے نمونے کا کام دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہاں اصل زبان، ترجمے والی زبان کی تشکیل کے بجائے، اس سے ٹکرانے کا کام کرتی ہے اور اس طرح دونوں کا زیاں ہو جاتا ہے۔ خلاقانہ ترجمے میں اصل زبان، ترجمے والی زبان کو زندگی بخشنے کا کام کرتی ہے۔ 
اگر ترجمہ تخلیق کا درجہ رکھتا ہے تو ہمیں transereation اور ’’آزاد ترجمہ‘‘ جیسی اصطلاحوں پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب اصطلاحیں یا تو خراب ترجموں کا پردہ ہیں یا پھر ایسے تراجم کی حمایت کرتی ہیں جو اصل سے بہتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا اس کی توہین کرتے ہیں۔ کوئی بھی ترجمہ اصل کے حسن وخوبی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کوئی فن پارہ کسی دوسرے فن پارے کی ہو بہو نقل نہیں ہو سکتا۔ ترجمہ بذاتِ خود ایک فن پارہ  ہوتا ہے، لیکن اسے ترجمہ کہلانے کا حق اسی وقت ہے جب وہ اصل کی کیفیت اور احساس کو ممکن ترین حد تک دوبارہ خلق کر سکے۔ 
اگر ترجمے کا وہی مرتبہ ہے جو تخلیق کا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف تخلیقی فنکار ہی اچھے مترجم ہو سکتے ہیں؟ بودلیئر کا دعویٰ تھا کہ ’’نقادوں میں سب سے اچھا نقاد شاعر ہوتا ہے۔‘‘ یہ بات بودلیئر کی حد تک تو صحیح ہے کیوں کہ آج بہت سے لوگ بودلیئر کو سب سے بڑا فرانسیسی نقاد مانتے ہیں لیکن خود بودلیئر نے ایڈگرایلن پو کے جو ترجمے کئے ہیں وہ پوری طرح سچے نہیں ہیں، اس معنی میں کہ ترجمے کو اصل سے بڑھا دیا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شاعر اور غیر شاعر، دونوں فرقوں میں اچھے مترجم بھی ہوئے ہیں اور برے بھی۔ 
پروست کے ترجمے کیلئے اسکاٹ مانکریف  سے بہتر کوئی نہیں۔ لیکن خود اسکاٹ مانکریف  ناول نگار نہ تھا۔ ہومر کی الیڈ  کا جو ترجمہ پوپ  نے کیا تھا وہ بہت زندہ اور متحرک ہے۔ چیپ مین  کے ترجمہ ٔ الیڈ نے کیٹس کو بہت متاثر کیا۔ لیکن نہ چیپ مین اچھا مترجم تھا نہ پوپ۔ میکس ہیورڈ  نہ شاعر تھا نہ افسانہ نگار۔ لیکن اس نے روسی نظم و افسانہ کے بہترین تراجم ہمارے زمانے میں پیش کئے۔ اردو میں بہت سے عمدہ شاعر، مترجم اور افسانہ نگار مترجم ہوئے ہیں اور مولوی عنایت اللہ جیسا شخص بھی ہے کہ ان سے بہتر اور کثیر الترجمہ شخص کوئی ہمارے یہاں نہ ہوا۔ لیکن مولوی صاحب نہ شاعر تھے نہ ڈراما نگار۔ 
لہٰذا اس سلسلے میں کوئی حتمی قاعدہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مترجم دونوں زبانوں (یعنی اصل زبان اور ترجمے والی زبان) کے آہنگ کو جتنی خوبی سے سن سکےگا، اتنا ہی عمدہ ترجمہ وہ کر سکےگا۔ خلاق مترجم کی صفت یہ ہے کہ جس زبان سے وہ ترجمہ کر رہا ہے، اس کے ادب اور ادبی روایت سے وہ پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ جس فن پارے کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، صرف اس فن پارے سے گہری واقفیت کافی نہیں۔ اتنی ہی اہم بات یہ کہ مترجم کو ترجمے والی زبان میں محسوس کرنے اور سوچنے پر قدرت ہونی چاہئے۔ ہم ہندوستانی جب اردو/فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کرتے ہیں تو ہمیں مشکل یہ پڑتی ہے کہ ہم جدید روزمرہ معیاری انگریزی اور قدیم یا کتابی انگریزی میں فرق نہیں کر سکتے۔ یوسف حسین کا ترجمۂ غاؔلب اور خشونت سنگھ کا ترجمۂ اقبال اس کمزوری کی نمایاں مثالیں ہیں، لیکن ایسی مثالیں بہت سی اور بھی ہیں۔ 
سچ تو یہ ہے کہ شاید ہی کسی ہندوستانی پاکستانی ترجمے کی نشان دہی ہو سکے جو اردو سے جدید، معیاری اور بامحاورہ انگریزی میں کیا گیا ہو۔ اے کے رامانجن   نے قدیم تمل سے جو تراجم انگریزی میں کئے ہیں ان کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ جدید انگریزی کس طرح ایک قطعی مختلف زبان اور قطعی اجنبی ادبی روایت کے فن پاروں کو آج کے پڑھنے والوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ مغربی ترجمے میں فرانسس پرچٹ نے انتظار حسین، غالب اور داستانِ امیر حمزہ کو انگریزی میں منتقل کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔ 
کیا مترجم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اصل زبان اور ترجمے والی زبان ان دونوں پر پوری طرح اور یکساں قدرت رکھتا ہو؟ مستشنیات کو دیکھئے تو رابرٹ لویل اور آڈن ہیں جو روسی نہیں جانتے تھے، لیکن انہوں نے روسی کے ماہرین یا اس کو مادری زبان کی حیثیت سے بولنے والوں کی مدد سے روسی سے انگریزی میں بعض عمدہ ترجمے کئے ہیں۔ لیکن ترجمے کی کوئی طویل کارگزاری اس طرح نہیں چل سکتی۔ مثالی صورت تو یہ ہے کہ ہم صرف مادری زبان ہی میں خود کو پوری طرح غرق کر سکتے ہیں اور اس طرح غرق ہوئے بغیر زبان میں خلاقانہ فکر کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔ 
چونکہ بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو صحیح معنوں میں ذولسانی (bilingual) ہوں، اسلئے بہترین عملی صورتِ حال یہ ہوگی کہ مترجمین دو دو کی ٹیم کی شکل میں کام کریں۔ ترجمے کو جاری رہنا چاہئے تاکہ ترجمے والی زبان اور اس زبان کے ادب اور اس کے بولنے والوں کو تو نگری حاصل ہو۔
(طویل مضمون ’دریافت اور بازیافت: ترجمے کا معاملہ‘  سے )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK