اگرکسی مقدمے کا فیصلہ تاخیرسے عرضی گزار کےحق میں بھی ہو تو یہ انصاف کے اس تصور کو معتبر نہیں ٹھہراتا جس کی بنا پر عدلیہ کے وقار کا بھرم قائم ہے۔
عدلیہ کے متعلق یہ مشہور مقولہ ’انصاف میں تاخیر بھی نا انصافی کی ایک شکل ہے‘ ملک کے عدالتی نظام پر پوری طرح موزوں ٹھہرتا ہے۔پورے ملک میں نچلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک میں زیر التوا مقدموں کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان میں بعض مقدمات ۱۹۵۰ء سے عدالتی کارروائیوں کے پیچ میں الجھے ہوئے ہیں۔ اتنی طویل مدت میں کتنا کچھ بدل گیا لیکن یہ مقدمات اب تک فیصلے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ جن لوگوں نے انصاف کی امید میں عدالت کا رخ کیا ہوگا ، اب ۷۵؍ برس سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد ان میں سے کئی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہوں گے۔ایسی صورت میں اگر ان مقدمات کا فیصلہ درخواست گزاروں کے منشا کے مطابق ہی ہو تو بھی یہ انصاف کی فراہمی کے اس تصور کو معتبر نہیں ٹھہراتا جس کی بنا پر عدلیہ کے عزت ووقار کا بھرم قائم ہے۔آئین میں ملک کے ہر شہری کے ساتھ انصاف کو یقینی بنانے کے جو التزامات ہیں ان کی تعمیل کو پیچیدہ بنانے والے دیگر مسائل کے درمیان ایک بڑا مسئلہ ملک کے عدالتی نظام کی وہ سست روی ہے جس کے سبب انصاف کی بروقت فراہمی ایک مشکل امر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
ہر سطح کی عدالت میں ایک طرف زیر التوا مقدمات کی کثرت ہے تو دوسری طرف ان عدالتوں میں ججوں کی قلت صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک گیر سطح پر عدالتوں میں ۳۰؍فیصد سے زیادہ ججوں کے عہدے خالی ہیں ۔ان خالی عہدوں پر تقرری کیلئے کسی سنجیدہ پیش رفت کا مظاہرہ نہ تو اقتدار کی جانب سے ہورہا ہے اور نہ ہی عدلیہ سے وابستہ وہ اعلیٰ حکام کوئی پہل کر رہے ہیں جن پر عدالتی نظام کو شفاف اور موثر بنائے رکھنے کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس ضمن میں وقتاً فوقتاً کوئی اقدام کیا بھی جاتا ہے تو وہ برائے نام ہوتا ہے۔ ان برائے نام اقدام کے ذریعہ اقتداریہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ عدلیہ کو موثر اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے سنجیدہ ہے۔ اس ضمن میں اگر حقائق کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہی نظر آئے گا کہ اس سنجیدگی کا تعلق بیشتر انہی معاملات سے ہوتا ہے جن سے ارباب اقتدار کا کوئی مفاد وابستہ ہو۔ انصاف کی فراہمی کے عمل میں عام شہری کو اس مبینہ سنجیدگی سے کوئی فائدہ نہیں ملتا اور اکثر پانچ ،چھ برس گزر جانے کے بعد بھی عام شہری کی ضمانت کی عرضداشت پر عدالت کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی۔
انصاف کی بروقت فراہمی کو پیچیدہ بنانے میں ججوں کا وہ رویہ بھی شامل ہے جو خود کو ہر طرح کی جواب دہی سے بالاتر سمجھتا ہے۔ ارباب اقتدار نے اپنے مفاد کی خاطر ملک میں جس طرز کی سیاسی فضا تشکیل دی ہے اس نے عوام کے ایک طبقے میں یہ تصور رائج کر دیا ہے کہ حکومت اورملک ایک دوسرے کے متبادل ہیں ،کچھ یہی حال اس وقت ملک کے عدالتی نظام کا بھی ہو گیا ہے۔ عدالتوں میں منصف کی کرسی پر براجمان ججوں کی خاصی تعداد اب اس تصور کی پیرو نظر آتی ہے کہ عدلیہ اور جج ایک دوسرے کے متبادل ہیں۔ اگر اس تصور کو تسلیم کر لیا جائے تو انصاف کا عمل مزید پیچیدہ شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ ایسی ممکنہ پیچیدہ صورتحال کا ایک سبب عدلیہ کی عظمت و وقار اور ججوں کے کردار و عمل میں نظر آنے والا وہ تفاوت ہے جس کے سبب انصاف کا تصور مجروح ہوتا ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں کئی ایسے ابواب ہیں جہاں انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے کبھی آستھا کے نام پر کبھی سیاسی وابستگی کی بنا پر اور کبھی علاقائی ، نسلی اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر فیصلے کئے گئے۔ملک کی عدالتوں میں ایسے کئی معاملات برسوں سے زیر التوا ہیں جن کے فیصلے کا براہ راست تعلق درخواست گزار کی زندگی کی بقا سے ہے۔ اس کے باوجودخود کو عدلیہ کا متبادل سمجھنے والے ججوں کو نہ تو ایسے معاملات کی حساسیت سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے میں ان کی کوئی دلچسپی ہے۔
فسطائیت کے فروغ نے عدلیہ پر بھی حبس ناک فضا طاری کر دی ہے۔ اس فضا نے عدلیہ کی عظمت اور شفافیت دونوں کو متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر جوتا پھینکنے والا وکیل اپنے اس مذموم عمل کو فخریہ بیان کرتا ہے اور میڈیا ، سوشل میڈیا میں کئی لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے لازم ہے کہ جج اپنی ذمہ داری کو پوری دیانت داری اور عدلیہ کے تئیں اپنی جوابدہی کو محسوس کرتے ہوئے پورا کریں۔ گزشتہ دنوں وائرل ہونے والا ایک ویڈیو کلپ ججوں کے اندر اس احساس کے فقدان کو نمایاں کرتا ہے جس میں جسٹس سوریہ کانت شنوائی کے دوران جھپکی لیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اگر یہ کلپ سچ ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ججوں کا ایسا غیر سنجیدہ رویہ انصاف کی بروقت فراہمی کے عمل کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا رہا ہے اور اس سے عدلیہ کی شفافیت بھی متاثر ہو تی ہے۔