Inquilab Logo Happiest Places to Work

اَدبی ذَوق کی تشکیل میں تنقید کا بہت ہی اہم حصہ ہے

Updated: November 19, 2023, 1:15 PM IST | Baqir Mehdi | Mumbai

فنکار اور معاشرے کے بدلتے ہوئے رشتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی زندگی کے عام تجربات سے گزر کر ان میں تازگی پیدا کرکے پیش کرنے کا بھی مسئلہ ہے۔ ایک معنی میں نقاد کے آزمائش کا صحیح زمانہ یہی ہوتا ہے۔

Today literary taste has become common and now one can have a literary opinion even without being an expert in all sciences and the words of the reader have also started to be listened to carefully. Photo: INN
آج ادبی ذوق عام ہو چلا ہے اور اب تمام علوم میں ماہر ہوئے بغیر بھی ادبی رائے رکھی جا سکتی ہے اور قاری کی باتوں کو دھیان سے سنا بھی جانے لگاہے۔ تصویر : آئی این این

اردو تنقید کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ اس کا آغاز کسی بڑی اثاث سے نہیں ہوا اور نہ ہی ہمارے ادب میں کوئی تنقیدی روایت کا سلسلہ ملتا ہے جس سے کڑیاں ملاکر نقادوں نے نقد ادب کے اصول متعین کیے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی چند برسوں تک ہمارے ترقی پسند اور جدیدادب کے نقاد اصول نقدادب کی تشکیل اور تعبیر میں الجھے ہوئے تھے اور ہیں۔ میں اس کے باوجود پرانے تذکروں کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا ہوں ۔ اس میں شعرگوئی کے لئے اہم باتیں ہیں لیکن شعر فہمی یا شاعری کے تصور کے بارے میں کوئی اہم اصولی بات نہیں ملتی۔ مجھے اقرار ہے کہ ’’تنقیدی جھلکیاں ‘‘ ان میں ہیں مگر ان جھلکیوں سے کسی جلوے یا تصویر کی تعمیر نہیں ہو سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں حالی کو سب سے پہلے جن دشواریوں کا سامنا ہوا تھا، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقدمہ شعروشاعری میں پہلی بار شاعری کے بارے میں عقلی معیار پر چندباتیں کہی گئی تھیں۔ 
حالی کی ان باتوں کی صرف اب تاریخی اہمیت رہ گئی ہے۔ اس لئے کہ ہمارے ادیبوں پر دنیا کے ادب کے دروازے کھل چکے ہیں اور جب ہم فرانسیسی یا انگریزی ادب کے نقادوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ اصول نقد کی بحثوں میں مبتلا رہنے کے باوجود عملی تنقید میں بہت آگے جا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ اردو تنقید حالی اور شبلی سے آگے نہیں جا سکی ہے اور اس خیال کو ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ لیکن میں ان لوگوں سے صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر ہماری تنقید حالی اور شبلی سے آگے نہیں بڑھی تو یہ ماننے میں کیا تامل ہے کہ تنقید صحیح معنوں میں پوری طرح سے شروع بھی نہیں ہوئی ہے اور ڈاکٹر کلیم الدین سے خفا ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ ہم دونوں باتوں کو نہیں مان سکتے۔ یا تو تسلیم کرنا ہوگا کہ تنقید حالی کے دور سے آگے جا چکی ہے یا کلیم الدین کی بات ماننی ہوگی۔ 
بہرحال یہ بات تو سنجیدہ حلقوں میں مانی جاتی ہے کہ اردو ادب میں تنقید کا فروغ دیر میں ہوا۔ لیکن جب سے تنقید کا دور دورہ ہوا اس وقت سے اب تک کافی ترقی بھی ہو چکی ہے اور اب شعروادب کے بارے میں مختلف تصورات ملتے ہیں ۔ نظریاتی اعتبار سے مختلف اسکول بھی قائم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ایک گروپ زبان وبیان کی خوبیوں کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ دوسرا شاعری میں جذبات کی رنگارنگی ہی کو اہم گردانتا ہے اور تیسرا موضوع اور ہیئت، دونوں کے حسین امتزاج پرزور دیتا ہے۔ ابھی ہمارے ادب میں باقاعدہ رومانی اور کلاسیکی یا تاریخی اور نفسیاتی نقادوں کے گروپ تو نہیں ہیں لیکن جس طرح آج کے اردو ادب میں مختلف خیالات اور نظریات کے ادیب ہیں ویسے ہی نقاد بھی ہیں۔ 
ریاض احمد نفسیاتی تنقید کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ حسن عسکری فرانسیسی زوال پرست اور مذہبی نقادوں کے اصولوں کو عام کرنے کے درپے ہیں اور ممتاز حسین مارکسی تنقید کی تشریح اور تعبیر کرنے میں مشغول ہیں۔ اس لئے آج کے تمام نقاد کسی نہ کسی صورت میں ادب اور تنقید ادب کی اہمیت کو مانتے ہوئے اپنے اپنے نظریات کو عام کرنے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایسے وقت میں ایک عام باشعور قاری کے لئے سب سے پہلے جو دشواری سامنے آئی ہے وہ ہے ادبی ذوق کا سوال اور اس سوال کے آتے ہی تنقید کا بنیادی سوال بھی سامنے آ جاتا ہے۔ اس لئے کہ ادبی ذوق کی تشکیل میں تنقید کا بہت ہی اہم حصہ ہے۔ 
کل تک ادب چند بہت ہی برگزیدہ ہستیوں کی جاگیر تھا اور وہی لوگ اس پر بحث کے اہل سمجھے جاتے تھے۔ آج ادبی ذوق عام ہو چلا ہے اور اب تمام علوم میں ماہر ہوئے بغیر بھی ادبی رائے رکھی جا سکتی ہے اور قاری کی باتوں کو دھیان سے سنا بھی جانے لگاہے۔ ان حالات میں ادبی ذوق کو زیادہ بہتر اور برتر بنانے کا کام نقادوں کے علاوہ کوئی اور پوری خوبی سے نہیں کر سکتا ہے۔ اس لئے نقادوں کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اچھے ادبی ذوق کو عام کرنے کی مہم میں پیش پیش رہیں ۔ 
آج تہذیبی روایات پر بہت زور دیا جا رہا ہے اور اس بات کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام بھی ہمارے ادیب اور نقاد کر سکتے ہیں ۔ میرے خیال سے آج کے ملکی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے نقاد کے نئے رول کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ایک چیز پر اب تک بہت زور دیا گیا ہے اور وہ بھی اچھی طرح سے ہمارے ادیبوں کی تخلیقات میں نہیں ملتی ہے۔ وہ ہے ادب اور زندگی کا گہرا تعلق۔ ہمارے ادیب اس کو جب اپنے معنوں میں پوری طرح برتتے ہیں تو ذات کے خانے میں چلے جاتے ہیں اور جب اس کو’’وسعت‘‘ دیتے ہیں تو خیال آرائی پر اتراتے ہیں اور وہ توازن جو اعلیٰ ادب کی ایک پہچان ہے، خال خال ہی نظر آتا ہے۔ بازار کا بھاؤ دیکھ کر لوگ افسانے اور نظمیں لکھتے ہیں۔ 
اس لئے یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ فنکار اور معاشرے کے بدلتے ہوئے رشتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی زندگی کے عام تجربات سے گزر کر ان میں تازگی پیدا کرکے پیش کرنے کا بھی مسئلہ ہے۔ ایک معنی میں نقاد کے آزمائش کا صحیح زمانہ یہی ہوتا ہے۔ و ہ اپنے بصیرت افروز مضامین اور کتابوں سے ادبی دھاروں کو ان وادیوں سے گزرنے میں مدد دے سکتا ہے جن کی شادابی سے قومی تہذیب میں نئے نئے چمن کھلنے کی توقعات ہیں اور اس طرح وہ ایک ساتھ ’’چمن آرائی اور چمن بندی‘‘ کا کام کر سکتا ہے۔ ممکن ہے ان چند جملوں میں شاعرانہ مبالغہ کا گمان ہو لیکن میں نے کھردرے طریقے سے بات نہ کہنے کے لئے یہ اشارے تلاش کیے ہیں۔ 
اصل میں آج کا نقاد جہاں وضاحت پرزور دیتا ہے وہاں وہ تحریر کی ادبیت پر بھی مصرہے، اس لئے کہ تخلیقی فنکار کو اس کا احساس نہ ہونے پائے کہ نقاد کا معاشی، سیاسی اور سماجی خیالات اور جذبات کی آئینہ داری کرنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔ اب سماجی اور سیاسی مسائل کو پس منظر کی شکل میں پیش کرتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑےگا کہ پس منظر اصل منظر پر چھا تو نہیں گیا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ادبیت پر زور دیا جائے اور صرف زندگی اور ادب کے گہرے تعلق کی تشریح وتفسیر ہی نہ کی جائے بلکہ اس کو تعلق خاطر بناکر پیش کیا جائے، تب ہی نقاد اپنے ادبی فرض کو پورا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ 
(طویل مضمون ’’نقاد کا نیا ادبی رول‘‘ کا ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK