Inquilab Logo

سعودی عرب اور ایران میں سفارتی بحالی

Updated: March 21, 2023, 10:18 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

چین یہ بھی جانتا تھاکہ سعودی عرب اور ایران میں دوستی نہ سہی خیر سگالی کے معاملات بھی اگرطے پا گئے تو یہ دنیا کی تجارت میں ایک بڑا اثر ڈالیں گے۔ عرب اور ایران کی دوستی اسرائیلی جارحیت کیلئےبھی ایک چیلنج بن جائے گی۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

گزشتہ ایک طویل عرصہ کے بعد سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات کی بحالی ہوئی ہے۔ حسب معمول ہمارے میڈیا میں اس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی دو وجہیں تھیں۔ ایک یہ کہ یہ سمجھا گیا کہ اس سفارتی بحالی کاہمارے یہاں کوئی خاص اثر نہیں ہوگا اور دوسرا یہ کہ اس میں سب سے اہم رول چین کا تھا۔ تعلقات کی یہ بحالی چین کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ ظاہر ہے ان دو روایتی دشمنوں یا رقیبوں کے درمیان چین کافی عرصہ سے کام کر رہا تھا۔ جس سے یا تو کوئی واقفیت نہیں تھی یاپھر انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا تھا۔ ویسے سچ پوچھئے تو اسلامی ممالک کی ان رقابتوں کو مٹانے کے لئے چین کا اتنا اہم کردار بھی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ہم اس بات پر آگے چل کر تبصرہ کریں گے، لیکن فی الحال سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازع پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
 سعودی عرب اور ایران کے درمیان مختلف مذہبی، ثقافتی اور لسانی تضادات تھے۔ سب سے پہلے تو عرب اپنی زبان کو بہت زیادہ ترجیح دیتے تھے اور اسی کے ساتھ وہ فارسی سمیت تمام زبانوں کے بولنے والوں کو عجمی یا گونگا کہتے تھے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ دور بھی دیکھا گیاجب دونوں ممالک اسلام کی بناپر متحد بھی تھے۔ عربوں اور ایرانیوں کے مابین جنگ کی ایک تاریخ ہے جب صدام حسین نے نہایت احمقانہ طور پرایران پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ جنگ سات سال تک چلتی رہی اور اس نے دونوں ملکوں کی معیشتوں کا برا حال کر دیا تھا۔ ویسے اس جنگ میں سعودی عرب نے صدام حسین کا بھی کوئی ساتھ نہیںدیا تھا۔ سعودی خود بھی صدام حسین کے خلاف تھے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مشرق وسطیٰ کی اندرونی لڑائیوں میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے مخالف نظر آرہے تھے۔ مثال کے طور پر شام میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آراء دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن اس کی وجہ مذہبی یا مسلکی نہیں تھی۔ وجہ یہ تھی کہ شام کے حکمراں روس کے ساتھ تھے اور سعودی حسب معمول امریکہ کے ساتھ تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سعودی عرب اور ایران شروع شروع میں امریکہ کے داعی تھے۔ ایران میں شاہ رضا کے زوال کے بعد جب آیت اللہ خمینی کا دور آیا اور ایران اور امریکہ میں روایتی عداوت کا آغاز ہوا تو امریکہ نے بھی اس سلسلہ میں اپنا رول ادا کیا۔ اس نے ایران کی دشمنی میں سعودی عرب کو ہتھیار دینے شروع کئے بلکہ ایسے مواقع بھی تلاش کرتا رہا جب دونوںایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو جائیں۔
 لیکن سعودی عرب اور ایران میں اصل جنگ یمن میں شروع ہوئی۔ یمن کو سعودی عرب بنیادی طور پر اپنا ہی حصہ سمجھتا تھا۔ یمن ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ لیکن وہاں کی تمام آبادی سعودی عرب کے اس موقف سے متفق نہیں تھی۔ وہاں حوثی فرقہ کے لوگ بھی تھے جو مسلکی اعتبار سے سعودیوںسے الگ تھے اور ان کا جھکائو ایران کی طرف تھا۔ لیکن سعودی عرب کی جارحانہ کارروائیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے اس علاقہ میں اتنی خون ریزی اورناانصافی دیکھی گئی جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن گیا۔ یہ جنگ کسی نہ کسی طرح اب بھی جاری ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ دنیا کے انسانیت دوست حلقوں کی مزاحمت کی وجہ سے اس میں کچھ کمی آگئی ہے۔ بیچ میں ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس نے سعودی عرب اور ایران کے مابین بہت تلخی پیدا کردی تھی۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کو کسی دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔ ایران نے اس پر بہت احتجاج کیا تھا۔ اس کے بعد سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سعودی پرایران کے شدید میزائل حملے بھی ہوئے تھے۔ لیکن یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب ڈونالڈ ٹرمپ اور محمد بن سلمان کے درمیان بہت گاڑھی چھن رہی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے جانے کے بعد یہ حالات بھی ختم ہونے لگے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کے بیچ چین کہاں سے آگیا۔ چین کا مشرق وسطیٰ کی سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں دیکھا گیا تھا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ چین نے ایران کے ساتھ کئی ارب ڈالر کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے،لیکن اصل بات کچھ اور ہے۔ دنیا میں سپر پاورہونے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ملک دنیا کے دوسرے ممالک میں خود ہی جھگڑے بھی کروائے اور پھر کسی طرف جھکائو دکھا کر اپنے اسلحے بیچے۔ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہی کرتے ہوئے سپر پاور بن بیٹھا تھا اور یہی سب روس نے بھی کیا۔لیکن روس مالی طور پر امریکہ سے کم تر رہا اس لئے وہ بہت کچھ نہیں کرسکا۔ پھر جب مالی کمزوریوں کی وجہ سے روس بکھر گیا تو اس کی طاقت بھی ٹوٹ گئی۔ روس کے بکھرائو کے بعد کمیونزم کی دشمنی کا جادو بھی دھیرے دھیرے اترنے لگا۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اب اتنی بڑی طاقت نہیں نظر آتا۔
 چین نے سپر پاور بننے کا دوسرا راستہ اختیار کیا۔ تاریخ نے اسے سمجھا دیا تھا کہ دنیا میں جنگیں یا جنگی حالات کبھی تجارتی امکان کو نشوو نما نہیں دیتے۔ چین کو یہ بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ دنیا میں اس کے بنائے سازو سامان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ سے آئے ہوئے ہمارے کئی دوستوں نے ہمیں بتایا کہ امریکہ کے بڑے بڑے سوپر بازاروں میں وال مارٹ کا بھی ایک نام ہے جو چین کے بنائے ہوئے ۷۰؍فیصد سازو سامان سے بھرا ہوتا ہے۔ جنگیں اور جنگی حالات کبھی اس کو راس نہیں آتے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ دوبئی ایک بڑا کمرشیل سینٹر بن گیا ہے۔ سعودی عرب میں ایک نیا اور ماڈرن شہر بن رہا ہے جو دنیا کے سپر بازاری میں ایک آٹھواں عجوبہ جیسا ہوگا۔ چین کی نظر ان تمام باتوں پر ہے۔ چین یہ بھی جانتا تھاکہ سعودی عرب اور ایران میں دوستی نہ سہی خیر سگالی کے معاملات بھی اگرطے پا گئے تو یہ دنیا کی تجارت میں ایک بڑا اثر ڈالیں گے ۔ عرب اور ایران کی دوستی اسرائیلی جارحیت کے لئے بھی ایک چیلنج بن جائے گی۔ اسرائیل کے معاملہ میں ایرا ن ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں ملکوں میں خیر سگالی اسرائیل کو بھاری پڑ سکتی ہے۔ اس وقت اسرائیل میں بڑی زبردست مہم چل رہی ہے ۔ ہمارے میڈیا میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہورہا ہےکہ نیتن یاہو کے سپریم کورٹ کے بارے میں ایک فیصلہ نے اسرائیل میں آگ لگا دی ہے۔ ایک فوجی ہوائی جہاز کے پائلٹ نے محض اس وجہ سے جہاز اڑانے سے انکار کر دیا کہ اس میں نیتن یاہو سوار تھے۔ نیتن یاہو کے خلاف کچھ کہنا یا لکھنا ہمارے میڈیا کے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا مودی کے خلاف کچھ کہنا یا لکھنا۔لیکن ظاہر ہے کہ دنیا کی تاریخ تو اپنے حساب سے چلتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK