Inquilab Logo

یہ انتخابی مفاد کیلئے سماج کو بانٹنے کی کوشش ہے

Updated: April 18, 2022, 12:09 PM IST | P. Chidambaram | Mumbai

کرناٹک کو ہندوتوا کی نئی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ آنے والے ریاستی اسمبلی الیکشن میں پولرائزیشن کا فائدہ اُٹھایا جاسکے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

حجاب، حلال اور اذان کے تنازعات کی وجہ سے کرناٹک میں خلفشار پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ تنازعات ہیں جو ازخود وجود میں نہیں آئے بلکہ انہیں وجود میں لایا گیا ہے تاکہ کرناٹک کے عوام کو باقاعدہ دو خانوں میں بانٹا جاسکے۔ ہندو اور مسلم کے خانوں میں تاکہ ۲۰۲۳ء کے الیکشن میں فائدہ اُٹھایا جاسکے۔  قارئین جانتے ہیں پھر بھی اعادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حجاب وہ ملبوس ہے جو مسلم خواتین گھر سے باہر جاتے وقت اپنے سر کو ڈھانپنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ شمالی ہندوستان میںہندو خواتین بھی پردہ کا اہتمام کرتی ہیں اسی طرح سکھ خواتین، عیسائی نن اور دیگر خواتین بھی ہمارے ملک میں پردہ کو کسی نہ کسی انداز میں اپناتی رہی ہیں۔ سکھ مرد بھی سر کو ڈھانپتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی نئی روایت یا رجحان نہیں ہے۔ حلال ، جانور کو ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ ہے مگر دیگر مذاہب کے لوگوں کے بھی کھانے پینے کے  اپنے طریقے ہیں۔ یہودی کوشر فوڈ کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ ہندوؤں میں ایسے طبقات ہیں جو مخصوص طور طریقوں سے غذا تیار کرتے ہیں۔ یہ بھی برسہا برس سے ہمارے ملک میں جاری ہے اور اسی وجہ سے ہم اس ملک کے سماج کو کثرت میں وحدت کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں۔ 
 اذان عبادت کیلئے بلانے کا طریقہ ہے۔ ہندو اور عیسائی عبادت گاہوں میں بھی عبادت کے وقت اپنائے جانے والے طریقوں کو لازم رکھا جاتا ہے۔ مثلاً ہندو مذہبی تہواروں پر مذہبی کتابوں کے حصے یا ابواب پڑھے جاتے ہیں اور عقائد پر مبنی موسیقی (ڈِووشنل میوزک) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیلئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ہوتا ہے جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 
 معلوم ہوا کہ نہ تو حجاب اور حلال کوئی نیا رجحان ہے نہ ہی اذان۔ یہ طور طریقے تب سے عوام میں رائج ہیں جب سے اسلام ہندوستان پہنچا۔ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا اُنہو ں نے اسلامی طور طریقوں کو بھی قبول کیا۔ اب تک کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا جبکہ یہ طور طریقے صدیوں سے جاری ہیں۔ مختصر الفاظ میں یہ کہ  ہندو، مسلمان اور عیسائی تاریخ کے ہر دور میں مل جل کر رہتے آئے ہیں، ان میں کبھی کوئی تنازع ان بنیادوں پر پیدا نہیں ہوا۔
 کرناٹک میں تو بالکل بھی اس طرح کی صورت حال نہیں تھی مگر تب تک، جب تک بی جے پی کرناٹک میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ ابتداء میں ریاست میں اس کی موجودگی اقتدار میں  اتحاد یعنی حلیف پارٹیوں کی مدد سے تھی۔ پھر تنہا بھی حکومت رہی ۔ حالیہ برسوں میں اس کی حکومت دیگر پارٹیوں سے اراکین اسمبلی کو اپنی صف میں شامل کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اس کو آپریشن لوٹس نام دیا گیا تھا۔ اب اس پارٹی کو ۲۰۲۳ء کے الیکشن کا سامنا ہے۔ کارکردگی کے نام پر اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور اس کی زمین مضبوط نہیں ہے ۔ اپوزیشن میں شامل پارٹیوں نے اپنے اطراف مضبوط دیوار کھڑی کرلی ہے تاکہ آپریشن لوٹس اگر ہو بھی تو کامیاب نہ ہو۔ اس لئے اس نے ووٹوں کو بانٹنے کا ایک بیانیہ جاری کیا۔ یہ بیانیہ غذا، لباس اور طریقۂ عبادت کو نشانہ بنانے والی اسٹراٹیجی کا حصہ ہے تاکہ تسلسل کے ساتھ تنازعات کھڑے کئے جائیں۔
 کہنے کی ضرورت نہیں کہ تنازعات ہی نفرت میں اضافہ اور نفرت پر مبنی بیانات کے فروغ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اسے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ زیادہ تر معاملات میں، جن میں حال کے معاملات زیادہ ہیں، بھگوا شدت پسندوں نے فرقہ وارانہ بیان بازی کی اور فریق مخالف کو اشتعال دلایا۔  بدقسمتی سے اس  طرز عمل کے خلاف کرناٹک  کی چند ہی مقتدر شخصیا ت نےآواز بلند کی ہے جن میںمعروف مورخ رام چندر گوہا  اور مشہور صنعتکار کرن مجمدار شا شامل ہیں۔  ان کے علاوہ کسی نے نہیں۔ نفرت کے پجاریوں نےان دونوں کی آواز بھی دبانے کی کوشش کی اور انہیں ہر ممکن طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔
 نفرت کی سیاست نے تمام حدیں پار کردی ہیں خاص طور پر اتر پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں۔  یہاں یتی نرسمہانند جیسے افراد، جو عادی مجرم کہلانے کے حقدار ہیں ، نے ہری دوا رمیں اشتعال انگیزی کی انتہا کردی تھی ۔ اس نے مسلم خواتین کے تعلق سے انتہائی نازیبا بیانات دئیے تھے جس کی وجہ سے اسے گرفتار تو کیاگیا لیکن پھر ضمانت بھی دے دی گئی ۔ رہا ہوتے ہی اس نے ہندو دھرم سنسد میں جس طرح کی بیان بازی کی اس سے نفرت کی سیاست کو مزید فروغ ملا ۔  اس کے بعد اس پر صرف خانہ پری کے لئے کارروائی ہوئی جس کی وجہ سے اس کے حوصلےبلند ہوگئے اور اس نےدہلی میں منعقدہ مہا پنچایت  میں ہندوئوں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی ۔ اس موقع پر بھی اس کے خلاف ایف آئی آر ہوئی لیکن اسے گرفتار کیا گیا نہ اس کی ضمانت منسوخ کروانے کی کوئی کارروائی ہوئی ۔ نفرت کے ان پجاریوں کی فہرست میں بجرنگ منی کا نام بھی شامل ہے جو خودساختہ مہنت ہے۔ اسی ماہ کی شروعات میں  اس کا ایک ویڈیو سامنے آیا جس میں وہ ہندی میں  نفرت انگیز تقریر کررہا ہے اور مسلم خواتین کے تعلق سے نازیبا تبصرے کررہا ہے۔  اسے ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ تشدد، عدم تحمل اور نفرت کا مظاہرہ اس دن  خاص طور پر کیا گیاجو بھگوان رام کا یوم پیدائش ہے۔ رام،  راست بازی اور عدم تشدد کے علمبردار تھے لیکن ان کے نام پر ہر وہ کام انجام دیا جارہا ہے جو  ان کی تعلیمات کے  مخالف ہے۔یہ تمام حرکتیں اور نفرت پھیلانے کی کوششیںکسی بھی  طرح سے جائز نہیں ٹھہرائی جاسکتیں اور انہیں صرف چند عناصر کی دھینگا مشتی قرار دے کر خاموش نہیں رہا جاسکتا کیوں کہ انہیں بی جے پی اور آر ایس ایس کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ان عناصر کی مدد سے ہندوستان کی ہندو شناخت کو اور مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔  ہرتوش سنگھ بال  نے لکھا ہے کہ  ہندوستان میں ۴۰؍کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہندوازم کو اپنا طرز زندگی نہیں مانتے اور نہ ہی  آر ایس ایس کے ہندو فلسفے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اب انہیں بھی آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں  اپنے ہندوتوا سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ ہندوتوا وہی ہے جس کے تحت ہندو شناخت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور  ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔  ان حالات میں سماج میں بڑھتے عدم تحمل پر ملک کے آئینی اداروں پر فائز افراد کی خاموشی مجرمانہ ہی کہلائے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK