Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی جج نے فلسطین حامی طالب علم رومیسا اوزترک کو رہا کر دیا

Updated: May 10, 2025, 8:31 PM IST | Washington

ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں اغوا اور قید کیے گئے متعدد فلسطین نواز دانشوروں میں سے ایک، رومیسا اوزترک، کو ایک وفاقی جج کے حکم کے بعد جمعے کے روز امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کی حراست سے رہا کر دیا گیا۔

 Rumeysa Ozturk. Photo: X
رومیسا اوزترک۔ تصویر: ایکس

ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں اغوا اور قید کیے گئے متعدد فلسطین نواز دانشوروں میں سے ایک، رومیسا اوزترک، کو ایک وفاقی جج کے حکم کے بعد جمعے کے روز امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ( آئی سی ای)  کی حراست سے رہا کر دیا گیا۔ ورمونٹ میں واقع یو ایس ڈسٹرکٹ جج ولیم سیشنز سوم نے فیصلہ دیا کہ۳۰؍ سالہ ترک شہری رومیسا اوزترک، جو میساچوسٹس کی ٹفٹس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور فل برائٹ اسکالر ہیں، کو مارچ میں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اس وقت ماسک پہنے پولیس کے خفیہ اہلکاروں نے انہیں بوسٹن کے ایک مضافاتی علاقے سے دوپہر کے وقت اٹھا لیا تھا، جسے گواہوں اور حامیوں نے اغوا سے تشبیہ دی تھی۔ بعد ازاں انہیں لوزیانا کے آئی سی ای ڈیٹینشن سینٹر بھیج دیا گیا۔
رہائی کے بعد رومیسا اوزترک نے سہولت کے باہر موجود اپنے حامیوں سے کہا،’’آپ سب کے تعاون اور محبت کا بہت بہت شکریہ۔ ‘‘ حکومت تسلیم کرتی ہے کہ رومیسا اوزترک نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ انہیں صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے ٹفٹس ڈیلی میں ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیلی ریاست کے غزہ میں نسل کشی، فلسطین میں نسلی تطہیر قبضہ اور استعماری پالیسیوں کے خلاف سرمایہ کاری واپس لینے کی وکالت کی گئی تھی، جو ان کے ویزا کو منسوخ کرنے کی وجہ نہیں  بن سکتی ہے۔ جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ’’ اس مضمون کو چھوڑ کر، حراست کی کوئی اور وجہ سامنے نہیں آئی۔ اس سے یہ اہم دعویٰ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حراست درحقیقت پہلی ترمیم کے تحت تحفظ یافتہ رائے کی آزادی کی بنیاد پر کی گئی۔ رومیسا کی مسلسل حراست ملک کے لاکھوں غیر شہریوں کی آزادی اظہار کو خوفزدہ کر سکتی ہے۔‘‘
جج نے لکھا کہ ’’ عدالت نے یہ طے کیا ہے کہ رومیسا کے فرار ہونے یا معاشرے کیلئے  خطرہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا، انہیں فوری طور پر کسی قسم کے جی پی ایس یا آئی سی ای کی نگرانی کے بغیر اپنی پہچان پر رہا کیا جائے۔ اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی دلیل میں ’’ ایلین اینیمیز ایکٹ‘‘ اور’’ امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ‘‘ کا بھی حوالہ دیا۔جو وزیر خارجہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ غیر شہریوں کو ملک بدر کر سکتا ہے اگر ان کی موجودگی امریکی خارجہ پالیسی کیلئے  نقصان دہ سمجھی جائے۔ واضح رہے کہ  ٹرمپ انتظامیہ نے اس قانون کا استعمال دیگر کئی طلباء کے خلاف بھی کیا ہے، جن کے بارے میں حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ان میں محمود خلیل، محسن مہدوی، یونسیو چنگ (تمام مستقل امریکی رہائشی) اور رنجنی سری نواسن وغیرہ شامل ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے صہیونی گروپس جیسے بیٹر اور کینری مشن نے ان جیسے دیگر فلسطین حامی طلباء کی فہرستیں تیار کی ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں تاکہ انہیں ملک بدر کیا جا سکے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK