• Sat, 25 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ہم جانتے ہیں کہ رخصت کیا ہے اور عزیمت کیا؟

Updated: October 24, 2025, 4:03 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

رُخصت کو معمول بنالینا اور عزیمت کو ترک کردینا درست نہیں کیونکہ اس سے روح بندگی متاثر ہوتی ہے۔

Scholars have allowed people to pray sitting on a chair in cases of extreme duress and physical weakness. Photo: INN
علماء نے انتہائی مجبوری اور جسمانی کمزوری کی حالت میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ تصویر: آئی این این
انسان ہمیشہ جسمانی طاقت اور سہولت کے لحاظ سے ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا۔ کبھی وہ قوت و سہولت کی فراوانی میں زندگی بسر کرتا ہے اور کبھی کمزوری و مجبوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی انسانی فطرت اور حالات کے تغیر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے شریعت ِ اسلامیہ نے نہایت حکمت کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو کیلئے آسانی اور گنجائش رکھی ہے۔ ان ہی اصولوں کو فقہی اصطلاح میں ’’رخصت‘‘ اور’’عزیمت‘‘ کہا جاتا ہے۔ شریعت کا یہ نظام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام ایک جامع، متوازن اور رحمت پر مبنی دین ہے جو انسان کی استطاعت کے مطابق عمل کی راہ متعین کرتا ہے۔ 
اسلامی شریعت میں رخصت سے مراد وہ نرمی یا سہولت ہے جو شریعت نے کسی عذر یا مجبوری کی صورت میں دی ہو۔ یعنی جب کسی شخص کیلئے کسی شرعی حکم پر عمل کرنا مشکل ہو جائے، جیسے بیماری، سفر یا کسی اضطراری حالت میں تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے آسانی فراہم کی ہے۔ مثلاً سفر کے دوران روزہ کو بعد کے لئے موخر کرنا، نماز کا قصر کرنا یا پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنا، رخصت کی مثالیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی طاقت اور حالات کو مدنظر رکھتا ہے اور اس پر بے جا بوجھ نہیں ڈالتا۔ 
دوسری طرف عزیمت سے مراد وہ حالت ہے جب انسان سہولت موجود ہونے کے باوجود اصل اور مکمل حکم پر کار بند ہو۔ یہ شریعت کا بنیادی حکم ہوتا ہے، جس پر بغیر کسی نرمی کے عمل کرنا زیادہ فضیلت والا سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً سفر کے باوجود روزہ رکھنا یا بیماری کے باوجود وضو کرنے کی کوشش کرنا عزیمت کہلاتا ہے۔ اسلام میں رخصت اللہ کی رحمت ہے اور عزیمت بندہ کی سعادت ہے جس پر عمل کرنا زیادہ باعث ِ اجر ہے۔ دونوں ہی شریعت کے دائرہ میں آتے ہیں اور انسان کے حالات کے لحاظ سے دونوں پر عمل درست اور حکمت پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ عزیمت پر عمل کرنے کی پوری قدرت کے باوجود ہمیشہ رخصت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایسا طرزِ عمل دراصل شریعت کی روح کے منافی ہے کیونکہ رخصت کے پس پشت منشاء سہولت ہے۔ اس کو معمول بنا لینا قطعی غلط ہے۔ 
اگر کوئی شخص بغیر کسی مجبوری کے ہمیشہ آسانی ہی کو اختیار کرے تو یہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔ اسلام نے جہاں آسانی پیدا کی اور سہولت فراہم کی ہے، وہیں مضبوط ارادہ، صبر اور قربانی کی روح کو بھی باقی رکھا ہے تاکہ انسان اللہ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرے اور دین کے معاملے میں صرف سہولت نہ تلاش کرتا پھرے۔ جو لوگ دین کے بنیادی اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں اور مشکل حالات میں بھی اللہ کے احکام پر ثابت قدمی دکھاتے ہیں، قرآنِ مجید میں ان کی بار بار تعریف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے اہلِ ایمان کو صابر، متقی اور محسن قرار دیا ہے اور ان کیلئے عظیم اجر و انعام کا وعدہ فرمایا ہے۔ 
قرآن مجید میں بارہا یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ایمان اور عمل ِ صالح میں استقامت اختیار کرنے والے ہی اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیمت پر قائم رہنا نہ صرف ایمان کی پختگی کی علامت ہے بلکہ یہ اللہ کی رضا اور قربت کے حصول کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک جن لوگوں نے کہا: اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے، پھر وہ ( اسی پر ) جمے رہے، ان پر فرشتے اُترینگے ( اور کہیں گے:) نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور جس جنت کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، اس کی خوشخبری سنو۔ ‘‘ (حم سجدہ: ۳۰) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جو لوگ ایمان کے بعد استقامت یعنی عزیمت کے راستے پر ثابت قدم رہتے ہیں، ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں عزت، اطمینان اور جنت کی بشارت ہے۔ 
موجودہ دَور میں رخصت اور عزیمت کے تعلق سے ہمارا طرزِ عمل بڑی حد تک افسوسناک اور غیر متوازن ہو چکا ہے۔ شریعت ِ اسلامیہ نے انسان کی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض صورتوں میں نرمی اور سہولت کی اجازت دی ہے جسے رخصت کہا جاتا ہے لیکن افسوس کہ آج بہت سے لوگ ان رخصتوں کو معمول بنا چکے ہیں، حالانکہ وہ عزیمت پر عمل کرنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ا س کی مثال کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ علماء نے انتہائی مجبوری اور جسمانی کمزوری کی حالت میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے، جو کہ رخصت کے قبیل سے ہے مگر آج بعض لوگ بغیر کسی معقول عذر کے اسے مستقل سہولت بنائے ہوئے ہیں۔ یہ طرزِ عمل دراصل شریعت کی اصل روح کے خلاف ہے، کیونکہ رخصت کا مقصد انسان کو مشقت سے بچانا ہے، نہ کہ آسانی کے نام پر عبادت کے آداب و وقار کو کم کرنا۔ اسی طرح سنت ِ غیر مؤکدہ اور نوافل کے بارے میں بھی شریعت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان عام حالات میں ان کی پابندی کرے، کیونکہ یہ عبادات ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور اللہ کی رضا کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہی عزیمت کا راستہ ہے۔ مگر افسوس کہ آج ہمارا طرزِ عمل بڑی حد تک اس کے برعکس ہو چکا ہے۔ ہم نے ان نوافل اور سنتوں کو چھوڑنے کو معمول بنا لیا ہے۔ ان اعمال کو ترک کرنا وقتی رخصت کے زمرے میں تو آ سکتا ہے، لیکن اس پر تسلسل کے ساتھ قائم رہنا روحِ دین کے منافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عزیمت پر عمل ہی ایمان کی پختگی اور بندگی کی سچائی کا مظہر ہے، جب کہ بلا وجہ رخصت کو معمول بنانا دینی کمزوری اور سستی کی علامت ہے۔ 
رخصت اور عزیمت کو سمجھ لینے کے بعد غور و فکر ضروری ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ شریعت کے توازن کو سمجھیں اور اپنے طرزِ عمل میں اعتدال پیدا کریں۔ جب واقعی ضرورت پیش آئے تو رخصت سے فائدہ اٹھائیں، کیونکہ یہ اللہ کی رحمت اور آسانی کا حصہ ہے۔ لیکن اس سہولت کو معمول نہ بنائیں، کیونکہ ایسا کرنا دین کے اصل مزاج کے خلاف ہے۔ کوشش کیجئے کہ جہاں ممکن ہو، عزیمت کی راہ اختیار کریں اور احکام الٰہی پر مضبوطی سے عمل کریں تاکہ عبادتوں میں روح بندگی پیدا ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK