قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ صبر ایک ایسی صفت ہے اور ایسی استعداد ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں جا بجا ملتا ہے۔ وہ جگہ جگہ اس کی ہدایت کرتا اور اس کے مختلف پہلو بیان کرتاچلا جاتاہے۔
صبر بڑی ہمت، بڑی جرأت، بڑی بہادری اور عزم و حوصلے کا مطالبہ کرتاہے۔ تصویر: آئی این این
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ صبر کرو، صبر کرو۔ اگر دیندار گھرانہ ہو تو اس پر جو بھی مشکل یا مصیبت آن پڑے، والدین کی طرف سے یہی نصیحت کانوں میں پڑتی ہے کہ صبر کرنا چاہئے۔ اگر کوئی عام گھرانہ ہو، تب بھی جب کوئی بڑا حادثہ پیش آجائےیاکوئی عزیز دنیا سے رخصت ہو جائے تو ہرآنے جانے والا شخص یہی کہتاہے کہ صبر کرو، اللہ کی مرضی کے آگے کوئی دم نہیں مار سکتا، اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ یہ ہمارا صبر سے ابتدائی تعارف ہے جو بچپن میں گھروں میں ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا میں کچھ بھی حاصل کرنا چاہے اس کے لئے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر آدمی جانتاہے کہ زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جس کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہو اس کی زندگی بھی ہزاروں اندیشوں اور پریشانیوں سے دو چار ہوتی ہے۔ ہر آدمی اس چیز کی طلب میں رہتاہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی اور ہر اس چیز کا رنج و غم کرتاہے جو اس کے ہاتھ نہیں آسکتی۔ یہ کیفیت اس کی بھی ہے جو دنیا میں بہت کچھ رکھتاہو اور اس کی بھی ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی مقصد زندگی اگر سامنے ہو یا کوئی بھی خواہش پوری کرنی ہو تو اس کے لئے لگن سے کام اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنی پڑتی ہیں اور ان پر قابو پانا ہوتا ہے۔ اگر ترغیبات راستے سے ہٹانا چاہیں تو ان کا بھی مقابلہ کرنا پڑتاہے۔ مثال کے طورپر اگر کسی کو ڈاکٹر بننا ہے تو اس کے لئے اُسے محنت کرنا پڑتی ہے، راتوں کی نیند قربان کرنا پڑتی ہے اور بہت سی خواہشات اور تمنائوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر ڈاکٹر بنا جاتاہے۔
صبر کا مفہوم
صبر کے کئی مفہوم ہیں مثلاً کسی کام کو جم کر کرنا، حوصلے سے کرنا، عقل کے ساتھ کرنا۔ کہیں پہنچنا ہو تو اس کے لئے اس استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ہم صبر کے نام سے پکارتے ہیں۔
صبر کے لغوی معنی عربی زبان میں روکنے اور باندھنے کے یا برداشت کرنے اور سہنے کے ہیں۔ کسی بھی چیز کے ساتھ اگر آدمی اپنے آپ کو باندھ لے اور اس کے اوپر جم جائے تو یہ صبر ہے۔ یہ بھی صبر ہے کہ انسان کے سامنے جو بھی مقصد ہو یا منزل سر کرنا ہو، چاہے یہ مقصد دنیاوی ہو یا اعلیٰ و ارفع کوئی اخلاقی مقصد، آدمی اپنے مقصد پر جم جائے اور یہ عزم کرلے کہ جوبھی رکاوٹیں ہوں گی انہیں خاطر میں نہیں لائے گا خواہ وہ تکلیف کی صورت میں نمودار ہوں یا ترغیب کی صورت میں، یہ مشکلات اور رکاوٹیں باہر سے ہوں یا اپنے اندر سے یا کوئی راہ میں مسائل پیدا کردے لیکن انسان اپنے مقصد پر جما رہے۔ کبھی حوصلہ پست ہونے لگے یا مایوسی ہونے لگے، کبھی محنت سے دل گھبرانے لگے، مستقل کام کرتے ہوئے اُکتاہٹ ہونے لگے اس کے باوجود کام کرتے رہنا، یہ بھی صبر ہے۔ گویا روکنے اور باندھنے اورسہارنے کے معنوں میں صبر کا لفظ استعمال ہوتاہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ صبر ایک ایسی صفت اور ایسی استعداد ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں جا بجا ملتا ہے۔ وہ جگہ جگہ اس کی ہدایت کرتاہے اور اس کے مختلف پہلو بیان کرتاچلا جاتاہے۔ دنیا کے کسی بھی مقصد کے حصول کیلئے یہ ضروری ہے کہ انسان جم کے کام کرے، رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائے اور ترغیبات کے اوپرقابو پائے۔ لالچ ہو یا خوف، خوشی ہو یا غم، مایوسی ہو یا کم ہمتی، سب کے اوپر قابو پائے۔ دنیا کے اندر اس کا کوئی کاروبار چلتاہے، کسی نوکری میں اونچا مقام ملتا ہے، تعلیم کے میدان میں کوئی کامیابی ملتی ہے، مکان کی بنیاد رکھی جائے یا مکان تعمیر کیا جائے یا اور بہت سے کام ہوں، ان سب کے لئے صبر کی صفت ضروری ہے۔
قرآن مجید ایک ایسی منزل کی دعوت دینے کے لئے آیا ہے اور ایک ایسی نعمت عطاکرتاہے جو بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں جتنی بھی منازل ہیں، جتنی بھی خواہشات ہیں، جتنی بھی چیزیں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لئے کہ وہ ایک ابدی نعمت، یعنی جنت اور رضائے الٰہی کی طرف پکارتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر صبر کی ضرورت اسی راستے کے لئے ہے۔ جتنی اعلیٰ منزل ہوگی، اتنی ہی محنت کرنا پڑے گی اور اتنا ہی گرنے کا ڈر بھی ہوگااور اتنی ہی زیادہ راہ میں رکاوٹیں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ترغیبات اور وسوسے بھی باربار سامنے آئیں گے کہ شاید پیچھے رہ جانے میں ہی فائدہ تھا یاآگے بڑھنے کی محنت خواہ مخواہ مول لی وغیرہ۔
یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو کسی بھی اعلیٰ مقام تک پہنچنے کیلئے ہمارے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ جب منزل وہ ہو جس کی وسعت میں آسمان اور زمین سماجائیں تو ظاہر ہے کہ اسی پیمانے سے مشکلیں، رکاوٹیں، مصائب اور ترغیبات سامنے آسکتی ہیں۔ وہ ساری نفسیاتی کیفیات اور جسمانی مصائب جو دوسرے مقاصد تک پہنچنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں وہ اس حیثیت میں کئی گنا زیادہ پیش آتے ہیں۔
اسی لئے جب قرآن مجید نازل ہوا تو شروع ہی میں جو بنیادی ہدایات اس نے اپنے لانے والے کو دیں وہ یہی تھیں کہ ’’ اور اپنے رب کی خاطر صبر کریں۔ ‘‘ (المدثر:۷) پھر چند دن کے بعد دوسری وحی نازل ہوئی: ’’اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں، ان پر صبر کریں اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہو جائیں ‘‘ (المزمل:۱۰) یعنی مخالفین جو بھی باتیں بنار ہے ہیں، آپ کو جھٹلا رہے ہیں، مذاق اڑا رہے ہیں، پروپیگنڈا کررہے ہیں اس پر صبر کریں اور راہِ خدا میں جمے رہیں۔ ان لوگوں کو چھوڑ دیں اور چھوڑیں بھی اچھے اور بھلے طریقے سے۔ یہ دوسری ہدایت سورۂ مزمل کی ہے اور پہلی سورۂ مدثر کی۔ یہ بالکل ابتدائی دنوں میں دی جانے والی ہدایات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو دیں۔ اس کے بعد دین کی راہ پر آگے بڑھنے کے ہر ہر مرحلے میں یہ ہدایات بار بار دہرائی جاتی رہیں۔
مکی دور مظالم کا دور تھا۔ مخالفین پر ہاتھ اٹھائے بغیر سہنے اور برداشت کرنے کا دور تھا۔ جسمانی مصائب اور تکالیف اٹھانے کا دور تھا۔ جب مدنی دور آیا تو ہاتھ اٹھانے کا زمانہ آیا، اس میں جنگ کی نوبت آئی اور جہاد کا راستہ کھلا۔ اگرچہ اس دور میں ہاتھ اٹھانے اور مقابلہ کرنے کی اجازت تھی مگر اس میں بھی جان و مال کا خطرہ موجود تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی:
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ ‘‘ (سورہ البقرۃ :۱۵۵)
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور دوسرے انبیاء ؑ کو بھی صبر کی ہدایت کی۔ اس میں بھی یہ دو چیزیں موجود تھیں کہ راہ میں آنے والے مصائب پر صبر اور نمازکی روش اپنائیں، یہ کامیابی کی روش ہے۔ اگرکوئی کنجیاں ہیں جو راستہ کھولتی چلی جائیں، جس سے راہ آسان ہوتی جائے، منزل قریب آئے، مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور استعداد پیدا ہو تووہ صبراور صلوٰۃ ہیں۔ تمام انبیاء ؑ نے اپنی اُمتوں کو انہی دوچیزوں کی نصیحت کی۔ قرآن مجید میں بھی تین جگہ پر مختلف انداز میں یہ بات دہرائی گئی ہے: ’’ اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو۔ ‘‘ (البقرۃ : ۴۵) گویاجو راستہ تمہارے سامنے ہے، اللہ کی بندگی اور اللہ کی رضا کے حصول کا راستہ، جنت تک پہنچنے کا راستہ، تو یہ راہ صبر اور نمازکے ذریعے ہی طے ہو سکتی ہے۔
اگر صبرکے یہ معنی ہوں تو اس سے ایک بات بڑی صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ بچپن سے جو کچھ ہم سنتے چلے آئے ہیں وہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ کہ جب بے بس ہو جائیں، معاملہ ہاتھ سے نکل جائے، ڈاکٹر جواب دے دیں، موت کا فرشتہ آجائے اور جان نکال لے جائے، تب دم مارنے کی مجال نہیں ہے، ایسے موقع پر اس کے علاوہ کیا چارہ ہے کہ صبر کیا جائے۔ لیکن قرآن مجید میں صبر کا جوبیان ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے بسی یا بے کسی کا نام صبر نہیں ہے یا قابو نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کرپانا صبرنہیں ہے۔ کچھ کرنے اور کچھ کہنے کا حوصلہ بھی ہو اس کے باوجود انسان اس سے رک جائے تو یہ بھی صبر ہے۔ کسی کام کے کرنے کی استعداد ہو، خواہش بھی موجود ہو لیکن آدمی اس کے مقابلے پر جم جائے۔ صبر بزدلوں یا کم حوصلہ لوگوں کا کام نہیں بلکہ صبر بڑی ہمت، بڑی جرأت، بڑی بہادری اور عزم و حوصلے کا مطالبہ کرتاہے۔ اسی لئے قرآن مجید نے بار بار کہا ہے کہ جو صبر کرتے ہیں اور قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیتے ہیں اور برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے۔