رسول مقبول ؐ نے اُمت کو جو بھی تعلیم دی، پہلے خود اُس پر عمل کیا، بلکہ، یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ آپؐ نے جس بات کی جتنی تلقین کی اُس سے زیادہ خود کیا مثلاً روزہ صبح سے شام تک کا ہے مگر آپؐ نے کئی کئی دن متصلاً روزہ رکھا۔
EPAPER
Updated: October 24, 2025, 4:53 PM IST | Allama Syed Sulaiman Nadvi | Mumbai
رسول مقبول ؐ نے اُمت کو جو بھی تعلیم دی، پہلے خود اُس پر عمل کیا، بلکہ، یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ آپؐ نے جس بات کی جتنی تلقین کی اُس سے زیادہ خود کیا مثلاً روزہ صبح سے شام تک کا ہے مگر آپؐ نے کئی کئی دن متصلاً روزہ رکھا۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپؐ نے بحیثیت ایک پیغمبر کے اپنے پیروکاروں کو جو نصیحت فرمائی اس پر سب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا۔
کثرت ِ ذکر
نبی ِ اکرم ؐ نے لوگوں کو خدا کی یاد او رمحبت کی نصیحت کی، صحابہٴ کرام رضی الله عنہ کی زندگی میں اس تلقین کا جو اثر نمایاں ہوا وہ تو الگ چیز ہے، خود آپؐ کی زندگی کہاں تک اس کے مطابق تھی، اس پر غور کرو، شب وروز میں کب کوئی ایسا لمحہ تھا جب آپ ؐ کا دل الله تعالیٰ کی یاد سے اور آپؐکی زبان الله تعالیٰ کے ذکر سے غافل تھی؟ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، پہنتے اوڑھتے، ہر حالت میں اور ہر وقت الله تعالیٰ کا ذکر اور اس کی حمد زبان ِ مبارک پر جاری رہتی تھی۔ آج حدیث کی کتابوں کا ایک بڑا حصہ انہی مبارک کلمات اور دعاؤں کے بیان میں ہے جو مختلف حالات او ر مختلف وقتوں کی مناسبت سے آپؐ کی زبان ِ فیض اثر سے ادا ہوئیں، حصن حصین دو سو صفحوں کی کتاب صرف ان کلمات اور دعاؤ ں کا مجموعہ ہے جن کے فقرہ فقرہ سے الله تعالیٰ کی محبت وعظمت، جلالت اور خشیت نمایاں ہیں اورجن سے ہر وقت زبان ِ اقدس تر رہتی تھی۔ قرآن نے اچھے بندوں کی یہ تعریف کی ہے:
’’جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے، ہر وقت الله تعالیٰ کو یاد کیا کرتے ہیں۔ ‘‘
یہی آپ ؐ کی زندگی کا نقشہ تھا، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ؐ ہر وقت اور ہر لمحہ الله تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔
نماز سے تعلق
نبی ِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کا حکم دیا، مگر خود آپؐ کا حال کیا تھا، عام پیروکاروں کو تو پانچ وقتوں کی نماز کا حکم تھا، مگر خود آپؐ آٹھ وقت نماز پڑھتے تھے۔ طلوع آفتاب کے بعد اشراق، کچھ اور دن چڑھنے پر چاشت، پھر ظہر، پھر عصر، پھر مغرب، پھر عشاء، پھر تہجد پھر صبح۔ عام مسلمانوں پر تو صبح کو دو رکعتیں، مغرب کو تین او ربقیہ اوقات میں چار چار رکعتیں فرض ہیں، شب و روز میں کل سترہ رکعتیں ہیں، مگر نبی اکرمؐہر روز کم وبیش پچاس ساٹھ رکعتیں ادا فرمایا کرتے تھے۔
پنج وقتہ نماز کی فرضیت کے بعد تہجد کی نماز عام مسلمانوں سے معاف ہو گئی تھی، مگر آپؐ اس کو بھی تمام عمر شب میں ادا فرماتے رہے اور پھر کیسی نماز کہ رات بھر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے، کھڑے کھڑے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کہتیں : الله تعالیٰ نے تو آپؐ کو ہر طرح معاف کر دیا ہے، پھر اس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں ؟ فرماتے: اے عائشہؓ! کیا میں الله کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ یعنی یہ نماز خشیت الہٰی سے نہیں، بلکہ محبت الہٰی اس کا منشا ہے۔ رکوع میں اتنی دیر جھکے رہتے کہ دیکھنے والے کہتے کہ شاید آپؐ سجدہ کرنا بھول گئے۔
نبوت کے آغاز ہی سے آپؐنماز پڑھتے تھے۔ کفار آپؐکے سخت دشمن تھے، مگر بایں ہمہ عین حرم میں جاکر سب کے سامنے نماز پڑھتے تھے۔ کئی دفعہ نماز کی حالت میں دشمنوں نے آپؐپر حملہ کیا، مگر اس پر بھی الله کی یاد سے رُکنا گوارا نہ فرمایا۔ سب سے سخت موقع نماز کا وہ ہوتا تھا، جب کفار کی فوجیں مقابل ہوتیں، تیر وخنجر چلتے ہوتے، لیکن اِدھر نماز کا وقت آیا اور اُدھر صفیں درست ہو گئیں۔ بدر کے معرکہ میں تمام مسلمان دشمنوں کے مقابل کھڑے تھے، مگر خود آپؐ الله کے آگے سجدہ میں جھکے ہوئے تھے۔ تمام عمر میں کوئی نماز عموماً اپنے وقت سے نہیں ہٹی اور نہ دو وقتوں کے علاوہ کبھی کسی وقت کی نماز قضا ہوئی۔ ایک تو غزوہٴ خندق میں کافروں نے عصر کی نماز کا موقع نہیں دیا اور ایک دفعہ اور کسی غزوہ کے سفر میں رات بھر چل کر صبح کو تمام لوگ سو گئے تو آپؐنے دن کو نماز قضا ادا کی۔
اس سے زیادہ یہ کہ مرضِ موت میں شدت کا بخار تھا، تکلیف بہت تھی، مگر نماز حتیٰ کہ جماعت بھی ترک نہ ہوئی۔ قوت جواب دے چکی تھی، مگر دو صحابیوں کے کندھوں پر سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے۔ وفات سے تین دن پہلے جب آپؐ نے اٹھنے کا قصد کیا تو غشی طاری ہوئی اور یہی حالت تین دفعہ پیش آئی، اس وقت نماز باجماعت ترک ہوئی۔ یہ تھا الله کی عبادت گزاری اور یاد کا عملی نمونہ۔
روزہ کے بارے میں آپؐ کے معمولات
آپؐ نے روزہ کا حکم دیا۔ عام مسلمانوں پر سال میں تیس دن کے روزے فرض ہیں، مگر خود آپ ؐکی کیفیت کیا تھی؟ کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہیں تھا۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں : جب آپ ؐروزے رکھنے پر آتے تومعلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی افطار نہ فرمائینگے۔ نبی اکرمؐ نے مسلمانوں کو دن بھر سے زیادہ روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی، مگر خود آپؐ کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھی دو دو، تین تین دن بیچ میں کچھ کھائے پیئے بغیر متصل روزہ رکھتے تھے او راس عرصہ میں ایک دانہ بھی دہن مبارک میں نہیں جاتا تھا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہ اس کی تقلید کرنا چاہتے تو فرماتے: تم میں سے کون میری مانند ہے؟ مجھ کو تو میرا آقا کھلاتا پلاتا ہے۔ سال میں دو مہینے شعبان اور رمضان کے پورے کے پورے روزوں میں گزرے۔ ہر مہینہ کے ایامِ بیض (۱۳، ۱۴؍اور۱۵؍ تاریخ) میں اکثر روزے رکھتے۔ محرم کے دس دن اور شوال کے چھ دن روزں میں گزرتے۔ ہفتہ میں پیر اور جمعرات کا دن روزوں میں بسر ہوتا۔ یہ تھا روزوں کے متعلق آپ ؐ کا عملی نقشہ ٔ زندگی۔
زکوٰۃ و صدقات اور آپ ؐ کا عملی نمونہ
نبی اکرمؐ نے لوگوں کو زکوٰۃ اور خیرات کا حکم دیا، تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ گھر تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا نے آپؐ سےکہا: یا رسولؐ الله! آپ قرض داروں کا قرض ادا کرتے ہیں، غریبوں اور مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔ گو، نبی کریمؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم سب کچھ چھوڑ کر میرے پیچھے آؤ، نہ گھر بار لٹا دینے کام حکم فرمایا، نہ آسمان کی بادشاہت کا دروازہ دولت مندوں پر بند کیا، بلکہ صرف یہ حکم دیا کہ اپنی کمائی میں سے کچھ دوسروں کو دے کر الله کا حق بھی ادا کرو۔
مگر خود آپ ؐ کا عمل یہ رہا کہ جو کچھ آیا الله کی راہ میں خرچ ہو گیا۔ غزوات اور فتوحات کی وجہ سے مال واسباب کی کمی نہ تھی، مگر وہ سب غیروں کے لئے تھا، اپنے لئے کچھ نہ تھا۔ وہی فقر وفاقہ تھا۔ فتح خیبر کے بعد یعنی ۷ھ سے یہ معمول تھا کہ سال بھر کے خرچ کیلئے تمام ازواج مطہرات کو غلہ تقسیم کر دیا جاتا تھا، مگر سال تمام بھی نہیں ہونے پاتا تھا کہ غلہ ختم ہو جاتا تھا، کیوں کہ غلہ کا بڑا حصہ اہل حاجات کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ سیدنا ابن عباس ؓکہتے ہیں کہ آپؐتمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ سخاوت آپؐرمضان المبارک میں کرتے تھے۔
تمام عمر کسی سوالی کے جواب میں ” نہیں “ کا لفظ نہیں فرمایا۔ کبھی کوئی چیز تنہا نہیں کھاتے تھے، کتنی ہی تھوڑی چیز ہوتی، مگر آپؐ سب حاضرین کو اس میں شریک کر لیتے تھے، لوگوں کو عام حکم تھا کہ جو مسلمان قرض چھوڑ کر مر جائے اس کی اطلاع مجھے دو کہ میں اس کا قر ض ادا کروں گا اور اس نے ترکہ چھوڑا ہو تو اس کے حقدار اس کے وراث ہوں گے۔ ایک دفعہ ایک بدو نے کہا: اے محمد! یہ مال نہ تیرا ہے او رنہ تیرے باپ کا ہے، میرے اونٹ پر لاد دے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے اونٹ کو جَو او رکھجوروں سے لدوا دیا اور اس کے کہنے کا برا نہ مانا۔ خود فرمایا کرتے: ” میں تو بانٹنے والے اور خزانچی کی حیثیت رکھتا ہوں، اصل دینے والا تو الله ہے۔ “ سیدنا ابو ذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کو میں آپ ؐکے ساتھ گزر رہا تھا، راستہ میں آپؐ نے فرمایا: ابوذرا! اگر اُحد کا یہ پہاڑ میرے لئے سونا ہو جائے تو میں کبھی پسند نہ کروں گا کہ تین راتیں گزر جائیں اور اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس رہ جائے، البتہ یہ کہ کسی قرض کے ادا کرنے کے لئے کچھ رکھ چھوڑوں۔
قارئین کرام! آپؐ کے صرف خوش نما الفاظ نہ تھے، بلکہ یہ آپؐکے عزم ِ صادق کا اظہار تھا، او راسی پر آپؐکا عمل تھا۔ بحرین سے ایک دفعہ خراج کا لدا ہوا خزانہ آیا، فرمایا کہ صحن مسجد میں ڈال دیا جائے، صبح کی نماز کیلئے آپؐ تشریف لائے تو دیکھنے والے کہتے ہیں کہ آپؐنے خزانہ کے انبار کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، نماز کے بعد ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم کرنا شروع کر دیا، جب سب ختم ہو گیا تو دامن جھاڑ کر اس طرح کھڑے ہو گئے کہ یہ گویا کوئی غبار تھا جو دامن مبارک پر پڑ گیا تھا۔
یہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ فدک سے چار اونٹوں پر غلہ لد کر آیا، کچھ قرض تھا وہ دیا گیا، کچھ لوگوں کو دیا۔ سیدنا بلال ؓسے دریافت کیا کہ بچ تو نہیں رہا؟ عرض کی اب کوئی لینے والا نہیں، اس لئے بچ رہا ہے، فرمایا جب تک دنیا کا یہ مال باقی ہے، میں گھر نہیں جاسکتا۔ چنانچہ رات مسجد میں بسر کی۔ صبح کو سیدنا بلال رضی الله عنہ نے آکر بشارت دی کہ یا رسول الله ! الله تعالیٰ نے آپ کو سبک دوش کر دیا۔ یعنی جو کچھ تھا وہ تقسیم ہو گیا۔ آپ ؐنے الله کا شکر ادا کیا۔
ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد خلاف ِمعمول فوراً اندر تشریف لے گئے او رپھر باہر آگئے، لوگوں کو تعجب ہوا، فرمایا مجھ کو نماز میں یاد آیا کہ سونے کا چھوٹا سا ٹکڑا گھر میں پڑا رہ گیا ہے، خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ رات آجائے او ر وہ محمد کے گھر میں پڑا رہ جائے۔ سیدہ ام سلمہ ؓبیان کرتی ہیں کہ : ایک دفعہ آپؐ ملول اور رنجیدہ اندر تشریف لائے، میں نے سبب دریافت کیا، فرمایا: ام سلمہ ! کل جو سات دینار آئے تھے شام ہو گئی اور وہ بستر پر پڑے رہ گئے۔
نبی کریمؐ مرض الوفات میں ہیں، بیماری کی سخت تکلیف ہے، نہایت بے چینی ہے، لیکن اسی وقت یاد آتا ہے کہ کچھ اشرفیاں گھر میں پڑی ہیں، حکم ہوتا ہے کہ انہیں خیرات کردو، کیا محمدؐ اپنے رب سے اس طرح ملے گا کہ اس کے پیچھے اس کے گھر میں اشرفیاں پڑی ہوں ؟ یہ تھی اس باب میں آپؐ کی زندگی کی عملی مثال۔
زہد وقناعت میں آپ ؐکا طرز عمل
آپؐ نے زہد وقناعت کی تعلیم دی، لیکن اس راہ میں آپ ؐکا طرزِ عمل کیا تھا؟ پڑھ چکے ہو کہ عرب کے گوشہ گوشہ سے جزیہ، خراج، عشر اورزکوٰۃ وصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے، مگر امیرِ عرب کے گھر میں وہی فقر تھا اور وہی فاقہ تھا۔ آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد سیدہ عائشہؓ کہا کرتی تھیں کہ آپؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر دو وقت بھی سیر ہو کر آپؐکو کھانا نصیب نہ ہوا۔ وہی بیان کرتی ہیں کہ جب آپؐ نے وفات پائی تو گھر میں اس دن کے کھانے کے لئے تھوڑے سے جَو کے سوا کچھ موجو دنہ تھا اور چند سیر جو کے بدلہ میں آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے ہاں رہن تھی۔ آپ ؐفرمایا کرتے تھے کہ فرزندِ آدم کو ان چند چیزوں کے سوا کسی چیز کا حق نہیں :
رہنے کو ایک جھونپڑا، تن ڈھانپنے کو ایک کپڑا، پیٹ بھرنے کو رکھی سوکھی روٹی او رپانی۔ یہ محض الفاظ کی خوش نما بندش نہ تھی، بلکہ یہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرزِ زندگی کا عملی نقشہ تھا، رہنے کا مکان ایک حجرہ تھا، جس میں کچی دیوار اور کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں کی چھت تھی۔ سیدہ عائشہ ؓکہتی ہیں کہ آپ ؓکا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدن مبارک پر ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں ہوتا تھا جو تہہ کیا جاتا۔
ایک دفعہ ایک سائل خدمت ِ اقدس میں آیا اور بیان کیا کہ سخت بھوکا ہوں، آپؐ نے ازواج مطہرات کے پاس کہلا بھیجا کہ کچھ کھانے کو ہو تو بھیج دیں، ہر جگہ سے یہی جواب آیا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سیدنا ابو طلحہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن آپؐ کو دیکھا کہ مسجد میں زمین پر لیٹے ہیں اور بھوک کی تکلیف سے کروٹیں بدل رہے ہیں۔ ایک دفعہ صحابہٴ کرام رضی الله عنہم نے آپؐ کی خدمت میں فاقہ کشی کی شکایت کی اور پیٹ کھول کر دکھائے کہ ان پر ایک پتھر بندھا ہے، آپؐ نے شکم مبارک کھولا تو ایک کے بجائے دو پتھر بندھے تھے، یعنی دو دن سے فاقہ تھا۔ اکثر بھوک کی وجہ سے آواز میں کمزوری اور نقاہت آجاتی تھی۔ ایک دن بھوک کی شدت تھی، سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے گھر تشریف لے گئے وہ نخلستان سے کھجور توڑ لائے اور کھانے کا سامان کیا، کھانا جب سامنے آیا تو آپؐ نے ایک روٹی پر تھوڑا سا گوشت رکھ کر فرمایا یہ فاطمہ کے گھر بھجوا دو، کئی دن سے اس کو کھانا نہیں ملا ہے۔
مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے