• Fri, 12 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

وزیراعظم کا مقصد غلامی کی ذہنیت کومٹانا ہے یا میکالے کی جگہ پر’منوواد‘ کولانا ہے؟

Updated: December 11, 2025, 3:34 PM IST | Pankaj Srivastava | Mumbai

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی جس کی مذمت کرتے ہیں، جیوتی با پھلے جیسے سماجی مصلحین ا سی میکالے کے سر اپنی آزادی کا سہرا باندھتے ہیں۔ایسے میں جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ میکالے کی سازش کو توڑنا ہوگا اور غلامی کی ذہنیت کو ختم کرنا ہوگا تو اس کا مطلب سمجھنا ہوگا۔

Prime Minister Narendra Modi. Photo: INN
وزیر اعظم نریندر مودی۔ تصویر: آئی این این
۷؍ نومبر کو دہلی میں رام ناتھ گوئنکا لیکچر سیریز کے چھٹے ایڈیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے قوم کیلئے ایک نیا ہدف مقرر کیا۔ انہوں نے کہا کہ۱۸۳۵ءمیں برطانوی رکن پارلیمان لارڈ میکالے نے ہندوستان کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ایک بہت بڑی مہم چلائی تھی۔ اس کیلئے  اس نے سب سے پہلے ہندوستانی تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تباہ کیا۔  آئندہ ۱۰؍ برسوں میں، ہمیں ہندوستان کو اس غلامانہ ذہنیت سے آزاد کرنے کا عزم کرنا ہوگا جو میکالے نے اس میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
لارڈ میکالے کون تھا؟ ۱۸۳۵ء میں اس نے کیا کیا تھا جس کے اثرات آج تک موجود ہیں؟ تھامس میکالے ایک مشہور برطانوی مورخ، سیاست دان، مضمون نگار اور شاعر تھا۔ وِگ پارٹی سے تعلق رکھنے والے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن میکالے نے’ہسٹری آف انگلینڈ‘ لکھا جسے انگریزی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ میکالے۱۸۳۴ء میں ہندوستان آیا اور گورنر جنرل کی سپریم کونسل کا پہلے لاء ممبر بنا۔ وہ۱۸۳۴ء سے۱۸۳۸ء تک ہندوستان میں رہا۔ اس نے ہندوستان میں تعلیم اور قانون دونوں پر گہرا اثر ڈالا۔
۲؍ فروری۱۸۳۵ء کو، جس کا ذکر وزیر اعظم مودی نےکیا، میکالے نے کلکتہ میں ایک میمورنڈم لکھا جس کا نام ’منٹس آن ایجوکیشن‘ تھا۔ یہ میمورنڈم پبلک انسٹرکشن کی کمیٹی کے اجلاس میں تقسیم کیا گیا اور بعد میں لارڈ ولیم بینٹک کے حوالے کیا گیا۔میکالے نے دلیل دی کہ:
 سنسکرت اور عربی جیسی مشرقی زبانیں اور روایتی ہندوستانی تعلیم (گروکول اور مدرسہ وغیرہ) بے کار اور پسماندہ ہیں۔
انگریزی زبان اور مغربی سائنس، ادب اور فلسفہ کو تعلیم کا ذریعہ ہونا چاہئے۔
سرکاری فنڈز صرف انگریزی تعلیم پر خرچ کئے جائیں، سنسکرت  اور فارسی کالجوں پر نہیں۔
میکالے کا مقصد ایک ایسا طبقہ بنانا تھا جو ’’خون اور رنگ میں ہندوستانی ہو، لیکن ذائقہ، فکر، اخلاق اور عقل میں انگریز۔‘‘ یہ ہندوستان میں برطانوی راج کے انتظامی ڈھانچے کے قیام کیلئے ضروری تھا۔ گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک نے اس میمورنڈم کو قبول کیا، اور۱۸۳۵ء کا انگلش ایجوکیشن ایکٹ نافذ ہوا۔ اس طرح ہندوستان میں جدید تعلیم کی بنیاد رکھی گئی۔ مغربی سائنس اور علم پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔ نتیجتاً اسکول کی تعلیم کے دروازے سب کیلئے کھل گئے۔
۱۸۷۲ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی صرف۳ء۲؍ فیصد آبادی خواندہ تھی۔ بلاشبہ یہ رسمی تعلیم کی حالت تھی۔ لوگوں نے تعلیم بھی غیر رسمی طور پر حاصل کی۔ اس زمانے میں مذہبی کتابیں پڑھنا یا ریاضی  سیکھنا پڑھے لکھے شخص کی پہچان  ہوتی تھی۔ عملی تعلیم پر زور دیا گیا۔ یہاں گروکل اور مدرسے تھے، جو بنیادی طور پر روایتی مذہبی تعلیم دیتے تھے اور کمیونٹی کے تعاون سے چلائے جاتے تھے۔
اس زمانے میں ریاستی سرپرستی میں کوئی  نظام تعلیم نہیں تھا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ منوسمرتی جیسے مذہبی قوانین نے شودروں اور خواتین کو تعلیم سے محروم رکھا، اسلئے  ان کیلئے رسمی تعلیم ناقابل تصور تھی۔
میکالے کے منصوبے پر عمل درآمد نے ایک انگریزی تعلیم یافتہ ہندوستانی متوسط طبقہ (کلرک، وکلاء وغیرہ) پیدا کیا جس نے برطانوی انتظامیہ کی مدد کی تاہم اس کا ایک اور نتیجہ بھی نکلا۔ مہاتما گاندھی، نہرو، پٹیل اور امبیڈکر جیسی مشہور شخصیات، جنہوں نے ہندوستان کو ایک جدید قومی ریاست میں تبدیل کیا، اس تعلیمی نظام کے ذریعے ترقی کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک بھی گئے۔ واپسی پر وہ برطانوی راج کیلئے ایک مصیبت بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کو ممکن بنایا بلکہ برابری پر مبنی ہندوستان کی بنیاد بھی رکھی۔ یہ ایک نئے ہندوستان کا ویژن تھا، کیونکہ مساوات اور برابری ماضی میں ہندوستانی قانونی نظام کی قدر نہیں رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میکالے نے دانستہ یا نادانستہ اس سمت میں اہم کردار ادا کیا۔
لاء کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے، میکالے نے۱۸۳۷ء میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کا پہلا مسودہ تیار کیا۔ اس کا مقصد ہندوستان کے مختلف علاقوں کے پیچیدہ قوانین کو یکساں، واضح اور عقلی فوجداری قانون میں تبدیل کرنا تھا۔ آئی پی سی ۱۸۶۰ء میں منظور ہوا اور یکم جنوری ۱۸۶۲ء کو نافذ ہوا۔حال ہی میں، اس کا نام  بدل کر انڈین جوڈیشل کوڈ رکھ دیا گیا ہے، لیکن اس کی بنیادی وہی آئی پی سی ہے، جو (ترمیم کے ساتھ) نہ صرف  بر صغیر ہندو پاک میں بھی فوجداری قانون کی بنیاد ہے۔ یہ واضح طور پر جرائم کی وضاحت کرتا ہے اور سزاؤں کا بندوبست کرتا ہے۔ اس ضابطے نے مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا۔ اس میں جرم کیلئے وہی سزا مقرر کی گئی تھی، جو منوسمرتی کی دفعات کے خلاف تھی۔
لچسپ بات یہ ہے کہ وہی میکالے جن کی وزیر اعظم مودی مذمت کرتے ہیں، جیوتی با پھلے جیسے سماجی مصلحین  ا سی کے سر اپنی آزادی کا سہرا باندھتے ہیں۔ایسے میں جب وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ میکالے کی سازش کو توڑنا ہوگا اور غلامی کی ذہنیت کو ختم کرنا ہوگا تو اس کا مطلب سمجھنا ہوگا۔ کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں:
کیا حکومت تعلیم سے دستبردار ہوگی اور سماج کے تعاون سے گروکل اور مدرسے کھولے جائیں گے؟
کیا مغربی علم و سائنس کا مطالعہ بند ہو جائے گا؟
کیا انگریزی کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر ختم کر دیا جائے گا، اس کی جگہ سنسکرت یا ہندی لے لی جائے گی؟
کیا کسی جرم پر برہمنوں کوکم اور شودروں کو زیادہ سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسا کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہوا تھا؟
کیا’غیر ملکی‘ پارلیمانی نظام کی جگہ ’راج تنتر‘ کی واپسی ہو گی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK