Inquilab Logo

جو چلا گیاسو چلا گیا اسے لوٹنے کی صدا نہ دو

Updated: January 10, 2023, 10:39 AM IST | Hasan Kamal | MUMBAI

غلام نبی آزاد نے اپنی ریاست میں کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا کہ وہ ریاست انہیں یاد رکھتی۔ اس طرح ان کی حیثیت صفر ہو گئی تھی۔ اب وہ کانگریس میں صرف اس لئے آنا چاہتے ہیں کہ اس صفر کے ساتھ دو چار تعداد بھی لگ جائے، کانگریس انہیں اس کا موقع کیوں دے۔

Ghulam Nabi Azad is now again trying to come to the Congress; Photo: INN
غلام نبی آزاد اب ایک بار پھر کانگریس میں آنے کی کوشش میں ہیں; تصویر:آئی این این

یہ خبر نہ تو تادم تحریر غلام نبی آزاد نے دی ہے، نہ ہی کسی معتبر کانگریسی لیڈر نے ، لیکن یہ خبر عام طور پر گشت کر رہی ہے کہ غلام نبی آزاد اب ایک بار پھر کانگریس میں آنے کی کوشش میں ہیں۔ہماراخیال ہے کہ اگر انہوں نے واقعی ایسی کوئی کوشش کی تو کانگریس کے موجودہ صدر کو اتنی ہی آسانی سے ان کی اس کوشش کو سرے سے ہی مسترد کر دینی چاہئے۔ کیونکہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو راہل گاندھی نے پد یاترا کرکے اپنی جس امیج کا بلا مبالغہ قائم کیا ہے، اس کی چمک یکسر ماند پڑ جائے گی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی نے بھی غلام نبی آزاد سے کہا تھا کہ وہ کانگریس چھوڑ کر نہ جائیں، لیکن اس وقت آزاد کا کہنا تھا کہ کانگریس ایک پارٹی ضرور ہے، لیکن اس کے پاس کوئی نیتا نہیں ہے۔ تو کیا اب انہیں کانگریس کا کوئی نیتا مل گیا ہے؟
  آزاد کے کانگریس سے باہر جانے کی اصل و جہ کیا تھی؟ قصہ یہ تھا کہ ان کی راجیہ سبھاممبری کی مدت ختم ہونے کو تھی۔کانگریس کے پاس دو چار ریاستوں کے سوا کچھ بھی نہ رہاتھا اور وہ انہیں کہیںسے بھی راجیہ سبھا کی ممبری نہیں دلا سکتی تھی۔ ان کی طرح کچھ اور لیڈر بھی اسی قسم کے تھے لیکن جن کے پاس کوئی قابلیت تھی وہ کسی نہ کسی پارٹی میں لے لئے گئے۔ کپل سبل اور ابھیشیک منوسنگھوی اس کی مثالیں موجود ہیں۔آزاد کے پاس ایسی کوئی قابلیت بھی نہیں تھی ۔ خود آزاد نے اپنی ریاست میں کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا کہ وہ ریاست بھی انہیں یاد رکھتی۔ اس طرح ان کی حیثیت صفر ہو گئی تھی۔ اب وہ کانگریس میں صرف اس لئے آنا چاہتے ہیں کہ اس صفر کے ساتھ دو چار تعداد بھی لگ جائے، کانگریس انہیں اس کا موقع کیوں دے۔ اب جب کہ فاروق عبداللہ پدیاترا میں شامل ہو چکے ہیں اور محبوبہ مفتی نے بھی یاترا کا خیر مقدم کیا ہے آزاد کی حیثیت اور بھی منفی ہو چکی ہے۔
  یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جیوتر آدتیہ سندھیا بھی اب کچھ اور سوچ رہے ہیں، ان کے جانے کا سبب بقول ان کے یہ تھا کہ انہیں کانگریس میں وہ برتری نہیں مل رہی تھی ، جس کے وہ خواہاں تھے۔ وہ یہ برتری ڈھونڈنے بی جے پی میں گئے تھے۔ وہاں سے وہ یہ بھی کہہ چکے تھے کہ وہ اور راہل تو ایک ہی آنگن میں کھائے کھیلے ہیں۔ راہل نے ان سے کہا بھی تھا کہ انہیں بی جے پی بھی وہ بہتری نہیں دے گی، جسے وہ ڈھونڈ رہے تھے، ویسے انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ کانگریس میں یہ برتری چاہتے تھے کہ دو جہاندیدہ اور تجربہ کار لیڈردگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ کو ایک طرف کرکے جیوتر ّآدتیہ کو مدھیہ پردیش کا چیف منسٹر بنا دیا جائے، حالانکہ انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا جس کی بناء پر انہیں یہ رتبہ دیا تھا۔ لوک سبھا کے الیکشن میں بھی وہ اپنے علاقے سے ممبر بھی نہیں جتا سکے تھے۔ بی جے پی نے انہیں لے کر کانگریس کی سرکار تو تڑا دی، لیکن جیوتر آدتیہ سندھیا کو صرف ایک بے معنی شہری ہوا بازی کی وزارت کے سوا کچھ بھی نہیںدیا۔ جیوترا دتیہ کانگریس میں لوٹنا چاہتے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ انہیں بھی جان لینا چاہئے کہ ’جو چلا گیا سو چلا گیا، اسے لوٹنے کی صدا نہ دو‘۔ ہمارایہ بھی خیال ہے کہ بالکل یہ پیغام سچن پائلٹ اور نوجوت سنگھ سدھو کو بھی دینا چاہئے۔ سچن پائلٹ بھی یہی چاہتے ہیں کہ گہلوت کے بجائے انہیں چیف منسٹری ملنا چاہئے۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ گہلوت کو ان کے کس قصور کی یہ سزا ملنی چاہئے، ہم سمجھتے ہیں کہ کانگریس کو جو کچھ کھونا تھا، وہ اس نے کھو دیا۔ اب اسے اس پر نظر رکھنا چاہئے کہ فائدے کس سمت سے آنے ہیں۔ ایک اور دلچسپ واقعہ بھی جان لیں۔ کمل ناتھ کے بنائے ہوئے ایک ہنومان مندر کی تقریب میں لودی راجپوت لیڈر اومابھارتی بھی گئی تھیں۔ انہوں وہاں کہا کہ رام اور ہنومان پر بی جے پی کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے۔ یعنی یہ دونوں ہر ایک کیلئےکھلے ہیں، اس پر لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی کانگریس کی طرف مڑنا چاہیں گے۔ گویا کانگریس یہ بھول سکتی ہے کہ یہ وہی اوما بھارتی ہیں جو بابری مسجد کی شہادت کے وقت وہاں ناچ ناچ اور مٹک مٹک کے کہہ رہی تھیں کہ بابر کی دیوار کو ایک دھکہ اور دو۔ کیا اس ملک کی تاریخ بھی اسے بھول سکتی ہے؟ اس سلسلہ کو کانگریس یہیں پر بند کر دے تو یہ اس کیلئے بہتر ہوگا۔
 اپوزیشن کو ایک محاذ پر متحد ہونے کی اپیل نہ تو اب تک راہل گاندھی نے کی ہے اور نہ ہی صدر کانگریس نے کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اچھا ہی کیا ہے۔ جیسے ہی یہ لوگ ایسی کوئی اپیل کریں گے بی جے پی کا اعلیٰ سطحی کمان فوراًہی حرکت میں آ جائے گا۔ بی جے پی اپنے بے محابہ فنڈ کو بروئے کار لانا شروع کر دے گی اور اس کے سہارے اپوزیشن میںپھوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ مثال کے طور پر وہ فوراًہی ممتا دیدی سے اپیل کرے گی کہ کانگریس یہ اس لئے کر رہی ہے کہ وہ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کے بجائے بائیں بازو کی پارٹیوں کی سرکار لانا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑے گا۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ پچھلی بار جب کبھی اپوزیشن کو متحد کرنے کی اپیل کی گئی تو یہ شوشہ اٹھایا گیا کہ اپوزیشن کانگریس کے بجائے نتیش کمار کی سرکردگی میں اکٹھا ہونا چاہتی ہے لیکن اس بار بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کا اتحاد ٹوٹ جانے سے اب یہ کھیل بھی نہیں ہو پارہا ہے۔ دوسرے نتیش کمار بھی حالات کو اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں۔ پدیاترانے انہیں بھی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ملک کی پرائم منسٹری کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ اس لئے یہ خطرہ بھی ٹل گیا ہے۔ پچھلی بار بھی اس اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ ملائم سنگھ یادو رہے ۔ اکھلیش یادو نے پہلے پد یاترا کے اثر کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ راہل گاندھی نے انہیں اور بہن جی دونوں کو یاترا میں آنے کی دعوت دی تھی لیکن اکھلیش نے کہا کہ انہیں کوئی دعوت نامہ ملاہی نہیں ہے۔ بہن جی نے بھی اس سے بچنا چاہا تھا لیکن پد یاترا کے کامیاب ہوتے دیکھ کر اب اکھلیش نے راہل کو دعوت نامہ بھیجنے کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پرائم منسٹری کے تیسرے بڑے امیدوار تلنگانہ کے کے سی آر بھی تھے۔ وہ بھی اب قومی سیاست میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن اب وہ بھی سست پڑ گئے ہیں۔ جنوب کے دیگر بڑے لیڈر خصوصاً اسٹالن پہلے ہی راہل گاندھی کے ساتھ تھے۔ کمل ہاسن جیسے معروف تمل اداکار بھی راہل سے مل چکے ہیں۔ اس طرح اپوزیشن کا اتحاد اس کی بات کئے بغیر ہی ہو رہا ہے۔ اسے بھی ایک اچھا کام سمجھا جا رہا ہے۔ پدیاترا کی ہمدردی میں بعض معروف غیر سیاسی ہستیاں بھی شامل ہو رہی ہیں، ان میں ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ(راو) کے دُلِت جیسے لوگ بھی ہیں۔ ظاہر ہے بیوروکریسی کو بھی اب معلوم ہو رہا ہے کہ راہل کی عوامی دسترس بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن نے یہ مان لیا ہے کہ اپوزیشن اس بار راہل کے ارد گرد اکٹھے ہونے کا ارادہ کر چکا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK