Inquilab Logo

تعلیمی صحت اور شخصی صحت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا

Updated: January 29, 2022, 2:25 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

اگر ایک شخص ابتداء ہی سے ان دونوں صحت کی جانب توجہ دے تو وہ ایک مسحور کن شخصیت کا مالک بن سکتا ہے۔ لیکن آج کے تیز رفتار زمانے میں اس جانب کم توجہ دی جارہی ہے۔

In addition to getting an education, students should also focus on becoming a good person..Picture:INN
طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ ایک اچھا انسان بننے پر بھی توجہ دینا چاہئے۔۔ تصویر: آئی این این

 تعلیم کی صحت کا مفہوم کافی وسیع ہے۔ آج کے تعلیمی نظام کے متعلق بات کی جائے تو بیشتر افراد یہی کہیں گے کہ اگر کوئی طالب علم پڑھائی میں اچھا ہے تو اس کی تعلیمی صحت اچھی ہے۔ یعنی ہم نے تعلیمی صحت کا معیار، طالب علم پڑھائی میں اچھا ہے یا نہیں، اس طرح متعین کردیا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ یہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ ایک طالب علم کو تعلیمی طور پر صحتمند اسی وقت کہا جاسکتا ہے جب علمی طور پر اس کی ہمہ جہت تربیت ہوئی ہو۔ آج دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص یا طالب علم ہو جو اس معیار پر پورا اترے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی اسکول کی جماعت ہشتم کا طالب علم اپنی جماعت میں اول آتا ہے لیکن وہ ایک جماعت آگے یا چند جماعت پیچھے کے کوئی مضمون کے تعلق سے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکے تو کیا وہ تعلیمی طور پر صحت مند ہوگا؟ اس بات کے کتنے فیصد امکان ہیں کہ وہ ان سوالوں کے بالکل درست جواب دے گا؟ یقیناً، بہت کم۔ آج طلبہ اگلی جماعت میں جانے کے بعد پچھلی جماعت کے تمام مضامین کے بارے میں بھول جاتے ہیں۔ سالانہ امتحان کا نصاب شروع ہونے پر ششماہی امتحان کا نصاب انہیں یاد نہیں رہتا۔ جماعت میں ٹاپ ۱۰؍ پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ بھی پچھلی جماعتوں یا ششماہی امتحان کے نصاب کو آگے بڑھنے کے بعد بھول جاتے ہیں کہ اب آگے کی زندگی میں ان مشمولات کا کیا فائدہ!  آج ہمارا تعلیمی نظام صرف نصاب تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اساتذہ ہوں، والدین ہوں یا طلبہ۔ تمام افراد اسی بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ اس سال اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں اور آگے بڑھ جائیں۔ مذکورہ تمام افراد کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ تعلیم صرف تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے حاصل کی جائے تو اس سے شخصیت کا ارتقا ہمہ جہت نہیں ہوتا بلکہ ایک طالب علم صرف تعلیم اور ڈگریاں حاصل کرتا جاتا ہے، بعد کی زندگی میں کامیاب بھی ہوتا ہے لیکن یہ مکمل ترقی نہیں ہے۔ اسی طرح آج معیاری تعلیم اس تعلیم کو کہا جانے لگا ہے جو انگریزی میں دی جارہی ہے۔ کیا مادری یا علاقائی زبان میں دی جانے والی تعلیم غیر معیاری ہے؟ ہر چند کہ آج انگریزی زبان کا بول بالا ہے لیکن علاقائی یا مادری زبانوں کی جانب سے بے اعتنائی کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ ایسے میں والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی زبان بچوں کو سکھائیں۔ اگر وہ نہیں سکھائیں گے تو بچہ پھر کبھی وہ زبان نہیں سیکھ سکے گا۔ زبانوں کا سیکھنا بھی تعلیمی صحت کا ایک حصہ ہے۔  ایک صحت مند معاشرہ اسی وقت تشکیل پائے گا جب وہاں کے طلبہ معیاری تعلیم حاصل کریں گے اور تعلیمی طور پر صحت مند ہوں گے۔ انہیں اچھے برے اور غلط صحیح کی تمیز ہوگی۔ وہ صرف اس لئے تعلیم نہیں حاصل کریں گے کہ انہیں امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہونا ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو مکمل یا درست طریقے سے دینی تعلیم نہیں حاصل کر پاتے۔ عصری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم دی تو جاتی ہے لیکن یہ بہت مختصر ہوتی ہے ۔ لیکن اگر دینی مدارس کے طلبہ کی بات کی جائے تو انہیں دین کی بھرپور معلومات ہوتی ہے۔ لہٰذا عصری تعلیم حاصل کرنے والے اداروں کے طلبہ کے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے متبادل تلاش کریں۔ انہیں مدارس یا مساجد میں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجیں، یا اگر وہ خود دینی تعلیم دےسکتے ہیں تو انہیں گھر ہی پر تعلیم دیں۔ شخصیات سازی اورشخصی صحت  پرسنالٹی ڈیولپمنٹ سے آج سبھی واقف ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں اس کیلئے ایک پیریڈ بھی مختص ہوتا ہے جہاں انہیں اپنی شخصیت کو نکھارنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ آج ایسے ادارے بھی ہیں جو پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے چند ماہی کورسیز آفر کرتے ہیں، اور جن میں داخلہ لے کر انسان اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرسکتا ہے۔ ابتداء میں اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ لیکن کارپوریٹ کمپنیوں کی آمد کے بعد لوگوں نے خاص طور پر اس جانب توجہ دینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے کورسیز کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی متعارف کروائے گئے۔ مگر گزشتہ چند برسوں میں اسے باقاعدہ نصاب میں شامل کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ اب بہت اہم ہوچکا ہے۔ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کا مطلب ہے شخصیت سازی۔ ان کورسیز میں طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کریں، کیسے کپڑے پہنیں، بال کیسے بنائیں، کون سے رنگوں کے کپڑوں کے ساتھ کون سے رنگ کے جوتے، ٹائی، موزے پہنیں حتیٰ کہ گھڑی اور بیلٹ کس قسم کا ہو، یہ تمام باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ انہیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے بات کرنے کا انداز کیسا ہو، کون سا لفظ کیسے ادا کریں، مصافحہ کیسے کریں، کس وقت پر بغلگیر ہونا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں سیکھنا بری بات نہیں ہے لیکن ایک شخص اپنی مسحور کن شخصیت سے کسی کو متاثر تو کرسکتا ہے لیکن اگر وہ ایک اچھا انسان نہ ہو یعنی اس میں دوسرے انسانوں کی مدد کا جذبہ نہ ہو، وہ انسانیت کی المناکیوں پر افسوس نہ کرتا ہو، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر آگے بڑھ کی اس کی دلجوئی نہ کرتا ہو، اس کو امیری اور غریبی کا فرق نہ معلوم ہو، تو کیا اس کی مسحور کن شخصیت کا کوئی فائدہ ہے؟ کیا اس شخص کی شخصیت مکمل طور پر صحت مند ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ شخصی صحت اسی وقت ممکن ہے جب انسان نہ صرف مسحور کن شخصیت کا مالک ہو بلکہ اس میں صحیح غلط کے فرق کی تمیز ہو نیز اس کے سینے میں ایک درد مند دل دھڑکتا ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK