Inquilab Logo

بہار میں انتخابی آہٹ اور سیاسی جماعتوں کی فعالیت

Updated: February 29, 2024, 9:32 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

تیجسوی یادو نےتین مارچ کو پٹنہ میں عوامی جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اپنے جن وکاس یاترا کے دوران عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ میٹنگ میں شامل ہوں ۔

Tejashwi Yadav
تیجسوی یادو

 حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب بھی حساس اور اشتعال انگیزی کے ساتھ منافرت کے ایجنڈوں پر ہی ہونے والا ہے اور اس کا آغاز ہو چکا ہے ۔امروز فردا میں پارلیمانی انتخاب کی تاریخ کا اعلان بھی ہونے والا ہے اس لئے مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ بھی مختلف سرکاری اسکیموں کے سنگِ بنیاد اور افتتاحی پروگرام بڑے زور وشور سے کئے جا رہے ہیں۔اگر گزشتہ ایک ہفتے میں جتنی سرکاری اسکیموں کی سنگِ بنیا د رکھی گئی ہے اور افتتاح کئے گئے ہیں ان پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتیں کس قدر عجلت میں ہیں ۔ظاہر ہے کہ ایک جمہوری ملک میں ہر حکومت یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنی کرسی کو بچائے رکھے خواہ اس کے لئے جتنے بھی حربے اپنائے جا سکیں۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ دو دہائیوں میں مفادِ عامہ کی اسکیموں کے نفاذ یا عوامی فلاح وبہبود کے لئے کسی حکومت کے ذریعہ کئے گئے اقدام انتخابی نعرے نہیں بن رہے ہیں بلکہ مذہبی منافرت اور طرح طرح کے جذباتی اور بالخصوص حساس ایجنڈوں پر انتخاب ہو رہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ملک کی فضا روز بہ روز مکدر ہوتی جا رہی ہے جو ہماری مشترکہ تہذیب کے تانے بانے کیلئے ہی مضر نہیں ہے بلکہ ملک کی سا لمیت کیلئے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔اگرچہ ہمارے وزیر اعظم کی قیادت میں ہندوستان ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی وکالت کی جا رہی ہے اور دنیا کی پانچویں بڑی طاقت کے طورپر مستحکم ہونے کا سہرا بھی حکومت کے سر باندھا جا رہاہے ۔ اس کےباوجود اگر مذہبی حساس ایجنڈوں کو فروغ دیا جا رہاہے اور ایک خاص طبقے کے خلاف فضا تیار کی جا رہی ہے تو پھر ملک کی برق رفتار ترقی اور معاشرتی استحکام کا دعویٰ کیا معنی رکھتا ہے ۔ کیونکہ ایک جمہوری ملک میں حکومت کے کاموں کی بنیاد پر ووٹ طلبی کی صحت مند روایت ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ان دنوں مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتیں اپنے کاموں کی بدولت عوام کے درمیان جانے کو تیار نظر نہیں آتی ہیں جس کی وجہ سےملک میں ایک اضطرابی کیفیت پروان چڑھ رہی ہے اور بیروزگاری کے گراف میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ مسئلہ صرف کسی ایک سیاسی جماعت کے لئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے بلکہ ملک میں امن وامان کی بحالی اور بالخصوص نئی نسل کے مستقبل کو تابناک بنانے کی ذمہ داری حکمراں جماعت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کی بھی ہے کیونکہ جمہوریت میں حزب اختلاف کو غیر معمولی اہمیت اس لئے دی گئی ہے کہ وہ حکومت کی ناکامیوں پر نظر رکھے اور اپنے اصلاحی مشوروں سے حکومت کو باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر نکیل بھی کسے۔مگر سچائی یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں حزب اختلا ف کی آواز کو جس طرح صدا بہ صحرا ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے وہ ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیلئے مفید نہیں ہے ۔
 بہر کیف!اب جب کہ کسی بھی دن پارلیمانی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہو سکتاہے کہ اس لئے روزنئی اسکیموں کے اعلانات کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے ترقیاتی کاموں کے افتتاحی جلسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔چونکہ اب سائنس اورٹیکنالوجی کے انقلابی ایجادات نے یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ دہلی میں بیٹھ کر ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری اسکیموں کی آن لائن سنگِ بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور افتتاح بھی کیا جا سکتا ہے لہٰذاایک دن میں ہزاروں اسکیموں کا افتتاح کیا جانا ایک معمولی بات ہو کر رہ گئی ہے۔مثلاً گزشتہ دن ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے امرت بھارت اسٹیشن اسکیم کے تحت آن لائن ریموٹ کے ذریعہ ملک میں ۵۵۴؍ ریلوے اسٹیشنوں اور ۱۵۰۰؍روڈ اوور بریج انڈر پاسوں کا سنگِ بنیاد رکھا اور افتتاح بھی کیا۔ سرکاری اعلانات کے مطابق ان اسکیموں پر ۴۱؍ہزار کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔ چونکہ حال ہی میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے دوبارہ قومی جمہوری اتحاد کا دامن تھام لیا ہے اس لئے حالیہ مرکزی اسکیموں کے افتتاحی پروگرام میں بہار پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔اس لئے بہار کے ۳۳؍ریلوے اسٹیشنوں پر تعمیرِ نو کا کام اور ۶۸؍روڈ ویز بریج انڈر پاسوں کی تعمیر کی اسکیموں کا بھی افتتاح اور سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار اس عمل کو بہار کی خوش حالی کا ضامن قرار دے رہے ہیں اور مرکزی حکومت کے تئیں اظہارِ تشکر بھی پیش کر رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر بہار کے ۳۳؍ ریلوے اسٹیشنوں کی جدید کاری ہوتی ہے اور ریلوے بریج کے ساتھ ساتھ انڈر پاس سڑکوں کی تعمیر کی جاتی ہے تو اس کا خاطر خواہ فائدہ بہار کے عوام کو ملے گا۔مگر حزب اختلاف کا موقف ہے کہ یہ افتتاحی جلسے صرف نمائشی ہیں۔ اگر واقعی مرکزی حکومت بہار کی ترقی کے تئیں سنجیدہ ہے تو گزشتہ دس برسوں میں کتنی مرکزی اسکیمیں ریاست بہار کے حصے میں آئی ہیں اور بالخصوص نتیش کمار تین دہائیوں سے بہار کیلئے خصوصی پیکج کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اسے پورا کیو ںنہیں کیا جا رہاہے۔ حزب اختلاف کے سوالات اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نتیش کمار کی این ڈی اے میں واپسی کو ایک بڑا طبقہ بہار کے مفاد کیلئے صحیح قدم قرار دے رہا ہے۔لیکن حزب اختلاف کے لیڈر اور حال تک نتیش کمار کی کابینہ میں نائب وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز راشٹریہ جنتا دل لیڈر تیجسوی یادو ریاست گیر ’’جن وکاس یاترا‘‘ پر نکل گئے ہیں اور وہ اپنے عوامی جلسوں میں عظیم اتحاد سے نتیش کمار کے الگ ہونے کو بہار کے عوام کے ساتھ دھوکہ قرار دے رہے ہیں۔ تیجسوی یادو نے آئندہ تین مارچ کو پٹنہ میں عوامی جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اپنے جن وکاس یاترا کے دوران عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ بڑی تعداد میں پٹنہ کی تاریخی میٹنگ میں شامل ہوں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تیجسوی یادو کی جن وکاس یاترا میں بھیڑ دیکھی جا رہی ہے اور اس میں نوجوان طبقے کی حصہ داری زیادہ نظر آرہی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ یاترا نتیش کمار کے بہار کی ترقی کیلئےخود کو وقف کرنے کے موقف کو کتنا اثر انداز کر پاتے ہیں۔دیگر سیاسی جماعتیں بھی فعال ہوگئی ہیں اور پارلیمانی انتخابات کی تیاری میں لگ گئی ہیں ۔کانگریس کی فعالیت بھی تیز ہوئی ہے اگرچہ بہار میں اب تک عظیم اتحاد کے درمیا ن سیٹوں کی تقسیم نہیں ہوئی ہے لیکن راجد سپریمو لالو پرساد یادو کی طرف سے یہ اشارہ دیا جا رہاہے کہ عظیم اتحاد یعنی کانگریس، بایاں محاذ اور راشٹریہ جنتا دل کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کو لے کر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور سب متحد ہو کر انتخابی میدان میں جائیں گے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو بہار میں جو نئی صف بندی وجود میں آئی ہے وہ پارلیمانی انتخابی نتائج کو متاثر ضرور کرے گی۔n

patna Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK