ایک بات ماننی پڑتی ہے کہ کیسا ہی انکشاف کیا جائے یا کتنا ہی سنگین الزام لگا دیا جائے، کمیشن نہ تو کچھ سنتا ہے نہ ہی کچھ کہنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ شکوک و شبہات دور کرنا اور سوالوں کے جواب دینا تو اسے ہرگز منظور نہیں۔
EPAPER
Updated: October 09, 2025, 12:40 PM IST | Mumbai
ایک بات ماننی پڑتی ہے کہ کیسا ہی انکشاف کیا جائے یا کتنا ہی سنگین الزام لگا دیا جائے، کمیشن نہ تو کچھ سنتا ہے نہ ہی کچھ کہنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ شکوک و شبہات دور کرنا اور سوالوں کے جواب دینا تو اسے ہرگز منظور نہیں۔
ایس آئی آر کے نفاذ کے بعد سے اب تک اتنے نقائص اور دھاندلیوں کا پردہ فاش ہوچکا ہے کہ حتمی فہرست جو ۳۰؍ ستمبر کو جاری کی گئی، چوں چوں کا مربہ بن گئی ہے۔ بہار میں پہلے مرحلے کی پولنگ کیلئے ایک ماہ سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے اور اگر انتخابی فہرست اتنے الزامات اور انکشافات تلے دبی رہی تو انتخابی نتائج مشکوک ہوں گے خواہ ان کے تعلق سے کتنے ہی دعوے الیکشن کمیشن کرلے۔
ایک بات ماننی پڑتی ہے کہ کیسا ہی انکشاف کیا جائے یا کتنا ہی سنگین الزام لگا دیا جائے، کمیشن نہ تو کچھ سنتا ہے نہ ہی کچھ کہنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ شکوک و شبہات دور کرنا اور سوالوں کے جواب دینا تو اسے ہرگز منظور نہیں۔ اِس نے اپنے لئے یہی طریق کار بہتر جانا ہے کہ کوئی کچھ بھی کہے، کتنا ہی درست اور سچ کہے، کتناہی ٹھونک بجا کر کہے اور کتنا ہی ناقابل تردید دعویٰ کرے وہ اپنے لائحہ عمل سے نہ تو ہٹے گا ہی اپنی دھاندلی روکے گا۔ اس کے ارباب اقتدار کو اتنے بڑے، جمہوری اور آئینی ادارہ کی ساکھ اور اعتبار کا ذرہ برابر احساس اور لحاظ نہیں ہے۔
ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کمیشن بیک وقت درجنوں تنازعات کی زد پر ہو اور اس نے روزانہ کی بنیاد پر اپنی ساکھ گنوائی ہو۔ ہمارا تو کہنا ہے کہ کمیشن اپنی ساکھ کی بحالی کیلئے بھی ایک عدد ایس آئی آر (اسپیشل انٹینسیو رویژن) کروائے جس کا پہلا قدم اُن سوالوں کا معقول اور مدلل جواب دینا ہو جو ووٹروں کے بڑی تعداد میں گھٹنے بڑھنے کے تعلق سے اُٹھائے جارہے ہیں۔
منگل، ۸؍اکتوبرکو ایس آئی آر سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑا کہ ۳ء۶۶؍ لاکھ ووٹروں کی تفصیل فراہم کیجئے جنہیں حتمی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ جن رائے دہندگان کے نام ہٹائے گئے ہیں وہ اگر چاہیں تو اپیل بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اُنہیں علم ہی نہ ہوگا کہ اُن کا نام ہٹ چکا ہے کیونکہ ناموں کی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے۔ پولنگ میں اتنے کم دن رہ گئے ہیں اور رائے دہندگان کو اپنا نام تلاش ہی نہیں کرنا ہے، نام حذف ہونے کی صورت میں اپیل بھی کرنا ہے۔ کیا یہ اتنے کم وقت میں ممکن ہے؟
قارئین جانتے ہیں کہ اس سے قبل آدھار کارڈ کو قبول نہ کرنے کے معاملے میں بھی الیکشن کمیشن کے وکلاء اپنے موقف پر اَڑے ہوئے تھے جس کے سبب سپریم کورٹ کو سختی سے کہنا پڑا کہ آپ آدھار قبول کیجئے۔ اِس طرح کئی بار عدالت کے فیصلے اور حکم کے آگے کمیشن مجبور ہوا ہے ورنہ اسے اپنی سی کرنے سے کوئی نہ روک پاتا۔ الیکشن کمیشن کا موجودہ طریق کار اس لئے بھی افسوسناک ہے کہ بہت سے معاملوں میں صاف انکار کرتا ہے کہ فلاں چیز یا فلاں دستاویز نہیں مل سکتی۔ یاد رہے آخری گھنٹے کی پولنگ کا ویڈیو دینے سے اس نے انکار کیا تھا۔ پھر آناً فاناً قانون بنا کہ پولنگ کا ویڈیو فوٹیج صرف ڈیڑھ ماہ محفوظ رکھا جائیگا۔ سوالوں کے جواب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ دو روز قبل یوگیندر یادو نے سوال اُٹھایا کہ کمیشن نے پہلے کہا تھا کہ ۱۶؍ لاکھ ۹۳؍ ہزار نئے ووٹروں نے عرضی دی ہے، اب کہہ رہا ہے کہ ۲۱؍ لاکھ ۵۳؍ ہزار لوگوں کی عرضیاں قبول کی گئی ہیں تو یہ فرق کیوں ہے؟ یا اُن کا دوسرا سوال کہ ایس آئی آر میں ۶؍ لاکھ مسلم ووٹروں کے نام کہاں گئے؟ ہونا تو چاہئے مگر سوالوں کا ڈھیر بڑھتا جارہا ہے اور جواب ندارد ہے۔