Inquilab Logo

الیکشن، خرچ اور جمہوریت

Updated: December 12, 2022, 9:33 AM IST | Mumbai

یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ملک کے اولین لوک سبھا الیکشن (۱۹۵۲ء) پر الیکشن کمیشن کے ذریعہ سرکاری خزانے سے فی شہری ۶؍ پیسے خرچ ہوئے تھے۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا

 election photo;INN
الیکشن کی تصویر :آئی این این

یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ملک کے اولین لوک سبھا الیکشن (۱۹۵۲ء) پر الیکشن کمیشن کے ذریعہ سرکاری خزانے سے فی شہری ۶؍ پیسے خرچ ہوئے تھے۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جیسے جیسے ایک طرف جمہوریت کا کارواں آگے بڑھے گا اور دوسری طرف آبادی میں اضافہ ہوگا، ویسے ویسے انتخابی اخراجات زمین سے آسمان پر پہنچ جائینگے۔ اس کی ایک اور وجہ مہنگائی کا غیر معمولی اضافہ ہے۔ مگر غور طلب ہے کہ ۱۹۵۲ء کے ۶؍ پیسے ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں ۴۶؍ روپے ہوگئے۔ یہ اضافہ اس قدر ہے کہ جو شخص حساب کتاب میں کمزور ہو وہ فیصد شمار کرنے سے عاجز ہوگا۔ اگر وہ ریاضی ہی کا نہیں دل کا بھی کمزور ہو تو فیصد نکالنے کے چکر میں اپنا‌فشار خون بھی بڑھا لے‌گا۔ یہ وہی خرچ ہے جو الیکشن کمیشن کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس میں پارٹی اور اُمیدوار وں کے ذریعہ ہونے والا خرچ شامل نہیں ہے جس کا تخمینہ ملنا مشکل ہے، صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہرچند کہ یہ بھی مشکل ہے۔ آج کل کارپوریشن کے ایک وارڈ کے الیکشن کے لئے ہر اُمیدوار کی جیب سے جو کم یا زیادہ خرچ ہوتا ہے اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن ویسے بھی خرچیلا تھا، اب بہت بڑے خرچ کا تقاضا کرتا ہے۔
  ۲۰۱۴ء کے ۴۶؍ روپے فی شہری سے مجموعی رقم کا اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہو تو عرض ہے کہ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن پر مجموعی رقم جو خرچ ہوئی وہ ۳؍ ہزار ۸؍ سو ۷۰؍ کروڑ روپے تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک میں صرف لوک سبھا کے الیکشن نہیں ہوتے، ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن بھی ہوتے ہیں، میونسپلٹیوں اور کارپوریشنوں کے بھی ہوتے ہیں اور پنچایتوں کے بھی۔ اس تحقیق کیلئے کافی محنت کرنی پڑے گی کہ تمام تر انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو سالانہ کتنا خرچ برداشت کرنا ہوتا ہے۔
 خیر، اس تمہید کے ذریعہ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جب اتنی رقم خرچ کی جاتی ہے تو کس قدر ضروری ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا الیکشن حقیقی معنوں میں جمہوریت کا آئینہ دار ہو، صاف وشفاف ہو اور رائے دہندگان کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کرے۔ افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہی اُمیدوار فاتح قرار پاتا ہے جوتشہیری مہم پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرسکتا ہو ۔ مودی اور امیت شاہ کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات کے رتھ میں بے دریغ خرچ کے پہیے لگادیئے ہیں چنانچہ دیگر پارٹیاں اُتنا تو کیا اُس کا نصف بھی خرچ کرنے سے قاصر ہیں جتنا بی جے پی خرچ کرتی ہے۔ کانگریس نے گجرات میں دم خم نہیں دکھایا کیونکہ اس کے پاس مالی دم خم رہ ہی نہیں گیا ہے۔ الیکٹورل بانڈ کا ۹۵؍ فیصد کے قریب بی جے پی کو ملتا ہے جس کی وجہ سے دیگر پارٹیوں میں مقابلہ کی صلاحیت کم سے کم تر ہوگئی ہے۔ 
 جب صورت حال یہ ہو کہ ہر طرف روپے کی طاقت کا جلوہ ہو تو جمہوریت کی طاقت دھیرے دھیرے رخصت ہوجائیگی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو پارٹی خرچ نہیں کرپاتی، انتخابی حلقوں میں اُس کا ’’زور‘‘ دکھائی نہیں دیتا اور اچھے بھلے لوگ بھی شکایت کرنے لگتے ہیں کہ فلاں پارٹی نے مقابلہ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ رائے دہندگان کو بیدار کیا جائے کہ اچھے اور قابل اُمیدواروں کو بینروں، پوسٹروں اور ریلیوں کے بجائے اپنے حلقوں میں تلاش کریں کہ کن کن لوگوں نے پرچۂ نامزدگی داخل کیا ہے۔ اس سے پیسوں کا زور ٹوٹے گا، اور، پیسوں کا زور ٹوٹے یہ جمہوریت کی صحت کو برقرار رکھنے کا اولین تقاضا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK