Inquilab Logo

دینی تعلیمات کو عام کرکے شادی بیاہ سے غیراخلاقی رسموں کو ختم کریں

Updated: March 26, 2021, 11:01 AM IST | Mohammed Arif Raza Noamani Misbahi

اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ہر شخص اولاد کی خواہش رکھتا ہے۔ جب اولاد اس دنیا میں آتی ہے تو والدین طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔

Marriage - Pic : INN
شادی ۔ تصویر : آئی این این

اس کی تعلیم و تربیت کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔جب اولاد بڑی ہو جاتی ہے تو والدین جہاں ان کے دیگر امور کے لئے فکر مند ہوتے ہیں وہیں اس کی شادی کی بھی فکر کرنے لگتے ہیں۔اچھا رشتہ تلاش کرکے بچے بچیوں کو نکاح کے مقدس رشتے سے جوڑ دیتے ہیں۔
 جب شادی کی بات آتی ہے تو لوگ طرح طرح کے رسم و روا ج کو یاد کرنے لگتے ہیں، چاہے وہ رسم غیر شرعی ہی کیوں نہ ہو۔میں یہاں خاص طور پر ایک رسم(بارات) پر گفتگو کروں گا۔جب دولہانکاح کے لئے لڑکی کے گھر آتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے کچھ قریبی دوست اور عزیز رشتے دار بھی ہوتے ہیں۔ نوشہ کے ہمراہی کو باراتی کہتے ہیں۔ باراتیوں کی ضیافت لڑکی والے کرتے ہیں۔ کبھی تو وہ بخوشی ضیافت کرتے ہیں تو کبھی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے اور اس کا گھر بس جانے کی خاطر مجبوراً کرتے ہیں۔ جب کہ شریعت میں ولیمہ لڑکے پر ہے،لڑکی والوں پر نہیں ۔ یہ تو ان کی کشادہ ظرفی ہے کہ رشتے ناطے اور دوست احباب کی دعوت کر کے سب کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں، حالانکہ ان کے یہاں بیٹی کی رخصتی کا غم ہوتا ہے ۔
 مدینہ طیبہ میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاتون سے نکاح کیا، پھر سرکار دوعالم ﷺ کی بارگاہ میں تشریف لائے۔آپ کے لباس پر پیلے پن (شاید ہلدی یا زعفرانی رنگ)کا اثر تھا تو سرکار دوعالمؐ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : یارسول اللہ ﷺ میں نے سونے کے نواۃ (پانچ درہم کے برابر) کے وزن (مہر)پر ایک خاتون سے نکاح کرلیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’بارک اللہ لک‘‘ اللہ تمہیں برکت سے نوازے اورفرمایاولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے۔
 اس حدیث پاک میں لڑکے کی طرف سے ولیمہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایاکہ ولیمہ کرو۔ایک بات یہ بھی پتا چلی کہ جب نکاح کرنے والوں کو مبارک باد پیش کی جائے تو اس لفظ’’بارَکَ اللّٰہُ لَکَ‘‘ سے پیش کی جائے کیوں نبی کریم ﷺ نے اس لفظ کو اپنی زبانِ فیض ترجمان سے ارشاد فرمایا۔
 ایک خاص بات بارات کے حوالے سے یہ پیش کرنی ہے کہ جب نکاح کے لئے دن تاریخ طے کی جاتی ہے تو یہ بات بھی کر لی جاتی ہے کہ باراتیوں کی تعداد کتنی ہوگی۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خاطرخواہ تواضع کی جاسکے اور عین وقت پرکسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ایسے حالات میں تو ہونا یہ چاہئے کہ لڑکی والوں سے ہی پوچھا جائے کہ کتنے لوگ ہم لے کر آئیں؟ لیکن ہوتا یہ ہے کہ تعداد بتانے کے ساتھ کچھ جگہوں پر یہ بھی جَتا دیا جاتا ہے کہ ہمارے اتنے ساتھی غیرمسلم بھی ہیں اس لئے ان کے لئے الگ سے انتظام کرنا ہوگا۔اس طرح یہ سارا بوجھ لڑکی والوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ شرعاًکہاں تک درست ہے؟ 
 بنارس کا ایک واقعہ ہے تقریباً ڈیڑھ سو باراتیوں کی بات طے پائی اور بارات رات میں آنے والی تھی،جب آئی تو باراتی دو گنا یعنی تین سو آگئے،اب جو رات میں فوری طور پر انتظامات کرنے میں پریشانی ہوئی وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس کا احساس اسی کو ہوگا جسے اس طرح کے مشکل حالات کاسامنا کرنا پڑا ہو۔ لڑکی والے اپنی عزت اور بیٹی کی خاطر سب جھیل جاتے ہیں۔اس لئے لوگوں کو ایسا کرنے سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ایسا کرنا دھوکا اور ایک مسلمان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا ہے۔
 بعض ایسی گھٹیا حرکت پر اُتر آتے ہیں کہ باراتیوں کے کھانے میں طرح طرح کے پکوان کی فرمائش بھی کرتے ہیں۔مہمان کو میزبان پر اپنی پسند کا بوجھ ڈالناہرگز جائز نہیں،بلکہ جو ملے کھا لینا چاہئے۔ نبی کریم ﷺ نے کبھی کھانے کو عیب نہیں لگایا۔اگر خواہش ہوتی تو کھالیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ حدیث پاک ملاحظہ ہو:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کھانے کو کبھی بھی عیب نہیں لگایا، اگر خواہش ہوتی (یعنی پسندآتا)تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ (صحیح بخاری) 
 نبی کریم ﷺ نے اس حدیث پاک سے ہمیں بہت بڑا درس دیا ہے۔اگر اس پر عمل کر لیں تو گھریلو جھگڑوں کا بھی خاتمہ ہی ہو جائے کیوں کہ زیادہ تر میاں بیوی میں ناراضگی نمک کم ہونے، دال،سالن پتلا ہونے سے ہی ہوتی ہے، ہمیں ایسے حالات میں اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہئے اور سرکار دوعالم ﷺ کی اس حدیث کو یاد رکھنا چاہئے۔اس سے گھر میں خوشیاں آئیں گی۔
 شادیوں کے کھانے میں ایک بات یہ بھی پیش آتی ہے کہ لڑکی والے باراتیوں کاتواچھا سے اچھا انتظام کرتے ہیں چاہے فرمائش ہو یا نہ ہو۔اور رشتے داروں، گھراتیوں اور محلے کے ان لوگوں کو(جو شادی کے دو دن پہلے سے دو دن بعد تک کام کرتے ہیں اور شادی کے سارے انتظامات سنبھالتے ہیں) تو ان کے لئے کسی اہتمام کے بجائے وہی عام کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم باراتیوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یقیناً وہ اہمیت کے حق دار ہیں کیوں کہ وہ مہمان ہیں۔ لیکن آپ عام لوگوں کو بھی وہی کھلائیں جو باراتیوں کو کھلاتے ہیں۔سب کو اچھا اور ایک جیسا کھلائیں۔ باراتیوں کا الگ سے انتظام کرنے میں دوسروں سے کہیں نہ کہیں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جو نامناسب بات ہے۔ویسے بھی اکثر ولیمے میں امراء کو تو بلایا جاتا ہے لیکن غرباء کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو ایک مذموم عمل ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے:
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ’’سب سے برا کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس میں مال داروں کو بلایا جائے اورغریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔اور جو دعوت کو ترک کرے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
 شادیوں میں دعوت کی بابت ایک بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ دعوت دینے میں ہمیں پاس پڑوس کے غریب لوگوں کا بھی ضرور خیال رکھنا چاہئے۔ کیوں کہ محلے میں بہت سارے گھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے یہاں کئی کئی ہفتوں بعد گوشت بنتا ہے تو چند بوٹیاں مل پاتی ہیں۔اس لئے ایسے لوگوں کاضرور خیال کرنا چاہئے۔کیونکہ ان کو کھلانے کے بعد جو خوشیاں انھیں حاصل ہوتی ہیں وہ ہماری زندگی بھر کی خوشیوں کی ضامن ہوتی ہے۔ان کی دعائیں جلدی قبول ہوتی ہیں۔ ان کو کھلانے کا ثواب بھی زیادہ ہے۔
 مذکورہ حدیث پاک سے ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ وہ کھانا برا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔اس میں یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی دعوت دے تو اس کو قبول کیا جائے کیوں کہ دعوت قبول کرنا ایک مسلمان کا حق ہے۔ہاں اگر کسی وجہ سے وہ نہیں آسکتا ہے تو پہلے ہی معذرت کر لے، دعوت کا انکار نہ کرے،اسے ٹھکرائے نہیں۔کیوں کہ دعوت کا انکار کرنا یا قبول نہ کرنا اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا سبب ہے۔اس لئے ہمیں اس حدیث پاک کو یاد رکھنا چاہئے اور اس پر عمل کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی چاہئے کیوں کہ بہت سے لوگ اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بنا پر غلطی کر جاتے ہیں۔ اللہ عزوجل ہمیںعمل خیرکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK