امارت شرعیہ کی دعوت پر علمائے کرام، دانشورانِ قوم کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈران نے بھی حصہ لیا اور وقف ترمیمی قانون کے خلاف آواز بلند کی۔
EPAPER
Updated: July 03, 2025, 7:12 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
امارت شرعیہ کی دعوت پر علمائے کرام، دانشورانِ قوم کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈران نے بھی حصہ لیا اور وقف ترمیمی قانون کے خلاف آواز بلند کی۔
یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ حالیہ ایک دہائی میں ملک کی جمہوری فضا قدرے مکدّر ہوئی ہے اور آئین کی شبیہ کو مسخ کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ایسے حالات میں وطنِ عزیز کے ایسے افراد جو ملک کی سا لمیت چاہتے ہیں اور اپنے جمہوری حقوق کے ساتھ ساتھ آئین کی پاسداری کے خواہاں ہیں ان کیلئے ملک کی فضا میں گھٹن محسوس ہو رہی ہے۔ حال ہی میں جب وقف ترمیمی ایکٹ آیا اوراسے قانونی شکل دی گئی توپورے ملک میں مسلم اقلیت طبقے کی طرف سے اس کی مخالفت شروع ہوئی اور یہ خوش آئند بات ہے کہ ملک کی اکثریت کا ایک بڑا حصہ جو ملک کے آئین اور سا لمیت کا پاسدار ہے وہ بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور اس ایکٹ کی آغاز سے ہی مخالفت شروع ہوئی۔ قومی سطح پر مختلف بڑے شہروں میں جلسے جلوس شروع ہوئے اور عدالتِ عظمیٰ تک یہ معاملہ پہنچا ہے جو زیر سماعت ہے۔ لیکن ایک جمہوری ملک میں جو طریقہ اپنایا جا سکتا ہے اس کی کوشش جاری ہے۔ اسی کڑی میں امارت شرعیہ، بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈاور بنگال کے امیر شریعت حضرت مولانا فیصل ولی رحمانی کی طرف سے ریاست بہار کی راجدھانی پٹنہ میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف ’’وقف بچائو دستور بچائو‘‘ کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ۲۹؍ جون ۲۰۲۵ء کو منعقد مذکورہ کانفرنس ایک تاریخ کانفرنس ثابت ہوئی کہ نہ صرف گاندھی میدان میں انسانی سیلاب امنڈ پڑا بلکہ میدان سے باہر پٹنہ شہر کے گلی کوچے بھی بھر گئے اور پٹنہ آنے والی تمام سڑکوں پر کانفرنس میں شامل ہونے والے افراد کا ہجوم نظر آیا۔ اس کانفرنس کی بہ ایں معنی غیر معمولی اہمیت ہے کہ اس میں صرف مسلم اقلیت ہی شامل نہیں ہوئے بلکہ اکثریت طبقے کے برادرِ وطن کی اچھی خاصی تعداد بھی کانفرنس میں شامل ہوئی۔ اگرچہ اس کانفرنس کے اعلان کے وقت صرف مسلم اقلیتوں کے شامل ہونے کی اپیل کی گئی تھی لیکن کانفرنس کے دن اس میں انڈیا اتحاد کے لیڈران بھی شامل ہوئے اور اس تاریخی کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ کانگریس کی طرف سے سینئر لیڈر سلمان خورشید، دگ وجئے سنگھ، کنہیا کمار، ڈاکٹر شکیل احمد خاں ، راجیش رنجن عرف پپو یادو جو ایک آزاد ممبر پارلیامنٹ ہیں لیکن وہ ان دنوں کانگریس کے قریب ہیں وہ بھی اس میں شامل ہوئے اور دیگر کئی سیاسی جماعتوں کے ریاستی لیڈران شامل ہوئے تو راشٹریہ جنتا دل کی طرف سے اپوزیشن لیڈر بہار قانون ساز اسمبلی تیجسوی یادو، عبدالباری صدیقی، ڈاکٹر تنویر حسن، اخترالایمان شاہین، بھاکپا مالے کی طرف سے دیپانکر بھٹا چاریہ اور ان کی پارٹی کے دیگر لیڈران کے ساتھ بہار آئی ایم آئی کے صدر اختر الایمان نے بھی اس کانفرنس سے خطاب کیا۔ غرض کہ امارت شرعیہ کی دعوت پر ملک کے مختلف حصوں سے آئے علمائے کرام، دانشورانِ قوم کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں سیاسی لیڈران نے بھی حصہ لیا اور وقف ترمیمی قانون کے خلاف آواز بلند کی۔ امیر شریعت مولانا فیصل رحمانی نے اپنے تاریخی خطاب میں کہا کہ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے اور ہمارے آئین میں تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگوں کو اپنے مذہبی اصول وضابطے کے مطابق زندگی جینے کا آئینی حقوق حاصل ہے اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنی شریعت پر قائم رہتے ہوئے ہندوستانی آئین کے مطابق آزادانہ زندگی جینے کا حق حاصل ہے لیکن وقف ترمیمی قانون ہمارے جمہوری تقاضوں کی دھجیاں اڑا رہاہے اور ہمارے آئین کی روح کو مجروح کرنے والا ہے اس لئے ہم ایسے تمام افراد جو اپنے وطن عزیز کی سالمیت چاہتے ہیں اور جمہوریت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، آئین کے مطابق ملک کی شناخت قائم رکھنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ مل کر ہم جدوجہد جاری رکھیں اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتے رہیں گے کہ وہ ہمارے آئین میں مسلم اقلیت کے لئے جو حقوق دئیے گئے ہیں اس کی وہ حفاظت کریں۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی تو خود اس کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنا تحریری بیان بھیجا جسے وہاں پڑھ کر سنایا گیا۔ انہوں نے بھی اس وقف قانون کو غیر آئینی قرار دیا اور ملک کے عوام سے گزارش کی کہ یہ آئین ہی ہے جو ملک کو اتحاد کی ڈور میں باندھے رکھتا ہے اس لئے تمام جمہوریت پسند شہری ہماری مہم میں شامل ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ کانفرنس تاریخی ثابت ہوئی۔
بہر کیف! اس وقت بہار میں ایک اضطرابی کیفیت ہے۔ ایک طرف وقت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اور دریں اثناء الیکشن کمیشن کی طرف سے ووٹر لسٹ نظر ثانی کا حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے اور محض تین ماہ کی مدت میں ریاست کے آٹھ کروڑ سے زائد ووٹروں کی جانچ کر حتمی ووٹر لسٹ جاری کرنے کا فیصلہ لیا گیاہے۔ یہاں اس حقیقت کی وضاحت ضروری ہے کہ ماضی میں بھی انتخابی کمیشن کے ذریعہ ووٹر لسٹ نظر ثانی کی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ بہار میں ۲۰۰۳ء بھی ووٹر نظر ثانی کا عمل پورا کیا گیا لیکن اس بار اس نظر ثانی مہم کے وقت کو لے کر تشویش ہے اور اسی وجہ سے اپوزیشن لیڈران کی طرف سے اس کی مخالفت بھی شروع ہوئی۔ کیوں کہ سالِ رواں ماہ نومبر میں بہار اسمبلی کا انتخاب ہونا ہے ایسی صورت میں آٹھ کروڑ سے زائد ووٹروں کی نظر ثانی کا عمل پورا ہونا مشکل نظر آتا ہے اور بہار ایک ایسی ریاست ہے جہاں سے تین کروڑ سے زائد ووٹر ملک کے دوسرے شہروں میں روزی روٹی تلاش میں ہجرت کر گئے ہیں۔ اب اگر محض تین ماہ کی مدت میں ووٹر لسٹ کی نظر ثانی ہونی ہے تو پھر وہ تمام مزدور طبقے کے لوگ جو ریاست سے باہر ہیں ان کی واپسی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ شمالی بہار میں جون، جولائی اور اگست کا مہینہ برسات اور سیلاب کا رہتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ عمل اور بھی مشکل ہے۔ جہاں تک مسلم اقلیت طبقے کے درمیان ووٹر نظر ثانی کو لے کر اضطرابی کیفیت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید حکومت انتخابی کمیشن کے ذریعہ خاموشی سے این آر سی کے عمل کو پورا کرنا چاہتی ہے اور ایک مخصوص طبقے کو جمہوری حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ میرے خیال میں حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور تمام شہریوں کے ذہن ودل میں جو شک وشبہات پیدا ہوئے ہیں اسے دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے کیوں کہ ایک جمہوری ملک میں کسی شہری کے ذہن ودل میں انتخابی کمیشن کے تئیں غیر یقینی پیدا ہونا جمہوریت کے لئے بہت مضر ہے۔ اس لئے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس مسئلہ پر صرف اقلیت طبقے کو نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کو سنجیدگی سے غوروفکر کرنا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے شہری ہیں۔