Inquilab Logo Happiest Places to Work

لالو کی شطرنجی چال اور منگنی لال!

Updated: June 19, 2025, 6:34 PM IST | Doctor Mushtaque Ahmed | Mumbai

منگنی لال منڈل بہار قانون ساز اسمبلی، بہار قانون ساز کونسل ، ممبر لوک سبھا اور ممبر راجیہ سبھا کے طورپر چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔وہ بہار میں لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی کی کابینہ میں وزیر بھی رہے اور ایک ایماندار لیڈر کے طورپر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔اگرچہ ان کی عمر ۷۶؍ سال کی ہے لیکن وہ اب بھی بہار کی سیاست میں کافی سرگرم ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

 بہار کی گزشتہ چار دہائیوں کی سیاست کا سرسری جائزہ لیجئے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ لالو پرساد یادو کسی نہ کسی طورپر بہار کی سیاست کے محورومرکز بنے رہے ہیں۔ اگرچہ دو دہائیوں سے ان کا ستارہ گردش میں ہے، وہ طرح طرح کے مبینہ گھوٹالوں کے الزامات میں کبھی جیل میں رہے تو کبھی عدالت میں حاضری دیتے نظر آئے۔ لیکن بہار میں ان کی سیاسی غیر معمولی اہمیت بر قرار ہے اور آج بھی وہ اپنی صحت کی خرابی کے باوجود اپنے سیاسی مخالفین کی ہر چال کو ناکام کر رہے ہیں۔ ان کا حالیہ فیصلہ نہ صرف ان کے مخالفین کے لئے حیرت کن ہے بلکہ خود ان کی راشٹریہ جنتا دل کے کارکنوں کے لئے بھی چونکانے والا ثابت ہوا ہے۔ واضح رہےکہ گزشتہ روز انہوں نے اپنی پارٹی کے ریاستی صدر کے لئے ایک ایسے سماجوادی فکر ونظر کے علمبردار صاف ستھری سیاسی شبیہ کے چہرے اور انتہائی پسماندہ طبقے کے ایک مقبول لیڈر منگنی لال منڈل کو منتخب کرکے تمام سیاسی مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا کیوں کہ کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ لالو یادو انتہائی پسماندہ طبقے کے لیڈر منگنی لال منڈل کو اپنی پارٹی کا صدر بنائیں گے۔ منگنی لال منڈل بہار قانون ساز اسمبلی، بہار قانون ساز کونسل، ممبر لوک سبھا اور ممبر راجیہ سبھا کے طورپر چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ بہار میں لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی کی کابینہ میں وزیر بھی رہے اور ایک ایماندار لیڈر کے طورپر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی عمر ۷۶؍ سال کی ہے لیکن وہ اب بھی بہار کی سیاست میں کافی سرگرم ہیں اور بالخصوص انتہائی پسماندہ طبقے میں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ دھانُک ذات جسے عام طورپر منڈل کہا جاتاہے اس سے تعلق رکھتے ہیں اور حالیہ بہار ذات شماری میں اس انتہائی پسماندہ طبقے کی آبادی تقریباً تین فیصد ہے لیکن بہار میں مختلف کئی انتہائی پسماندہ طبقے کی صف بندی سے تقریباً ۳۰؍ فیصد تک ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتہائی پسماندہ طبقے کے ووٹوں کی وجہ سے بہار کی سیاسی تصویر بدلتی رہتی ہے۔ نتیش کما ر بہار میں دو دہائیوں سے اگر اقتدار میں ہیں تو اس میں بڑا کردار انتہائی پسماندہ طبقے کے ووٹوں کا ہی ہے۔ اس لئے اب جب کہ لالو پرساد یادو نے اپنی شطرنجی چال چل کر منگنی لال منڈل کو راشٹریہ جنتا دل کا صدر بنا دیا تو ان تمام سیاسی لیڈروں کو فکر مندی لاحق ہو گئی جو انتہائی پسماندہ طبقے کی سیاست کرتے ہیں ۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دنوں پہلے عظیم اتحاد میں شامل کانگریس نے بہار ریاستی کانگریس صدر کے عہدہ پر ایک دلت چہرہ راجیش کمار کو بٹھایا ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ کانگریس بہار میں دلت سماج کو سیاسی حصہ داری دینا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ عظیم اتحاد میں شامل مکیش سہنی کی پارٹی وی آئی پی کے ریاستی صدر بھی انتہائی پسماندہ طبقے کے ہیں اور سی پی آئی و سی پی ایم کے ریاستی صدر اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ غرض کہ بہار میں عظیم اتحاد نے آئندہ اسمبلی انتخاب کے مدنظر اپنی بساط کچھ اس طرح بچھائی ہے کہ انتہائی پسماندہ طبقہ، دلت طبقہ اور اعلیٰ طبقے کے چہرے کو ریاستی صدر بنا کر اپنے اتحاد کو نہ صرف مزید مستحکم کیا ہے بلکہ ووٹ کی سیاست کو بھی نئی سمت دی ہے۔ ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بہار میں ذات پات کی سیاست کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور بالخصوص جب سے ذات شماری رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کے بعد سے ریاست کی مختلف چھوٹی بڑی ذاتوں کی سیاسی دعویداری پروان چڑھنے لگی ہے اور گزشتہ دو ماہ سے مختلف ذاتوں کی ریاستی سطح پر کانفرنس ہو رہی ہے اور سیاسی حصہ داری کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔ ایسے وقت میں راشٹریہ جنتا دل نے انتہائی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے منگنی لال جیسے قد آور لیڈر کو صدر بنا کر بہار میں ایک نئی سیاسی صف بندی کی پہل کی ہے اور اس کا مثبت نتیجہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں عظیم اتحاد کو ضرور مل سکتا ہے۔ ویسے قومی جمہوری اتحاد بھی نتیش کمار کی قیادت میں آئندہ اسمبلی انتخاب کیلئے کمر باندھے ہوئی ہے اور اس اتحاد کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ نتیش کمار کی قیادت میں اقتدار میں بنے رہیں گے۔ دیکھنایہ ہے کہ کئی نئی سیاسی جماعتیں بھی اپنے لئے زمین تیار کر رہی ہیں اوراس سے ان دونوں بڑے اتحادیوں کو کئی طرح کی مشکلوں کا سامنا ہونا طے ہے۔ اس لئے بہار کی سیاسی فضا کے متعلق فی الوقت کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیوں کہ ابھی اسمبلی انتخاب کو تین مہینے باقی ہیں اور جب تک اسمبلی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان نہیں ہوتا اس وقت تک بہار میں سیاسی سرگرمیاں یونہی شباب پر رہیں گی اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے لئے فضا تیار کرتی رہے گی۔ 

یہ بھی پڑھئے: اِسرائیل کا شر اور دُنیا کا ڈر

مختصر یہ کہ راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو پرساد یادو نے انتہائی پسماندہ طبقے کے ایک بڑے چہرے منگنی لال منڈل کو ریاستی صدر کے عہدے پر بٹھا کر بہار کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ انتہائی پسماندہ طبقے کو سیاسی حصہ داری دینے کو تیار ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طرف کانگریس نے ریاستی کانگریس کی کمان دلت طبقے کے ہاتھوں میں دی ہے اور راشٹریہ جنتا دل نے انتہائی پسماندہ طبقے کو قیادت سونپی ہے اس سے بہار کی سیاست کی تصویر بدل سکتی ہے۔ کیوں کہ بہار میں تقریباً ۱۸؍فیصد یادو اور ۱۵؍فیصد مسلم ووٹوں کے ساتھ اگر ۳۰؍ فیصد انتہائی پسماندہ طبقے اور دلت طبقے کے ووٹروں کے رجحان میں تبدیلی ہوتی ہے تو پھر بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج بہت چونکانے والے ہوں گے۔ لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ قومی جمہوری اتحاد کی قیادت بہار میں نتیش کمار کے ہاتھوں میں ہے اور نتیش کمار کے تئیں ہر طبقے میں نرم گوشہ ضرور ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں ترقیاتی رفتار تیز ہوئی ہے مگر حالیہ دنوں میں ان کی صحت کو لے کر طرح طرح کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں اور جنتا دل متحدہ کے کارکنوں کو یہ خدشہ ہے کہ ۲۰۲۰ء اسمبلی انتخاب کی طرح قومی جمہوری اتحاد میں شامل رہتے ہوئے چراغ پاسوان نے جس طرح پارٹی کو نقصان پہنچایا تھا وہ اس بار بھی تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کر رہے ہیں اگر ایسا ہوا تو شاید اسمبلی انتخاب کی تاریخ کے اعلان ہونے اور اتحادیوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم تک سیاسی منظر نامہ بھی بدلنے کے امکانات روشن ہیں ۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK