Inquilab Logo

واقعہ ٔکربلا کا ہر پہلو نوع ِانسانی کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے

Updated: July 29, 2023, 10:56 AM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

محرم کے ابتدائی ۱۰؍دن اگرچہ نواسہ ٔ رسولؐاور ان کے اہل و عیال کے مصائب و آلام پرغم منانے سے معنون ہیں تاہم اظہار غم ہی واقعہ ٔ کربلا کی افادیت کو ظاہر نہیں کرتا۔ اس واقعے کا سب سے بڑا فیضان یہ ہے کہ انکار بیعت سے شہادت امام حسینؑ تک تقریباً ۶؍ ماہ کی مدت کے واقعات تمام انسانوںکیلئے اس مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں جو زندگی کی پیچیدہ راہوں کو نور ِہدایت سے معمور رکھتی ہے

The Muharram procession in Allahabad was taken out with splendor. This picture is from Thursday, 8th of Muharram.
الہ آباد میں محرم کا جلوس شان وشوکت سے نکالا گیا۔ یہ تصویر جمعرات، ۸؍ محرم الحرام کی ہے۔

اسلامی کلینڈر کے مطابق نئے سال کے پہلے عشرے میں وہ اندوہناک واقعہ رونما ہوا جس کی یادگار کے طور پر غم منانے کی روایت صدیوں پرانی اور ان جغرافیائی حدود سے ماورا ہے جن حدود میں سمٹ جانے کے بعد انسانی معاشرہ زندگی کے اکثر معاملات میں فکری تنوع اور وسعت قلبی سے محروم ہو جاتا ہے۔ معاشرہ کو اس محرومی سے محفوظ رکھنے میں محرم کے ایام اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے امت مسلمہ کو یہ شرف و فضیلت حاصل ہے کہ اس کیلئے نئے سال کی آمد تدبر و تفکر کا وہ پیغام لے کر آتی ہے کہ اگر اس پر سنجیدہ توجہ دی جائے تو اپنی ذات کو بعض اُن عیوب سے پاک بنایا جا سکتا ہے جو عیوب انسانی اوصاف کو آلودہ کرتے ہیں۔
  واقعہ ٔ کربلا کا ہر پہلوانسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اور سماج میں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے کردار کا محاسبہ کرے۔ محرم کے ابتدائی ۱۰؍دن خصوصاً روز عاشورہ اگرچہ نواسہ ٔ رسولؐاور ان کے اہل و عیال کے مصائب و آلام پرغم منانے سے معنون ہیں تاہم صرف اظہار غم ہی واقعہ ٔ کربلا کی افادیت کو ظاہر نہیں کرتا۔ اس واقعے کا سب سے بڑا فیضان یہ ہے کہ انکار بیعت سے شہادت امام حسینؑ تک تقریباً۶؍ماہ کی مدت میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف واقعات تمام انسانوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں جو زندگی کی پیچیدہ راہوں کو نور ہدایت سے معمور رکھتی ہے۔ 
 انسانی تمدن کے ارتقائی سفر میںمادی وسائل کے ساتھ ساتھ ان انسانی جذبوں کی کارفرمائی بھی رہی ہے جن جذبوں نے مادی وسائل اور کائنات کے دیگر لوازم اور مظاہر کی صورت میں جاری چشمہ ٔ فیضان سے استفادہ کرنے کا شعور و سلیقہ حضرت انسان کو عطا کیا۔ ان جذبوں میں جذبۂ غم کو بھی اہم حیثیت حاصل ہے۔ غم محض اشک افشانی اور گریہ و سینہ کوبی کا نام نہیں ہے بلکہ فلاسفہ اور مفکرین عالم نے اس عمل کی جو فلسفیانہ توضیح پیش کی ہے اس کی رو سے غم تزکیہ ذات کا بہترین اور موثر وسیلہ ہے۔ اگر صرف اس زاویہ ہی سے واقعہ ٔ کربلا پر نظر ڈالیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام حسین ؑ نے ۱۰؍ محرم کو دشت ِ نینوا  میں حق و صداقت کی بقا کی خاطر جو قربانی پیش کی اس کی یاد میں غم منانا دراصل تزکیہ ذات کا بہترین ذریعہ ہے۔تاریخ آدم و عالم کی اس عظیم ترین قربانی کو خراج پیش کرنے  کیلئےاظہار غم کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ اظہار غم کے ان مروجہ طریقوں پر ارضی ثقافتی اثرات کے سبب پیدا ہونے والے تنوع کے باوصف یکسانیت اور ہم آہنگی کا وہ عنصر بھی شامل ہے جو تمام عزاداران حسینؑ کو ایک مرکز پر متحد کر دیتا ہے۔آج جب انسانی معاشرہ کئی سطحوں پر انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہے ایسے میں عزائے حسینؑ کا یہ فیض کیا کم ہے کہ اس کے حوالے سے نوع انسان اپنے ذاتی تشخص کے حصار سے آزاد ہو کر ایک صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
 امام حسینؑ نے انکار بیعت سے ایک واضح پیغام یہ دیا کہ حق و صداقت کی راہ پر آگے بڑھنے میں خواہ لاکھ مشکلیں   ہوں انسان کو اس سے مایوس یا  رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ امام حسینؑ کا یہ عمل نہ صرف اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات کی بقا کا ضامن بنا بلکہ اس انکار نے حرمت صداقت کا تحفظ جس انداز میں کیا اس کا نقش آج بھی تاریخ انسانیت پر پورے آب و تاب کے ساتھ روشن ہے۔ یزید کے  مطالبہ کو قبول کرنے سے بہ یک وقت ان مذہبی تعلیمات اور انسانی اقدار کا شیرازہ بکھر جاتا جن کو ایک معیاری شکل عطا کرنے کیلئے  رسولؐ اور ان کے جانشینوں نے جاں سوز ریاضت کی تھی۔
 امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے جھوٹ کو سچ پر غالب آنے کا موقع نہیں دیا ۔ اس انکار کے بعد امام اور ان کا خانوادہ جن مصائب و آلام سے دوچار ہوا اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی لیکن اس سے اس حقیقت کو بھی دوام حاصل ہو گیا کہ اگر اعلیٰ اقدار حیات کا تحفظ مقصود زندگی ہو تو شقاوت اور جارحیت کے خونیں پنجے بھی انسان کو اس مقصد سے دور نہیں کرسکتے۔بلاشبہ یہ امام حسینؑ اور ان کے اصحاب و انصار کے عزم ہی کا کمال تھا کہ لاکھوں کے لشکر کے سامنے محض بہتّر نفوس نے ایسا بے مثل جہاد کیا کہ دنیا  اس کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔کتاب کربلا کا ہر باب انسانی افکار کی تربیت و تنظیم اور اس کے افعال کی اصلاح  کے  واقعات سے معمور ہے ۔ اگر ذہنی و فکری تحفظات اور تعصبات کے دائرے سے اوپر اٹھ کر کتاب کربلاکا مطالعہ صرف اس نہج پر کیا جائے کہ امام حسینؑ اور ان کے انصار کی قربانی نے انسانی قدروں  کے تحفظ کو کس طور سے یقینی بنایا تواس کتاب کا ہر ورق سبق آمیز واقعات سے روشن و منور نظر آئے گا۔
  امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے اپنے نانا ؐاور بابا ؓ کی محنتوں کو رائیگاں ہونے سے بچایا اور سچ و جھوٹ کے درمیان وہ حد فاصل قائم کر دی جو تاابد اقدار حیات کے تحفظ کی ضامن بن گئی ۔حاکم وقت کے مطالبے کو مسترد کرنے کے بعد امام حسینؑ اور ان کے اہل و عیال کو جن سخت مراحل کا سامنا کرنا پڑا اس کی انتہائی شکل میدان کربلا میں ۱۰؍محرم کونظرا ٓتی ہے۔ ۲۸؍رجب ۶۰ھ  تا ۱۰؍محرم ۶۱ھ کا دورانیہ خانوادۂ رسول ؐکیلئے جانکاہ اور صبر آزما امتحانات سے موسوم ہے اور ان امتحانات میں ان ذوات مقدسہ نے اپنے افکار و افعال کا مظاہرہ جس انداز میں کیا وہ تمام نوع انسان  کیلئے درس حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ خصوصاً شب عاشور اور روز عاشور کا ہر لمحہ حسینی گروہ میں شامل مرد و خواتین کے کردار و عمل کی ایسی رفیع المرتبہ تصویر پیش کرتا ہے جس کے تمام رنگ حیات انسانی کو شرف وفضیلت سے مزئین کرنے کی تاثیر رکھتے ہیں۔ 
 زندگی کو کامیاب و کامراں بنانے نیز عاقبت کو سنوارنے کا پیغام حسینی گروہ میں شامل ہر فرد کی شخصیت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور قابل غور یہ ہے کہ اس ضمن میں عمر اور جنس کا کوئی امتیاز نہیں۔ شیرخوار بچوں ،جوانوں اور پختہ عمر شہیدوں کا یہ مختصر سا کارواں جس شان و شکوہ کے ساتھ حق و صداقت کی منزل اولیٰ سے سرفراز ہوا اس سے یہ  پیغام  ملتا ہے کہ صالح اقدار حیات کے تحفظ میں خواہ سر و تن میں جدائی ہی کیوں نہ ہو جائے لیکن عزم و ارادے میں لغزش نہیں پیدا ہونی چاہیے۔ اس تناظر میں نوع انسان خصوصاً امت مسلمہ اگراپنا محاسبہ کرے تو جو حقائق سامنے آئیں گے وہ بہت اطمینان بخش نہیں ہوں گے۔ امام حسینؑ اور ان کے اہل خانہ کے بلند مرتبہ کرداروں کا تتبع اگرچہ  انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مطالبہ کرتا ہے تاہم اس گروہ حقانیت میں شامل ان دیگر نفوس کی ہی راہ پر چلنے کا عزم انسان کو شرف کی منزل کمال تک پہنچا سکتا ہے جن نفوس نے نواسۂ رسولؐ کے اعلان امرحق پر لبیک کہا اور زندگی کی آخری سانس تک اس عہد نصرت پر قائم رہے۔
 واقعۂ کربلا صالح اقدار حیات کا ایسا معتبر حوالہ ہے کہ اگر اس کو خلوص دل کے ساتھ محسوس کر لیا جائے تو زندگی کو کامیاب و کامراں بنایا جا سکتا ہے۔اس واقعے میں سبق آموزی کی اتنی جہتیں ہیں کہ انسان مہد سے لحد تک کے سفر میں ان سے فیض اٹھا سکتا ہے۔لیکن افسوس کہ امام حسینؑ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے والوں نے فہم و شعور کی سطح پر خود کو اب تک بیشتر اس واقعے کے خارجی مظاہر تک ہی محدود رکھا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان واقعات کے درون میں جو پیغام اور درس پوشیدہ ہے اس کو کشید کیا جائے ۔اس عمل سے گزرے بغیر زندگی کو ان کثافتوں سے پاک نہیں کیا جا سکتا جن کی وجہ سے ذلت و خواری انسان کا مقدر ہو جاتی ہے۔درس حیات کے سیاق میں واقعۂ کربلااس قدر تنوع اور وسعت کا حامل ہے کہ ہر شخص اس کی تعبیر اپنے اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے ۔
 امام حسینؑ کی شہادت پر غم منانے کے ساتھ ہی اس شہادت سے وابستہ ان حقائق پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو زندگی کو معیار و اعتبار عطا کرنے میں کلیدی کردار نبھاتے ہیں۔ اس وقت معاشرہ جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس میں واقعہ ٔ کربلا سے یہ فیضان حاصل کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔اس راہ پر ثبات و عزم کے ساتھ قدم بڑھانے  والے ہی  زندگی اور عاقبت کو بہتر بنا سکتے ہیںاور یہی بارگاہ حسینی میں سچا نذرانہ ٔ عقیدت ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK