Inquilab Logo

رو دیئے سب جو تری آنکھ میں آنسو‘ دیکھے

Updated: May 10, 2023, 10:35 AM IST | Mumbai

ملک کا ہر احساس مند شہری، جنتر منتر پر دھرنا دینے والی خاتون کھلاڑیوں کو زار و قطار روتا ہوا دیکھ کر آبدیدہ ہوا ہوگا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ملک کا ہر احساس مند شہری، جنتر منتر پر دھرنا دینے والی خاتون کھلاڑیوں کو زار و قطار روتا ہوا دیکھ کر آبدیدہ ہوا ہوگا۔ حکمراں طبقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج سیاسی ترغیب یافتہ ہے (پولیٹیکلی موٹیویٹیڈ)۔ سیاسی ترغیب کا الزام یا دعویٰ اس لئے بے بنیاد ہے کہ یہ کھلاڑی اپنے فن میں مہارت اور آئندہ مقابلوں کی تیاری کے پیش نظر روزانہ ریاضت کرتی ہیں۔ وہ جس شعبے میں ہیں اُنہیں اسی میں رہنا، آگے بڑھنا، مزید نام کمانا، اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی اور زیادہ سے زیادہ تمغے حاصل کرنا ہے۔ اُن کے پاس نہ تو اتنا وقت ہوگا نہ ہی وہ اتنی نادان ہوسکتی ہیں کہ اپوزیشن کے بہکانے پر اپنا کریئر خراب کریں۔ ہماری نظر میں یہ الزام بے بنیاد اور لغو ہے۔ 
 یہ الزام اس لئے بھی بے بنیاد ہے کہ دھرنا دینے والی کھلاڑی غیر معروف نہیں ہیں۔ یہ مشہور بھی ہیں اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہیں۔ ان کا شمار آمدورفت کی سہولت کے ساتھ کچھ نذرانہ دے کر سیاسی ریلیوں میں بلائے جانے والے لوگوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ اِن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے بھی نہیں ہے۔ اِن کا مقصد آئندہ زندگی میں سیاست سے وابستہ ہونا اور الیکشن لڑنا بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ابھی کریئر کے ابتدائی دَور میں ہیں اور ان کے سامنے غیر معمولی کامیابیوں کا چیلنج ہے۔ ان کی سبکدوشی میں بھی خاصا وقت ہے ا سلئے انہیں آلہ کار نہیں بنایا جاسکتا۔ 
 فرض کرلیجئے کہ ان کا احتجاج سیاسی ترغیب یافتہ ہے تب بھی ان کی شکایات سننا حکومت ِ وقت کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ کسی قانون میں نہیں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص سیاسی آلۂ کار ہو تو اُس کی ہرگز نہ سنی جائے اور جس نے استحصال کیا، جبر کیا، عہدہ کا ناجائز فائدہ اُٹھایا اور کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا اُس کی طرفداری یا اُس کا دفاع کیا جائے۔ پھر سارا زمانہ کہہ رہا ہے کہ اُن کی شکایت یا الزام ایسا نہیں ہے کہ جس پر دھیان نہ دینے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا۔ ان کی شکایت یا الزام نہایت سنگین ہے۔یہ جنسی استحصال کا معاملہ ہے جبکہ حکمراں جماعت کے لیڈران ہمیشہ یہ تاثر دیتے آئے ہیں کہ وہ ’’ناری سُرکشا‘‘ کے معاملہ میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں چاہتے۔ وزیراعظم نے خود بھی ’’ناری سما ّن‘‘ پر بہت کچھ کہا ہے۔ تو کیا یہی ناری سما ّن ہے؟ کیا یہی ’’بیٹی بچاؤ‘‘ کا مفہوم ہے کہ بیٹیاں گھر بار چھوڑ کر کھلے میدان میں دن بھر دھرنا دیں اور رات کو کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہوں، وہ بھی اس طرح کہ پولیس اُن کیخلاف طاقت کا استعمال کرے اور سوشل میڈیا پر شدید مذمت کے باوجود اعلیٰ حکام اور وزرائے ذی شان چپ سادھے رہیں؟
 حکومت کا فرض تھا کہ جس شخص (رُکن پارلیمان اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ) کو فی الفور معطل کرتی اور غیر جانبدارانہ انکوائری کے مکمل ہونے اور رپورٹ آنے تک معطل ہی رکھتی۔ اتنا ہی نہیں، یہ بھی ضروری تھا کہ حکومت کے چند اہم وزراء جو ان کھلاڑیوں کو میڈل جیتنے پر مبارکباد دیتے ہیں، ان کی شکایات سننے کے بعد انہیں تسلی بھی دیتے، اپنا ایک نمائندہ اُن کے پاس بھیجتے اور اُنہیںیقین دلاتے کہ بلاتاخیر انصاف ہوگا۔ مگر ایسی کوئی پہل حکومت کی طرف سے نہیں ہوئی ہے۔ یہ نہایت افسوسناک ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دھرنا شروع ہونے سے پہلے ہی اُن کی سن لی جاتی۔ مگر نہ تو تب سنی گئی جب اُنہوں نے دھرنا شروع کیا نہ ہی تب جب وہ پولیس کی زیادتی پر پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ کیا ہم ملک کا نام روشن کرنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK