Inquilab Logo

اجتماعی اعتکاف کا ثبوت اور اس کے فوائد

Updated: March 29, 2024, 2:35 PM IST | Mufti Nadeem Ahmed | Mumbai

خیال رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ عمل محض رسمی نہ ہو بلکہ دینی فوائد پر مشتمل ہو۔ لوگوں کو مدعو کر کے اجتماع کرنا یا باقاعدہ تشہیر کرانا بھی جائز نہیں ہے۔

Itikaf, whether collective or individual, should be aimed solely at worshiping Allah. Photo: INN
اعتکاف اجتماعی ہو یا انفرادی ، اس کا مقصد صرف اور صرف اللہ سے لَو لگانا ہونا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

اجتماعی اعتکاف یعنی اس طرح اعتکاف کرنا کہ کسی شیخ؍مربی کی تربیت و نگرانی میں نیک اعمال انجام دیئے جائیں اور اس کی صحبت سے فیض یاب ہوا جائے، جائز اور احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ شخص شریعت و سنت کا متبع ہو، تاکہ خیر کے بجائے شر اور سنت کے بجائے بدعت کا عادی نہ بنائے۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ایسے نظارے بھی دیکھے گئے ہیں کہ اعتکاف کرنے والوں نے از خود اس عظیم الشان سنت کو ادا کرنے کی ٹھانی تو نیکی کے مستحق ہونے کے بجائے جہالت یا سادگی کے سبب اعتکاف کی قضا باقی رہ جانے کا گناہ سروں پر لے کر لوٹے، جس کا انہیں علم تھا او نہ احساس۔ اگر وہ کسی صاحبِ علم کی صحبت میں رہ کر اعتکاف کرتے تو امید تھی کہ انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا اور ان کا اعتکاف بھی درست ہوتا۔ یاد رہے منکر پر نکیر کرنا ثواب اور معروف پر نکیر کرنا گناہ ہے اوراصول کے ساتھ کئے گئے اجتماعی اعتکاف کا ثمرہ دیکھتے ہوئے اکثر مشائخ نے اپنے منتسبین کے ساتھ اعتکاف کا معمول رکھا ہے، جس کے فوائد سے کوئی دانا و بینا انکار نہیں کر سکتا۔ 

یہ بھی پڑھئے: آخری عشرہ اعتکاف، شب ِ قدر کی تلاش اور ماہِ رمضان کے الوداع کا پیغام لاتا ہے

احادیث سے ثبوت
 اس میں کلام نہیں کہ اعتکاف کا مقصد برائیوں سے اجتناب، خلوت نشینی اور نفس کی اصلاح ہے، لیکن یہ سب چیزیں صالح بلکہ مصلح کی صحبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بخاری و مسلم میں ہے، حضرت ابوسلمہ کہتے ہیں :میں (ایک روز) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ فلاں درخت کی طرف کیوں نہیں چلتے تاکہ ہم ذکر و تذکرہ کریں، پس وہ نکلے۔ ابوسلمہ کہتے ہیں ؛ میں نے کہا کہ مجھ سے بیان کیجئے کہ حضرت نبی کریمﷺ سے آپ نے شب ِ قدر کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم لوگوں نے بھی آپ کے ہم راہ اعتکاف کیا۔ اس عرصے میں جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ جس کی آپؐ کو تلاش ہے یعنی شب ِ قدر اس عشرے کے آگے ہے، لہٰذا آپؐ نے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرمایا اور ہم نے بھی آپؐ کے ہم راہ اعتکاف کیا۔ پھر جبریل علیہ السلام آپؐ کے پاس آئے اور کہا کہ جس کی آپ کو تلاش ہے وہ اس عشرے کے آگے ہے، پس بیسویں رمضان کی صبح کو آپؐ خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ اعتکاف کرے، کیوں کہ میں نے شبِ قدر کو دیکھ لیا، لیکن میں اسے بھول گیا اور اب صرف اتنا یاد ہے کہ وہ آخری عشرے میں طاق رات ہے، اور میں نے خواب میں یہ دیکھا کہ گویا میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ اس وقت تک مسجد کی چھت چھوہارے کی شاخ سے بنی تھی اور اس وقت ہم آسمان میں کوئی چیز ابر وغیرہ نہ دیکھتے تھے، اتنے میں ایک ٹکڑا بادل کا آیا اور ہم پر پانی برسا تو نبیﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ میں نے گارے کا نشان رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر اور آپ کی ناک پر دیکھا، یہ آپ ﷺ کے خواب کی تصدیق تھی۔ [بخاری]
 اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرامؓکے ساتھ اجتماعی اعتکاف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ رسولِ خدا اس میں اپنے اصحاب کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ہوں گے۔ جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے:‏‏‏رسول اللہ ﷺنے مسجد میں اعتکاف کیا، آپ ﷺ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ اٹھا کر فرمایا: تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار کو پکارتا ہے، لہٰذا کوئی دوسرے کو ایذا نہ دے اور نہ کوئی اپنی آواز قرآن پڑھنے میں دوسرے کے مقابلے میں بلند کرے، یا یہ فرمایا کہ اپنی آواز دوسرے کے مقابلے میں نماز کے اندر بلند نہ کرے۔ [ابوداؤد]
اجتماعی اور انفرادی اعتکاف
 حضور اقدس ﷺ نے صحابہ کرامؓکی ایک جماعت کے ساتھ پورے ماہ کا اعتکاف فرمایا ہے، جس میں ابتداء ً دس یوم کی نیت فرمائی، بعدہ عشرۂ وسطیٰ کی نیت فرمائی، پھر جب مخبرِ غیبی نے بتلایا کہ شبِ قدر اخیر عشرے میں ہے تو عشرۂ اخیرہ کی نیت فرمائی۔ اس لئے آج بھی کوئی شخص پورے ماہ کا اعتکاف کرنا چاہے اور ساتھ میں معتکفین کی ایک جماعت بھی ہو تو(اس طرح کرنا) عین سنتِ نبویؐ ہوگی، نیز حضورِ اقدسﷺ کا اپنے ساتھیوں کو ترغیب دے کر اعتکاف کروانا بھی اس جملے سے معلوم ہوتا ہے: فمن کان اعتکف معی فلیعتکف العشر الاواخر یعنی جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، اس کو چاہئےکہ عشرۂ اخیرہ کا بھی اعتکاف کرے۔ اس طریقے کے سنت ہونے میں شبہ کرنا یا بدعت وغیرہ کے جملے سے یاد کرنا بہت بڑی زیادتی ہے اور ایسی چیز کا انکار ہے جس کا ثبوت بخاری و مسلم کی صحیح حدیث سے ہے۔ 
 فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند بھی اجتماعی اعتکاف پر نکیر نہیں فرماتے تھے، بلکہ تائید فرمائی ہے۔ [دیکھیے ملفوظات فقیہ الامت] خیال رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ عمل محض رسمی نہ ہو، بلکہ دینی فوائد پر مشتمل ہو۔ اجتماعی اعتکاف جب کہ اصول کی پابندی کے ساتھ ہو تو انفرادی اعتکاف سے افضل ہوسکتا ہے، اس لئے کہ انفرادی اعتکاف میں انسان آخر کب تک عبادت کرتا رہے گا، جب کہ اجتماعی اعتکاف میں بعض وقتی معمولات کے ذریعے سیکھنا سکھانا بھی جاری رہتا ہے اور ذکر و اذکار بھی۔ ورنہ تو آدمی کچھ دیر عبادتیں کر کے خاموش بیٹھ جایا کرتا ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:جہاں تک کلام نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے میری عمر کی قسم! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔ [مسند احمد] علمِ دین سیکھنا سکھانا اور تعلیم و تعلّم کا شغل رکھنا جس طرح غیر اعتکاف میں درست ہے، اسی طرح اعتکاف میں بھی درست ہے، البتہ جو تنہائی میں اس سنت پر عمل کرنا چاہے ہمیں ان سے کوئی بحث نہیں۔ 
 خلاصہ یہ کہ اگر بلا تداعی اعتکاف میں اجتماع کی شکل ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر لوگوں کو مدعو کرکے اجتماع کرنا یا باقاعدہ تشہیر کرانا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسی عبادت میں اخفا زیادہ مناسب ہے۔ اپنے یہاں معتکفین کی تعداد بڑھانے کیلئے اعلان اور اشتہار چسپاں کرانا جس سے اعتکاف کا مقصود فوت ہو جائے، شریعت میں محمود نہیں بلکہ سخت ممنوع ہے، کیوں کہ یہ تداعی الی النوافل ہے، جو مکروہ ہے۔ اسی طرح یہ اعلان کرانا کہ ہمارے یہاں قیام و طعام کا بھی نظم ہے تاکہ لوگ وہاں پہنچیں اور اعتکاف کریں، درست نہیں۔ [مستفاد : فتاویٰ قاسمیہ]

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK