Inquilab Logo

آخری عشرہ اعتکاف، شب ِ قدر کی تلاش اور ماہِ رمضان کے الوداع کا پیغام لاتا ہے

Updated: March 29, 2024, 1:30 PM IST | Allama Muhammad Mirajul Islam | Mumbai

تیسرے عشرے کی زبانی اور عملی طور پر بے شمار خصوصیات بیان فرمائی گئی ہیں تاکہ امتی کو یہ احساس ہو کہ وہ ایک نیا کام اب ہی شروع کر رہا ہے اور اس طرح سارا رمضان اسی کیف و سرور اور ذوق و شوق کے ساتھ گزر جائے۔

In the last ten years, especially pray before the Lord of the worlds with sighs and cries. Photo: INN
آخری عشرے میں بالخصوص رب العالمین کے حضور آہ و زاری کے ساتھ دعائیں کیجئے۔ تصویر : آئی این این

رمضان المبارک، رحمان کی طرف سے آنے والا معزز مہمان، نور کا آسمان، بے پایاں رحمت کا سائبان اور انسان کی بخشش کا ایسا حیرت انگیز اور قدرتی سامان ہے کہ اگر انسان پر حقیقت کھل جائے اور اس کی باطنی آنکھ وہ عجائبات اور مناظر دیکھنے لگ جائے جو فرشتوں کی آمد و رفت سے پیدا ہوتے ہیں تو وہ دم بخود رہ جائے اور اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہے۔ 
رمضان میں رب تعالیٰ کے حکم سے، روزہ داروں کے لئے، فرشتے رحمتوں کے طباق اور سعادتوں کی سوغات لے کر، آسمان سے اترنا شروع ہو جاتے ہیں اور افطاری کے وقت ان پر یہ رحمتیں انڈیل دیتے ہیں، یہ سعادتوں سے بھرا ایسا بہار آفریں سماں ہوتا ہے جو اگر ان پر منکشف ہوجائے، تو وہ یہ تمنا کرنے لگ جائیں کہ کاش! سارا سال ہی رمضان بن جائے اور انہیں یہ سعادتیں اور برکتیں ہمہ وقت حاصل ہوتی رہیں۔ 
یوں تو رمضان کا سارا مہینہ ہی ان صفات و برکات سے معمور ہے مگر آخری دس دن، پہلے بیس دنوں سے بھی زیادہ اہمیت اور انفرادی شان رکھتے ہیں، جن میں اعتکاف ہوتا ہے، شب قدر کو پانے کی کوشش کی جاتی ہے اور آخر میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:آدمی ہرطاق رات میں اس اُمید پر اللہ کے حضور کھڑا ہو کہ شاید یہی لیلۃ القدر ہو

آخری عشرہ کی عبادات
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے نو، دس دن مسلمانوں کے لئے خصوصی جہد و عمل اور توجہ و انہماک کے دن ہیں۔ بیس روز گزر جانے کے بعد یہ ماہ مبارک پابرکابِ مہمان کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے، گزرنے والا ایک ایک لمحہ اس کی روانگی و رخصت کی اطلاع دینا شروع کردیتا ہے۔ چونکہ یہ مہینہ برکتوں کا پایاں ناپذیر سمندر ہے، انعامات و سعادت کا کبھی خشک نہ ہونے والا سرچشمہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عطا یائے ربانی کا مظہر ہے، اس لئے اس کی عظمتوں سے کماحقہ آگاہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے شایان شان طریقے سے الوداع کہنے کے طریقے تعلیم کئے گئے ہیں جیسا کہ استقبال کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ ناواقف و غافل بھی اس کی برکات سے محروم نہ رہے۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پہلے سے بھی زیادہ پرشوق، تازہ دم اور سرگرم عمل ہو جاتے تھے۔ جناب عائشہ صدیقہ ؓ نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے :
’’جب آخری عشرہ شروع ہوتا ہے تو آپ کمر بستہ ہو جاتے تھے، ساری رات جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ ‘‘
’’آخری عشرہ میں جتنی محنت فرماتے، باقی دنوں میں اتنی نہیں فرماتے تھے۔ ‘‘ (مسلم)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس خصوصی تیاری اور ذوق و شوق سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے چونکہ آپ حکیم ہیں اور آپؐ کا کوئی فعل حکمت و بصیرت سے خالی نہیں۔ اس لئے یہ سوچنا بالکل بجا ہے کہ آخری عشرہ میں خصوصی اہتمام سے امت کے افراد کو ہمہ وقت مستعد اور تازہ دم رکھنا مقصود تھا، کیونکہ مسلسل ایک کام کرتے کرتے انسان تھک جاتا ہے اور اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے یا یکساں اور ہموار عمل اس کی طبیعت میں رچ بس جاتا ہے اور اس کے ذہن میں اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ انسان کی فطرت اور طبعی خاصہ ہے۔ 
بیس دن کے روزہ رکھنے اور افطار کرنے کے یکساں عمل سے اس بے دلی کا پیدا ہو جانا ممکن تھا۔ اس لئے دانائے فطرت اور نباض حقیقت نے اپنے ذوق عمل اور طرز طریق سے آخری عشرے کو بالکل جدا اور نیا مقام عطا کر دیا۔ گویا اصل ذوق و شوق، ریاضت و عبادت اور یاد و بندگی کا وقت تو اب آیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ عبادت میں تنوع پیدا ہوجائے اور بیس دن کی پیہم مشقت ذوق عمل میں کمی نہ کر دے۔ فطرت شناسی کی یہ اتنی جاندار اور اتنی بڑی مثال ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ 
دوسرا عشرہ پہلے عشرہ کے قریب ہی ہوتا ہے اور دس دن کی مدت کچھ اتنی لمبی بھی نہیں، اس لئے دوسرے عشرے کی صرف انفرادیت بیان کرنے پر اکتفا کیا۔ ارشاد فرمایا :
’’پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ کی آگ سے خلاصی کا ہے۔ ‘‘
مگر تیسرے عشرے کی زبانی اور عملی طور پر بے شمار خصوصیات بیان فرمائی ہیں تاکہ امتی کو یہ احساس ہو کہ وہ ایک نیا کام اب ہی شروع کر رہا ہے اور اس طرح سارا رمضان اسی کیف و سرور اور ذوق و شوق کے ساتھ گزر جائے۔ آخری عشرے کا ایک ممتاز وصف یہ بھی ہے کہ اس میں اعتکاف کیا جاتا ہے، اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے اور دولت مندوں کو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم ہے۔ 
اعتکاف حقائق و معارف سے متعارف ہونے کا نام
اللہ کے لئے ضبط نفس، گوشہ تنہائی میں سب سے کنارہ کشی اور علائق دنیا سے بے رغبتی کے عملی اظہار کا نام اعتکاف ہے۔ چونکہ سبھی انسان اس مزاج و فطرت کے مالک نہیں ہوتے کہ سب سے ناطہ توڑ کر کسی تنہا کونے میں مالک حقیقی سے لو لگانے کا خیال ان کے دماغ میں آئے بلکہ بعض مخصوص افراد ہی کو یہ سعادت ارزانی ہوتی ہے، اس لئے اعتکاف سب پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ یاران نکتہ داں کے لئے صلائے عام دے دی گئی کہ جو چاہے اس کنج عافیت میں آکر حقائق و معارف کے رنگین انوار و تجلیا ت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو۔ اگر سب پر فرض کردیا جاتا تو شاید اسلام پر رہبانیت کی تعلیم کا دھبہ لگ جاتا اور اگر بالکل اجازت نہ دی جاتی تو کتنی سعید و شاہین صفت روحیں اپنی اصلی پرواز سے محروم رہ جاتیں۔ 
اب کسی شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ آخری دس دنوں میں اعتکاف کرلے تاکہ حق تبارک و تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کی عملی تربیت حاصل کرسکے۔ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستور تھا۔ 
’’رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ وصال شریف تک یہی معمول رہا۔ ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’آپؐ آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور حکم دیا کرتے تھے کہ اسی میں شب قدر کو تلاش کرو‘‘۔ (ترمذی)۔ ’’جس نے عشرہ رمضان کا اعتکاف کیا، یہ دو حج اور دو عمروں کی طرح ہوگا۔ ‘‘ (بیہقی)
شب قدر (لیلۃ القدر) 
عمل و ریاضت کے شیدائیوں کے لئے شب قدر خاص اہمیت و کشش رکھتی ہے کیونکہ اس میں انتہائی مختصر وقت میں حیرت انگیز حد تک زیادہ سے زیادہ رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین عمل کے شیدائی تھے، ایک دفعہ ان کے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا :
گزشتہ امتوں کے لوگ طویل ترین عمروں کے مالک ہوتے تھے، ان میں سے بعض اپنی ساری عمر عبادت و اطاعت میں کھپا دیتے تھے۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر عرض کیا : ’’ہماری عمریں تو مختصر ترین ہوتی ہیں ہم کتنی بھی محنت کریں، عمل میں ان خوش قسمت افراد کی برابر نہیں کر سکتے۔ عمر کی طوالت ان کو ہم پر فوقیت بخش دے گی۔ ‘‘
چونکہ اصحابِ عزیمت و ہمت تھے، خود کو میدان عمل میں بے بس پا کر افسردہ خاطر ہوئے اور اپنی بے بسی اور ساتھ ہی اطاعت و عبادت کے لئے اپنی رغبت کا اظہار کیا۔ قدرت ربانی نے ان کے خلوص و ذوق کو پزیرائی بخشی اور سورۃ القدر نازل فرماکر بتایا:
شب قدر کی ایک رات کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔ طلوع فجر تک اس میں انوار و ملائک کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ یہ خوشخبری سن کر ان کی رگوں میں مسرت کی لہر کے ساتھ جذبہ عمل کی بجلیاں بھی دوڑ گئیں۔ شب قدر کی تعین کے بارے میں بتادیا کہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ کچھ لوگ ہی اتنے بلند ہمت ہوتے ہیں جو مسلسل دس راتیں بھی جاگنے کے لئے تیار ہوں، اس لئے پانچ راتیں مخصوص فرما دیں کہ وہ آخری عشرے کی طاق راتیں ہیں۔ کچھ لوگ پانچ راتیں جاگنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرسکتے تھے، انہیں ستائیسویں شب کو جاگنے کا مشورہ دیا۔ 
اس پردہ پوشی سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ہر طبقہ کے افراد کو ان کے درجہ کے مطابق عمل و فعل پر ابھارنا مقصود ہے کہ جتنا کسی سے ہوسکے، ضرور جاگ کر اپنے مالک کی رحمت سے جھولیاں بھرنے کی کوشش کرے اور عمل سے دست کش ہو کر نہ بیٹھ جائے۔ شب قدر کی واضح تعیین تو نہ فرمائی گئی مگر ترغیب و شوق کے لئے اس کے بے شمار فضائل بیان فرما دیئے۔ 
 دیلمی کی روایت ہے :’’بے شک اللہ تعالیٰ نے صرف میری امت کو شب قدر دی ہے اور جو لوگ گزر گئے ان کو نہیں دی۔ ‘‘
طبرانی کی روایت ہے:’’ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو۔ ‘‘
’’جس نے ایمان و یقین کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس میں قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ ‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : میں اس رات میں کیا دعا کروں ؟ فرمایا : پڑھو:
 ’’اے اللہ تو معاف فرمانے والا ہے، عفو و درگزر کو پسند فرماتا ہے، مجھے معاف فرمادے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK