اس ملک کے باشندوںکو جسے وشوگروسمجھا جارہا ہے ،ہتھکڑیوں میں ملک واپس بھیجاجاتا ہے،کیاحکومت کی نظر میںسنگین معاملہ نہیں ؟
EPAPER
Updated: February 13, 2025, 5:33 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumabi
اس ملک کے باشندوںکو جسے وشوگروسمجھا جارہا ہے ،ہتھکڑیوں میں ملک واپس بھیجاجاتا ہے،کیاحکومت کی نظر میںسنگین معاملہ نہیں ؟
وزیر اعظم مودی نے ۲۰۲۰ء کے امریکی انتخابات میں’ اب کی بارٹرمپ سرکار‘ کا نعرہ دیاتھا ۔ ہاسٹن میںاس وقت کے صدارتی امیدوار ٹرمپ کی حمایت میں منعقدہ ایک پروگرام میں وزیر اعظم مودی نےوہی نعرہ دہرایاتھا جویہاں۲۰۱۴ء میں ہندوستان میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں لگایا گیا تھا۔ یہاںیوپی اے کی انتخابی مہم کے مقابلے میں ’اب کی بار مودی سرکار‘ کا نعرہ دیاگیاتھا اور وہاں ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کی حمایت میں’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔۲۰۲۰ء میںٹرمپ کی انتخابی مہم میں وزیر اعظم مودی مدعو تھےلیکن ۲۰۲۵ء میںٹرمپ کی بطور صدر حلف برداری کی تقریب میں انہیں دعوت نہیں دی گئی ۔ مودی کا آئندہ ہفتےامریکہ کادورہ متوقع ہے۔ دونوں ملکوںکے باہمی تعلقات کے پس منظر میں اس دورہ کو اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہےلیکن ٹرمپ نے صدرکے عہدے پر فائز ہو نے کے بعدجو اقدامات کئے ہیںان سے دونوںملکوںکے درمیان تعلقات میںایک کڑواہٹ تو آہی چکی ہے۔
ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ میں بسنے والے مختلف ممالک کے تارکین وطن کے خلاف جوپالیسی اختیار کی ہے وہ بہت سوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے ۔ امریکہ میں ’غیر قانونی‘ طورپر آباد ہندوستانیوں کے ساتھ اس پالیسی کے تحت جو سلوک کیا گیا اورجس طرح۱۰۰؍ سے زائد ہندوستانی تارکین وطن کو گزشتہ دنوںایک طیارہ میں، اس حال میں کہ ان کے ہاتھوں میںہتھکڑیاں اورکمر میںزنجیریں تھیں، ہندوستان واپس بھیجا گیا ، وہ ایک کربناک معاملہ ہے ۔ جس طرح ملک کے داخلی حالات ،فرقہ وارانہ کشیدگی اورشرانگیزوںکو ملنے والی کھلی چھوٹ سے پیدا ہونے والے مسائل پر وزیر اعظم مودی خاموش رہتے ہیں، اسی طرح، قوی امکان ہےکہ وہ امریکہ میں ٹرمپ کے سامنے بھی اس معاملے پرخاموش ہی رہیں گے کیونکہ اس وقت بی جے پی اور ملک کے سربراہ (وزیر اعظم) کا مزاج کچھ ایسابن چکا ہےکہ انہیںان معاملات میں کچھ نہیںبولنا ہے جو تنازع کا باعث ہوں یاجن معاملات میں بی جےپی اور حکومت کمزور نظر آتی ہو ، یہ صرف انہی معاملات میں لب کشائی کرتے ہیں جس میں انہیں اپنے کارنامہ گنوانے کا موقع ملتا ہو یا جن میںملک کی تاریخ اورتہذیب و ثقافت پر فخر کا اظہار مقصودہو۔بی جے پی حکومت کے پاس بتانے کیلئے یا تو صرف اپنے نام نہاد کارنامے ہیں یا اپوزیشن کی خامیاںوکمزوریاں۔مسئلے کو بطور مسئلہ، سوال کو بطور سوال ، تنقید کو بطور تنقیدقبول کرنے کی جرأت ان میں نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے دور میں بچوں سمیت سیکڑوں ماورائے عدالت قتل: اقوام متحدہ
اب ان حالا ت میں وزیر اعظم مودی امریکہ کادورہ کرنے والے ہیں اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔یہ بہت مناسب موقع ہےکہ وہ ہندوستانی تارکین وطن کے اس طرح غیر انسانی طریقے سےملک بدر کئے جانے کا معاملہ امریکی صدر کے سامنے اٹھائیںیا کم از کم میڈیا کے سامنے ہی اس تعلق سے کوئی بیان جاری کریں لیکن یہ ممکن نظر نہیںآتا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم مودی نے اس سے پہلے ٹرمپ سے جب بھی ملاقات کی ہے یا وہ جتنے بھی عالمی پلیٹ فارم پر نظر آئے ہیں،اس میںان کی توجہ ظاہری وضع قطع ، حرکات و سکنات اور تصویریں نکلوانے کیلئے پوز دینے کی حدتک زیادہ رہی ہے۔ اب دونوںممالک کے سربراہوںکے درمیان ملاقات کی حیثیت صرف ایک باہمی ملاقات کی نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں باقاعدہ مارکیٹنگ اور برانڈنگ کا پہلوشامل ہوگیا ہے۔ ایک ایک لمحہ کی تشہیر کی جاتی ہے،ایک ایک پہلو سے تصویریں نکلوائی جاتی ہیںتاکہ تعلقات کی ساری نوعیت اورسارے زاویے تصویر وں میں ہی سامنے آجائیں اورمسائل پس پشت رہ جائیں۔
امریکہ سے ہندوستانی تارکین وطن کی بےدخلی کا معاملہ صرف ایک معاملہ نہیںہے بلکہ
یہ بھی پڑھئے: سماجوادی پارٹی کی حکمت عملی میں تبدیلی کےآثار
اس سے کئی معاملات جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں انسانی اسمگلنگ کا بھی پہلو ہے ، غیر قانونی ٹراویل ایجنٹوں کی دھوکہ دہی کابھی عنصر ہےاور اس سے پیسے اینٹھنے کاایک پورا ریکٹ بھی موجود ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدربننے اورتارکین وطن کے تعلق سےنئی پالیسی اختیارکرنےکے بعد یہ تارکین وطن کا یہ جو معاملہ سامنے آیاہے اس میں ہندوستان بالخصوص مودی حکومت کیلئے جاننے، سمجھنے اور سیکھنے کو بہت کچھ ہے ۔
وزیر اعظم مودی کے خطاب میں یہ بات عام طورپر اور اکثر سنی جاتی ہےکہ ہمارا ملک’ وشوگرو‘ہے جسے دنیا امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ ملک جسے دنیا امید بھری نظروںسے دیکھ رہی ہو، اس کے تارکین وطن کو ہتھکڑی لگاکرملک واپس بھیجا جاتا ہے اورحکومت کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آتا۔ وہ ملک جسے’ وشوگرو‘کے طورپرپیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، بڑی تعداد میں اس کے باشندےروزی روزگار کیلئےدیگرممالک جانے پر مجبور ہیں اور حکومت خاموش ہے جبکہ اس وشوگروکی ایک خاص بات یہ بھی ہےکہ یہاں خود ہر سال ۲؍ کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیاجاچکا ہے۔اس ملک کے سربراہ کو جسے وشو گروثابت کیا جارہا ہے، ایک سپر پاورکاسربراہ اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو نہیںکرتا اوردوسرے ہی مرحلے اس کے تارکین وطن کو ملک سے نکال باہرکرتا ہے۔یعنی جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے وہ معمولی نہیں ہے، ا س میںملک کی ہزیمت ہے ،رسوائی ہے،بھلے یہ ہزیمت ورسوائی ارباب اقتدار کو محسوس نہ ہوتی ہو، سمجھ میںنہ آتی ہو۔۱۰۴؍ تارکین وطن کوامریکہ سے ہندوستان جبراً واپس بھیجنا ۱۴۰؍ کروڑ عوام کی توہین ہے۔ یہ توہین عوام نے محسوس کی ہے،سوشل میڈیا پرایسے ویڈیوز گردش کررہے ہیں جن میں اسے توہین سمجھا گیا ہے۔
اب اس مبینہ وشوگروکے سربراہ سپرپاورکے سربراہ سے عنقریب ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس موقع پروشوگرو کے سربراہ کیلئے اتنا توضروری ہےکہ وہ اپنے شہریوںکےساتھ کئے گئے اس سلوک پر کوئی بات چھیڑیں،کسی ڈبیٹ میںیہ موضوع اٹھائیںیا اس حوالے سےانسانی اسمگلنگ پراپنا کوئی موقف رکھیں،یا ٹرمپ کی پالیسی پرکوئی رائے دیں۔ وشو گروکا سربراہ اگر اس حساس موضوع پر اپنی بات ہی نہ رکھ سکے تواس کے ’گرو‘ ہونے کا کیا مطلب ۔ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ ۲۰۰۹ء سے اب تک ۱۵۰۰۰؍ سے زیادہ تارکین وطن کو ہندوستان واپس بھیج چکا ہے۔تارکین وطن کے لوٹنے پر کیا صورتحال ہوتی ہے، اس کا اندازہ نہیںلگایاجاسکتا ، وہ ذہنی ، نفسیاتی اورمعاشی طورپر جن مسائل کا شکار ہوتے ہیں، ان کا احساس حکومت کو نہیں تو پھر کسے ہوگا؟