شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) کاروبار میں نفع اور نقصان کا تناسب (۲) لاولد بیوہ کا ورثہ (۳) فسخ نکاح کے بعد شوہر کی واپسی۔
EPAPER
Updated: May 09, 2025, 4:56 PM IST
|
Mufti Azizurrehman Fatehpuri
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) کاروبار میں نفع اور نقصان کا تناسب (۲) لاولد بیوہ کا ورثہ (۳) فسخ نکاح کے بعد شوہر کی واپسی۔
لاولد بیوہ کا ورثہ
زید لاولد ہے۔ اس کی شادی ھندہ سے ہوئی تھی تو مہر میں اسے ایک مکان دےدیا تھا جس کا نکاح نامے میں بھی اندراج ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری کاغذات میں بھی اس کا اندراج کرادیا تھا۔ مکان کے علاوہ ایک دکان بھی ھندہ کے نام کردی تھی۔ مکان اور دوکان دونوں کا کرایہ اسی وقت سے ھندہ لے رہی ہے۔ زید کی وفات کے بعد فتویٰ کے مطابق اس کا ترکہ میں ایک چوتھائی حصہ تھا جو اسے دے دیا گیا مگر زید کے وارثوں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ مہر والے مکان اور مذکورہ دکان کو بھی زید کے پورے ترکہ میں شامل ہونا چاہئے۔ کیا یہ مطالبہ صحیح ہے؟ زید کے دیگر ورثاء کا خیال ہے کہ ھندہ تاحیات اپنے حق سے فائدہ اٹھاتی رہے لیکن نہ کسی کو ھبہ کرے نہ بیچے تاکہ ھندہ کے بعد اس کا حصہ زید کے رشتہ داروں کو مل جائے۔ سوال یہ ہے کہ ھندہ کےبعد اس کو ملنے والا حصہ کسےملےگا اور ھندہ اس میں اپنی مرضی سے کوئی تصرف کرسکتی ہے یانہیں ؟ ولی احمد، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: کسی بھی وارث کو جو حصہ ملتا ہے وہ اس کا کلی مالک و مختار ہوتا ہے، وہ جو بھی مالکانہ تصرف کرے اس کا اسے کامل اختیار ہوتا ہے۔ وہ کسی کو دینا یا فروخت کرنا چاہے تو شرعاً یہ اس کا حق ہوتاہے نیز سہام شرعیہ کے مطابق متوفی کے ترکہ سے اس کو جو حصہ ملتا ہے، اس وارث کے بعد وہ خود اس کے شرعی ورثاء کا حق ہوتاہے نہ کہ مورث کے ورثاء کا؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں زید نے مہر میں جو مکان اور اس کے علاوہ بطور ھبہ جو دکان ھندہ کو دی تھی ان کو زید کے ترکہ میں شامل نہ کیا جائیگا، یہ دونوں اشیاء ھندہ کی ملک ہیں نیز یہ اور زید کے ترکہ سے مزید جو کچھ اسے ملا ہوگا ھندہ اس کی مالک ہوگی، جو تصرف چاہے کرسکتی ہے۔ ھندہ کے بعد یہ حصہ ھندہ کے ورثاء کو منتقل ہوگا نہ کہ زید کے دیگر ورثاء کو۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
فسخ نکاح کے بعد شوہر کی واپسی
شوہر دوسال سے لاپتہ تھا، کہیں کوئی سراغ نہ مل رہاتھا لہٰذا فریقین کے بیانات لےکر نکاح فسخ کردیا گیا۔ اس کے بعد ہی لاپتہ شخص واپس آگیا۔ سوال پیداہوتا ہے کہ اس صورت میں اب کیا کیا جائے۔
فرید اجمل، جے پور
باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: معاملہ لاپتہ یعنی مفقود الخبر شوہر کا تھا جس کی گمشدگی کا عرصہ دوسال تھا۔ اس معاملے میں اسلامی عدالت کے جو اصول اور ضابطے ہیں ان کو سامنے رکھ کر کارروائی کی جاتی تو لاپتہ شخص کی تلاش وجستجو کی جدوجہد میں ناکامی کےبعد ایک مقررہ مدت تک انتظار کا حکم دیا جانا چاہئے تھا اس کے بعد بھی کوئی سراغ نہ ملنے پر حکماً اس کو مردہ مان کر فیصلہ کیا جاتا اور بیوی کے لئے موت کی عدت گزارنے کا حکم دیا جاتا۔ اس مختصر سوال سے بظاہر اندازہ یہ ہوتا ہے کہ مفقود الخبر کے لئے کارروائی کے جو اصول وضابطے ہیں ان کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ورنہ اس طرح فسخ نکاح کی گنجائش نہیں تھی۔ کس نے کن اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے کیا کارروائی کی اور وہ درست تھی یا نہیں اس کا صحیح علم تو پوری کارروائی کو پڑھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے لیکن صورت مسئولہ میں شوہر مفقود الخبر تھا، شرعی حکم یہ ہے کہ اگر حکماً اس کی موت کو مان کر فیصلہ کردیا جائے، پھر شوہر واپس آجائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مردہ مان کر جو فیصلہ کیا گیا وہ صحیح نہیں تھا اس لئے اس فیصلے کے باوجود رشتۂ زوجیت کو بدستور برقرار تسلیم کرلیا جاتا ہے اس لئے شوہر کے آجانے کے بعد تو حکم یہی ہے کہ سابقہ نکاح باقی ہے یہاں تک کہ اگر مفقود الخبر کی بیوی عدت کے بعد دوسری شادی کرلے تو فیصلےکی غلطی سامنے آجانے کے بعد پہلے نکاح کو تسلیم کیا جائیگا، دوسرے نکاح کو باطل مانا جائے گا۔ یہ اصولی جواب ہے تاہم مفقود الخبر کے معاملے میں واقعات اورشہادتوں کے مطابق کارروائی کی بھی کئی صورتیں ممکن ہوتی ہیں لیکن فسخ یا وقوع طلاق کا فیصلہ بھی کیا جائے تو فسخ اور تفریق سے صرف ایک طلاق بائن ہی کا حکم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
کاروبار میں نفع اور نقصان کا تناسب
بکر ایک کاروباری شخص ہے، اس نے کاروبار میں پہلے ہی سے معقول سرمایہ لگا رکھا ہے۔ زید اس کا دوست ہے جس کے پاس رقم تو ہے مگر کاروباری تجربہ بالکل نہیں ۔ ان دونوں نے یہ معاہدہ کیا کہ زید بکر کے کاروبار میں ایک چوتھائی رقم لگائےگا، بکر حسب سابق کاروبار سنبھالےگا اور اس میں جو منافع ہوگا خرچ نکالنے کے بعد زید کو ۲۵؍کے بجائے اس کا ۲۰؍ فیصد ملےگا، ۵؍ فیصد بکر محنت کے عوض لےگا۔ ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ نقصان ہوا تو وہ بکر کے ذمے ہوگا زید نقصان میں بالکل شریک نہ ہوگا۔ اس سلسلے میں دو باتیں دریافت طلب ہیں ۔ اول زید کا سرمایہ ۲۵؍فیصد ہے مگر نفع ۲۰؍ فیصد، کیا یہ صحیح ہے ؟دوسرے خسارہ صرف بکر کے ذمے ہوگا اس کا کیا حکم ہے؟
حاکم علی، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں جب کہ سرمائے میں تین چوتھائی بکر کی رقم ہے اور ایک چوتھائی زید کی تو یہ شرکت کا معاملہ ہے۔ اصولاً زید کو منافع میں ۲۵؍ فیصد ملنا چاہئے تھا لیکن چونکہ دیکھ بھال بکر ہی کے ذمے ہے اس لئے وہ نفع میں اپنی محنت کے عوض مزید پانچ فیصد اپنے لئے طے کرسکتاہے البتہ نفع کے ساتھ ساتھ زید نقصان میں بھی شریک ہو تبھی یہ معاملہ صحیح ہوگا اور نقصان سرمائے کے تناسب سے یعنی ۲۵؍ فیصد زید کے ذمے طے ہونا چاہئے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم