• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: مالک کون ہوگا ؟ سوال واضح نہیں ہے، نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دکھانا

Updated: September 06, 2024, 3:57 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) مالک کون ہوگا ؟ سوال واضح نہیں ہے (۲) نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دکھانا (۳) کسی کو سلام کہنے یا سلام بھجوانے کی شرعی حیثیت۔

Shaking hands and salam are Islamic slogans. Photo: INN
مصافحہ اور سلام اسلامی شعار ہیں۔ تصویر : آئی این این

مالک کون ہوگا ؟ سوال واضح نہیں ہے
 والد کے ایک مکان کے دو دروازے تھے۔  ایک دروازہ کے سامنے کی جگہ جو عموماً گھر اور دکانوں  کے سامنے ہوتی ہے اس پر ایک بیٹے نے ایک مکان اپنی رقم سے اس طرح بنایا کہ اس کا ایک چوتھائی حصہ والد کے مکان میں  ہے اور تین حصے باہر کی جگہ پر یعنی والد کے مکان کے اس دروازے کو نکال کر چوتھائی حصہ چھوڑ کر اندر دروازہ بنایا تو اس مکان کا مالک کون شمار ہوگا بیٹا یا والد؟ 
عبد الرحمٰن، دہلی
 باسمہ  تعالیٰ۔ ھوالموفق: سوال پوری طرح واضح نہیں  ہے۔  بیٹے نے جو تصرف کیا،  کیا اس وقت والد حیات تھے ؟حیات تھے تو ان کی اجازت سے یہ مکان بنایا گیا یا بغیر اجازت کے اور اس آخری صورت میں باپ کا رد عمل کیا تھا ان سب امور کو واضح ہونا چاہئے تھا نیز جو مزید تین حصے مکان کا حصہ ہیں  وہ زمین کس کی ہے؟ سوال غالباً  چوتھائی حصے کے متعلق ہے جو باپ کی زمین کا حصہ ہے لہٰذا اگر باپ نے زمین کا یہ حصہ اس بیٹے کو ھبہ کردیا تھا تو اس مکان کا مالک وہ لڑکا ہوگاجسے باپ نے یہ زمین دے دی تھی لیکن اگر باپ کی مرضی کے خلاف اس نے مکان بنایا ہو یا اس سے پہلے باپ کا انتقال ہوچکا ہو تو اس صورت حال میں  زمین تمام ورثاء کی مشترکہ ہوگی یاتو ہروارث کو اس کے حصے کی موجودہ قیمت دے کر انہیں  رضامند کرے،   بصورت دیگر اس سے کہا جائیگا کہ اپنی تعمیر کو ہٹاکر وارثوں  کو ان کے حصے کی زمین دے۔  صورت مسئولہ میں  مناسب یہی ہوگا کہ دیگر ورثاءسے مفاہمت ہوجائے، باقی تین حصے کس کی ملکیت ہیں یہ واضح ہونے کے بعد اس کا فیصلہ ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

یہ بھی پڑھئے:حادثےکی صورت میں ملنے والی رقم کو فقہاء نےحکومتی تعاون قرار دیتے ہوئے اس کے لینےکو جائز قرار دیا ہے

نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دکھانا
 ایک جگہ نماز جنازہ کے بعد جب میت کا چہرہ دکھایا گیا تو ایک صاحب معترض ہوئے کہ نماز جنازہ کے بعد چہرہ دکھانے کا عمل درست نہیں  ہے۔  ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نماز جنازہ کے بعد عذاب شروع ہوجاتا ہے اس لئے چہرہ دیکھنا دکھانا قطعا ً جائز نہیں   نیز وہ کسی مفتی صاحب کے فتوے کا بھی ذکر کررہے تھے۔  اس سلسلے میں  شرعی حکم کیا ہے ؟عبداللہ،  ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:  اسلامی ہدایات یہ ہیں  کہ موت کے آثار ظاہر ہونے کے بعد پہلے موت کے واقع ہونے پر یقین ہو جائے کیونکہ امکان یہ بھی ہے کہ طویل بے ہوشی یا سکتہ ہو،  پھر جب موت کا کامل یقین ہوجائے تو غسل اور تجہیز وتکفین کا انتظام شروع کردیا جائے،  اس کے بعد غیر ضروری تاخیر کئے بغیر نماز جنازہ پڑھنے کے بعد میت کو دفن کردیا جائے۔  چنانچہ حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت طلحہ ؓکی عیادت کے بعد واپس ہوئے تو فرمایا مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ طلحہ کا آخری وقت آپہنچا ہے، جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے اطلاع دینا تاکہ میں  ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں  اور ان کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کرنا کیونکہ یہ مناسب نہیں  کہ کسی مسلمان کے جسد خاکی کو اس کے گھروالوں  کے درمیان (بےضرورت) روک کر رکھا جائے۔  ایک روایت کے مطابق جب آپؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ کی وفات ہوئی تو آپؐ نے فرمایا جب تک میں  دیکھ نہ لوں  اسے کفن نہ پہنایا جائے۔  اس کے بعد آپؐ  تشریف لائے،  انہیں  بغور دیکھا اور آبدیدہ ہوئے۔  اس روایت سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ میت کا چہرہ دیکھنا جا ئز ہے لیکن اس کا مناسب وقت کفن پہنانے سے پہلے کا ہے،  تکفین کے بعد رونمائی بہتر نہیں  لیکن اسے حرام اور ناجائز کسی نے نہیں  لکھا۔  یہی حکم نماز جنازہ کے بعد کا بھی ہے کہ بہتر تو نہیں  لیکن  ناجائز بھی نہیں  تاہم جنازہ گاہ میں  عام  رو نمائی کا رواج بالکل نہ ہونا چاہئے۔  رہی یہ بات کہ نماز جنازہ کے بعد عذاب شروع ہوجاتا ہے،  سرے سے بے بنیاد ہے۔  کسی مفتی صاحب کے فتوے کا بھی ذکر آیا ہے اگر واقعی کسی نے کوئی فتویٰ دیا ہے تو وہ یہی ہوگا کہ  اس کے بعد چہرہ دیکھنا دکھانا ناپسندیدہ ہے اس لئے بہتر نہیں۔  واللہ اعلم
کسی کو سلام کہنے یا سلام بھجوانے کی شرعی حیثیت
 اکثر لوگ کہتے ہیں  کہ ’’میرا سلام فلاں  شخص کو پہنچا دینا‘‘ یا ’’فلاں  کو میرا سلام کہنا‘‘ وغیرہ، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ اور جس کو سلام پہنچانے کا کہاجائے تو کیا اُس پر آگے مطلوبہ شخص تک سلام پہنچانا لازم ہے؟ کیا اس شخص پہ فوری طور پہ جواب دینا ضروری ہے ؟عابد الرحمٰن،   جالنہ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: سلام اسلامی شعار ہے۔  ایک مسلمان کے دوسرے پر جو حقوق ہیں  ان میں  سے ایک سلام بھی ہے۔  اس میں  قرابت،  دوستی اور جان پہچان وغیرہ کا کوئی دخل نہیں۔  حدیث شریف کا مفہوم  ہے کہ سلام ہر مسلمان کے لئے ہے،  چاہے جان پہچان کا ہو یا نہ ہو۔  اس باب میں  فضیلت اس کیلئے ہے جو سبقت کرے۔  کون کب پہل کرے فقہاء نے اسے بھی تفصیل سے لکھا ہے مگر یہاں  اس کی ضرورت نہیں۔  اس میں  اعتدال بھی ملحوظ خاطر ہے چنانچہ کسی مجمع کی صورت میں  یہ ضروری نہیں  کہ ہر ایک ہر ایک کو سلام کرے۔  سلام میں  پہل مسنون ہے لیکن اس کاجواب واجب ہے۔ اصل تو یہ ہے کہ ملاقات کی صورت میں  سلام اور مصافحہ وغیرہ کیا جائے لیکن کسی کے ذریعہ تحریری یا زبانی سلام کا بھی (شعار) پایا جاتا ہے۔ 
  جس کے ذریعہ سلام بھیجا جائے  وہ اس کا وکیل اور من وجہ امین بھی ہوتا ہے اس لئے اسے حتی الامکان سلام پہنچانے کی کو شش کرنی چاہئے،  تاہم وہاں  تک پہنچ ہی نہ سکا یا کسی وجہ سے بھول گیا تو چنداں  مضائقہ نہیں۔  اکابر کا اکثر یہ معمول رہا ہے کہ وہ بشرط فرصت یا بشرط سہولت ضرور کہتے اور لکھتے رہے ہیں۔  واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK