Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: جانئے زکوٰۃ سے متعلق ۱۰؍ سوالات اور ان کے جوابات

Updated: March 15, 2024, 10:54 AM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:  (۱) انسان پہ زکوٰۃ کب فرض ہوتی ہے؟ (۲) کیا زکوٰة کی فرضیت کا تعلق عمر سے بھی ہے؟(۳) کیا سال گزرنا بھی فرائض میں سے ہے؟ (۴) اگر کسی کی آمدنی مستقل بدلتی رہتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (۵) اگر کسی دوست/رشتہ دار کو قرض دیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟اس کی زکوٰة نکالی جائے گی یا نہیں ؟(۶) زکوٰة کے مستحق کو اپنے ہاتھ سے دینا بہتر ہے یا کسی آدمی یا انجمن کو جو مستحق تک پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں ؟(۷) اگر مدرسوں پر خرچ کریں گے تو اس کے کیا فضائل ہیں ؟ (۸) اگر فرض ہونے کا علم کسی کو نہ تھا، اب معلوم ہواتو کیا حکم ہے؟(۹) فرض ہونے کے باوجود اگر کوئی زکوٰة ادا نہ کرے تو اس پر کیا حکم ہے؟(۱۰) اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ وہ مستحق ہے جب کہ ایسا نہ ہو تو کیا حکم ہے؟اور ایسے وقت میں کیا کرسکتے ہیں ؟

Photo: INN
تصویر : آئی این این

مجھے زکوٰة کے تعلق سے چند باتیں جاننی ہیں :
 (۱) انسان پہ زکوٰۃ کب فرض ہوتی ہے؟ (۲) کیا زکوٰة کی فرضیت کا تعلق عمر سے بھی ہے؟(۳) کیا سال گزرنا بھی فرائض میں سے ہے؟ (۴) اگر کسی کی آمدنی مستقل بدلتی رہتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (۵) اگر کسی دوست/رشتہ دار کو قرض دیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟اس کی زکوٰة نکالی جائے گی یا نہیں ؟(۶) زکوٰة کے مستحق کو اپنے ہاتھ سے دینا بہتر ہے یا کسی آدمی یا انجمن کو جو مستحق تک پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں ؟(۷) اگر مدرسوں پر خرچ کریں گے تو اس کے کیا فضائل ہیں ؟ (۸) اگر فرض ہونے کا علم کسی کو نہ تھا، اب معلوم ہواتو کیا حکم ہے؟(۹) فرض ہونے کے باوجود اگر کوئی زکوٰة ادا نہ کرے تو اس پر کیا حکم ہے؟(۱۰) اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ وہ مستحق ہے جب کہ ایسا نہ ہو تو کیا حکم ہے؟اور ایسے وقت میں کیا کرسکتے ہیں ؟ امید ہے کتاب و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں گے۔ حمید اللہ لکھنؤ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: (۱)جب کوئی شخص بقدر نصاب مال کا مالک بن جائے تو اصولاً اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے لہٰذا اب وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ 
 (۲)زکوٰۃ اس بچے کے مال پر واجب نہیں ہوتی جو شرعاً نابالغ ہو۔ اسی طرح پاگل کے مال میں بھی زکوٰۃ نہیں واجب ہوتی۔ 
 (۳)جس پر زکوٰۃ فرض ہوگئی جب اس کے مال نصاب پر سال گزر جائے تب ادائیگی متوجہ ہوتی ہے۔ 
 (۴)زکوٰۃ کی ادائیگی سال گزرنے پر متوجہ ہوتی ہے نہ کہ مہینہ گزرنے پر لہٰذا سال پورا ہونے پر جو کمی بیشی ہوگی اس کا اعتبار ہوگا نہ کہ ہر ماہ کی کمی بیشی کا۔ 
  (۵)دوست رشتہ دار یا جسے بھی قرض دیا جائے اگر وہ شخص ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے تو ادائیگی زکوٰۃ کے وقت اتنی رقم وضع کر کے باقی کی زکوٰۃ دینی ہوگی۔ قرض کی جو رقم وضع کی ہے جب یہ قرض وصول ہو جائے اس وقت گزشتہ تمام مدت کی زکوٰۃ ایک ساتھ دینی ہوگی مگر سہولت اسی میں ہے کہ ہر سال اس رقم کی زکوٰۃ بھی ادا کی جاتی رہے۔ 
  (۶)زکوٰۃ میں اس حد تک اخفاء مطلوب ہے کہ دیتے وقت بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو اس لئے جہاں پہنچ سکیں اور مستحقین معلوم ہوں خود زکوٰۃ ادا کریں انجمن وغیرہ کا سہارا نہ لیں ۔ کسی انجمن کا سہارا اس وقت کے لئےہے جب مستحقین کا علم ہی نہ ہو یا ان تک رسائی دشوار ہو۔ 
 (۷) علماء نے مدارس پر خرچ کا ایک فائدہ یہ بتایاہے کہ یہاں خرچ کرنے سے طالبان علم دین کا براہ راست تعاون اور دینی علوم کی اشاعت ہوتی ہے لہٰذا جہاں یہ مقصد حاصل ہو وہیں تک اسے محدود رکھا جائے ایسا نہ ہو کہ غیر مستحقین کو اس طرح عام کردیا جائے کہ مقصد ہی فوت ہو جائے۔ 
 (۸) اگر کس کو یہ علم ہی نہ تھا کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہے تو معلوم ہو جانے کے بعد گزشتہ تمام مدت کا حساب اور تخمینہ لگا کر گزشتہ کی زکوٰۃ بھی ادا کرے۔ 
  (۹)فرض ہونے کا علم ہوتے ہوئے زکوٰۃ نہ ادا کی جائے تو یہ مال قیامت کے دن طوق بناکر ڈالا جائیگا اور سرعام رسوا کرے گا۔ 
 (۱) جو شخص مستحق نہ ہو اور زکوٰۃ لے اس کے لئے بڑی سخت وعیدیں ہیں قیامت کے دن وہ بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ لوگوں کے سامنے لایا جائیگا اگر کسی نے اسے مستحق سمجھ کر کچھ دیاہے تو بندہ چونکہ ظاہر کا مکلف ہے اس لئے مزید کسی امر یاتحقیق کا مکلف نہ بنایا جائے گا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK