• Sat, 01 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: نماز میں خلافِ ترتیب قرأت ایک ناپسندیدہ امر ہے

Updated: November 01, 2025, 6:50 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) نماز میں خلافِ ترتیب قرأت ایک ناپسندیدہ امر ہے (۲) برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لینا (۳) مسجد یا مدرسے میں غیروں کی معاونت (۴) غیروں کا ذبیحہ

Picture: INN
تصویر: آئی این این
چار رکعت والی سنت نماز میں، جو ظہر، عصر اور عشاء میں ادا کی جاتی ہیں،  اگر ہم نے ابتدائی دو رکعات میں سورہ فلق اور سور الناس پڑھ لی تو پھر آخر کی دو رکعتوں میں کون سی سورتیں پڑھنی چاہئیں؟ عبد الرقیب، پونہ
 باسمہ تعالیٰ۔ھوالموفق: نماز میں خلاف ترتیب قرأت ایک ناپسندیدہ امر ہے۔ فرض نماز میں توترتیب کی رعایت قرأت کے واجبات میں سے ہے لہٰذا خلاف ترتیب قرأت کوعلماء نے مکروہ تحریمی ( شرعاً ناپسندیدہ ، جس سے گریز پر ثواب ملتا ہے) لکھا ہے لیکن چونکہ یہ نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے اس لئے سجدۂ سہو واجب نہ ہوگا۔ فرض کی دورکعت میں ہی سورہ فاتحہ کے بعد سورہ ملانا واجب ہے اس لئے پہلی رکعت میں سورہ ناس پڑھ لینے کی صورت میں دوسری میں بھی سورہ ناس ہی پڑھ لی جائے (البتہ ختم قرآن کے موقع پر سورہ ناس کے بعد دوسری رکعت میں الم سے پڑھ سکتے ہیں)۔ 
نوافل(وسنن)میں خلاف ترتیب قرأت مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ ہے اس لئے کراہت نہ ہوگی تاہم بہتر یہ ہے کہ پہلی میں ناس پڑھی تو دوسری میں بھی وہی پڑھ لے پھر بھی کہیں اور سے پڑھا تو وہ حکم نہ ہوگا جو فرض کا ہے۔ سنن و نوافل کی ہر دو رکعت مستقل حیثیت رکھتی ہیں اسلئے تیسری اور چوتھی میں کہیں سے بھی پڑھ لیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لینا
اگر برتن سے وضو کرتے وقت برتن میں بار بار ہاتھ ڈال کر پانی نکالا جائے یا ہاتھ کا کچھ حصہ ڈال کر پانی نکالا جائے تو کیا اس پانی سے کیا گیا وضو باطل ہو جاتا ہے؟ راشد احمد ،ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: بہتر تو یہی ہے کہ بڑے برتن سے پانی نکالنے کے لئے ہاتھ کے بجائے کوئی چھوٹا برتن جیسے آبخورہ وغیرہ استعمال کیا جائے لیکن بصورت مجبوری ہاتھ سے نکالنے کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ برتن سے پانی نکال کر وضو باہر کیا جائے۔ برتن سے پانی نکال کر باہر وضو کرنے سے پانی مستعمل نہ ہوگا البتہ اس کی رعایت ضروری ہے کہ ہاتھ کسی نجاست اور گندگی وغیرہ سے پاک صاف ہوں ورنہ پانی ہی نجس ہوجائے گا۔ اس امر کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ سونے کے بعد اٹھ کر پہلے ہاتھ اچھی طرح دھوکر ہی کسی برتن میں ہاتھ ڈالا جائے۔ حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ ہدایت موجود ہے ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
مسجد یا مدرسے میں غیروں کی معاونت 
غیر مسلم برادران کا پیسہ مسجد یا مدرسے میں لگانا صحیح ہے یا نہیں؟
عبد اللہ، نئی دہلی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: یہاں دو مسئلے الگ الگ ہیں:  (۱)غیر مسلم کا وقف اور (۲)مسجد مدرسہ یا کسی دینی ضرورت میں غیر مسلم کا پیسہ لگانا۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ جس غیر مسلم کا اعتقاد مسجد وغیرہ کو کار خیر سمجھنے کا ہو اس کا وقف درست ہے اس کے لئے بیت المقدس وغیرہ کے اوقاف کی مثال دی ہے جہاں یہود و نصاریٰ کے اوقاف بھی ہیں۔ تاہم بہتر صورت یہ ہے کہ غیر مسلم اپنی جگہ کسی مسلمان کو فروخت یا ہبہ کردے ، پھر وہ مسلمان وہاں مسجد تعمیر کردے یا متولی کے حوالے کردے۔ غیر مسلم کا پیسہ مسجد وغیرہ میں استعمال کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے ۔اول اس کا مال حلال ذرائع سے حاصل شدہ ہو، دپوکہ دہی سے لیا گیا یا غصب یا رشوت اور ناجائز تجارت کی آمدنی نہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا مقصد نہ ہو جو شرعاً پسندیدہ نہ ہو (جیسے یہ رقم لینے سے مسلمان اس طرح زیر بار احسان رہیں کہ ان کو بدلے میں ناجائز امور میں تعاون کرنا پڑے، وغیرہ) آج کل سیاسی طور سے سرگرم حضرات کے مالی تعاون میں بھی یہ مفاسد ممکن ہیں نیز اس کے پیچھے انتخابی فوائد کا حصول بھی مضمر ہوسکتا ہے لہٰذا اگر غیر مسلم برادران کا مال حلال ذرائع سے حاصل شدہ ہو اور اس کی نیت فاسد بھی نہ ہو تو اس صورت میں اس کی رقم لے کر استعمال کی جاسکتی ہے ورنہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔واللہ اعلم وعلمہ اتم
 غیروں کا ذبیحہ 
اگر کوئی غیر مسلم جانور کو بسم اللہ پڑھ کے ذبح کر دے کیا وہ جانور حلال مانا جائے گا یا نہیں ؟  احسان شیخ، نالاسوپارہ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ذبیحہ کی حلت کی پہلی شرط تو یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو، ثانیاً اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، تیسرے یہ کہ جن رگوں کا کٹنا ضروری ہے ان میں سے اکثر کٹ جائیں (سانس کی نالی جسے حلقوم اور نرخرہ کہتے ہیں ،دانہ پانی جانے والی نالی جسے مری کہتے ہیں اور حلقوم کے دائیں بائیں والی رگیں یہ چاروں یا ان میں کم از کم تین کو اچھی طرح کٹ جانا چاہئے) یہ تو ذبح کی بنیادی شرائط ہیں البتہ کتاب وسنت کی تصریحات کی رو سے اہل کتاب (یعنی یہود نصاریٰ) جو کسی آسمانی شریعت کے ماننے والے ہیں اگر وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کریں تو ان کا ذبیحہ بھی حلال کے حکم میں ہوگا مگر علماء نے لکھا کہ ہم جنہیں اہل کتاب کہتے ہیں بحالت موجودہ اکثر ملحد ہیں پھر ضروری نہیں کہ وہ اللہ کانام لے کر ذبح کریں اس لئے کامل تحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اہل کتاب انہیں کو مانا جائے گا جن کے اہل کتاب ہونے کی تصدیق قرآن وحدیث نے کی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK