• Sat, 01 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسلام میں توبہ کا فلسفہ اور ہماری تنگ نظری!

Updated: November 01, 2025, 7:00 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

کسی کی توبہ کے بعد بھی اسے ماضی کی غلطیوں کے طعنے دینا یا اس کی خطا کو بار بار یاد دلانا محض اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ ایک قابلِ مواخذہ گناہ ہے۔

Allah loves those who repent. Picture: INN
اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ تصویر: آئی این این

غلطی انسانی وجود کا وہ پہلو ہے جو اس کی ناقص عقل اور محدود ادراک کی علامت ہے۔ انسان کی تخلیق ہی اس طرح ہوئی ہے کہ اس کے شعور میں کمال کی طلب تو ودیعت کی گئی ہے مگر اس تک پہنچنے کی صلاحیت کو آزادی دی گئی ہے جہاں لغزش کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ مگر یہی لغزش انسان کو غور و فکر، ندامت اور توبہ کے راستے پر لے جاتی ہے، جو بالآخر اسے روحانی بلندی عطا کرتی ہے۔ گویا خطا انسان کی صرف کمزوری نہیں بلکہ اس کی معنویت کی دلیل بھی ہے، کیونکہ اگر خطا کا امکان نہ ہوتا تو توبہ کی عظمت اور بخششِ الٰہی کی وسعت بھی ظاہر نہ ہوتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کی اسی جبلت کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’ہر آدمی (امکانی طور پر) خطاکار ہے، اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی حکمت ِ کاملہ کے تحت شریعت ِ اسلامیہ کو اس طرح مرتب فرمایا کہ وہ انسانی کمزوریوں کا نہ صرف ادراک کرتی ہے بلکہ ان کی تلافی کا منظم اور عادلانہ نظام بھی فراہم کرتی ہے۔ چونکہ انسان سے غلطی کا صدور ناگزیر ہے، اس لئے شریعت نے صرف سزا نہیں بتلائی بلکہ اصلاح، توبہ اور کفارہ کے اصول مقرر کئے تاکہ معاشرتی توازن اور روحانی پاکیزگی دونوں برقرار رہیں۔ اگر شریعت میں تلافی کے دروازے بند ہوتے تو انسان ناامیدی اور بغاوت کا شکار ہو جاتا، لیکن اسلام نے اسے امید، رجوع اور بہتری کا راستہ دکھایا۔ یوں شریعتِ محمدیہ انسان کے خطا کار ہونے کے باوجود اس کی عزت و وقار کو باقی رکھتی ہے اور اسے ندامت کے ذریعے روحانی ارتقاء کی بلند منزلوں تک پہنچنے کا موقع عطا کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں توبہ کی فضیلت کو بڑے بلیغ انداز میں بیان فرمایا ہے:’’بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(البقرۃ:۲۲۲)اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ صرف گناہ سے نجات کا ذریعہ نہیں بلکہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کا راستہ ہے کیونکہ توبہ انسان کے اندر ندامت، خود احتسابی اور اصلاحِ نفس کا جذبہ بیدار کرتی ہے، جو اسے گناہ کی تاریکی سے نیکی کے نور کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ دراصل انسان اور خالق کے درمیان ایک روحانی رابطہ ہے، جو بندگی کے احساس کو تازہ کرتا ہے اور دل میں امید و اطمینان پیدا کرتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اسلام انسان کو اس کی ماضی کی لغزشوں سے نہیں بلکہ اس کی نیت، توبہ اور اصلاحِ حال سے جانچتا ہے۔ جب انسان خطا کے بعد تلافی کرتا ہے اور خلوصِ دل سے رجوع الی اللہ ہوتا ہے تو وہ اپنی روح کو اس گندگی سے پاک کر لیتا ہے جو گناہ نے اس پر ڈال دی تھی۔ اس اعتبار سے انسان جامد مخلوق نہیں بلکہ متحرک و ارتقائی وجود ہے، جو گرتا ہے مگر سنبھلتا بھی ہے اور بھٹکتا ہے مگر راہ بھی پاتا  ہے۔ یوں اسلام انسان کو خطا کے دائرے میں قید نہیں کرتا بلکہ اسے توبہ کے ذریعے ازلی پاکیزگی کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔ 
 زیر بحث موضوع کے تناظر میں ایک تلخ حقیقت ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ جہاں اسلام توبہ کے بعد انسان کو پاکیزہ قرار دیتا ہے، وہیں معاشرہ اکثر ایسا نہیں کرتا۔ انسانوں کی نگاہیں محدود اور ان کے فیصلے ظاہری ہوتے ہیں، اس لئے وہ ماضی کی غلطیوں کو بھلا نہیں پاتے۔ نتیجتاً، جس شخص نے سچے دل سے اپنی اصلاح کر لی ہو اور توبہ کے ذریعے روحانی پاکیزگی حاصل کر لی ہو، وہ بھی بعض لوگوں کے نزدیک ہمیشہ خطاکار ہی رہتا ہے۔ یہ رویہ دراصل انسانی کم فہمی اور دل کی تنگی کی علامت ہے، کیونکہ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ جو توبہ کر لے، وہ ایسا ہے گویا اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں۔ مگر افسوس کہ انسان اللہ کی طرح معاف کرنے والا نہیں بنتا؛ وہ دوسروں کے ماضی کو ان کی پہچان بنا دیتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں الٰہی عدل اور انسانی طرزِ فکر کا سب سے بڑا فرق نمایاں ہوتا ہے۔
یاد رکھئے! کسی کی توبہ کے بعد بھی اسے ماضی کی غلطیوں کے طعنے دینا یا اس کی خطا کو بار بار یاد دلانا محض اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ ایک قابلِ مواخذہ گناہ ہے۔ یہ عمل انسان کے دل سے رحمت، عدل اور انصاف کے جذبات کو سلب کر دیتا ہے اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ جو شخص اللہ کے معاف کئے ہوئے بندے کو معاف نہیں کرتا، وہ دراصل مغفرت کے الٰہی نظامِ سے بغاوت کرتا ہے۔ ایسے رویّے کا نقصان صرف دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی اٹھانا پڑے گا اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری  ہے کہ جب کوئی انسان سچے دل سے توبہ کرے اور پرانی غلطی نہ دہرائے تو ہم بھی اسے عزت، اعتماد اور محبت کے ساتھ قبول کریں، تاکہ زمین پر الفت و محبت کا بول بالا ہو جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK