شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)جو پہلی صف کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے پہلے مسجد میں پہنچنا چاہئے (۲) قرأت میں غلطی ہوجائے تو (۳) سری نمازوں میں جہر کا حکم (۴) شادی کے لئے زکوٰۃ کی رقم (۵) وراثت کے مسائل۔
EPAPER
Updated: August 16, 2025, 4:56 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)جو پہلی صف کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے پہلے مسجد میں پہنچنا چاہئے (۲) قرأت میں غلطی ہوجائے تو (۳) سری نمازوں میں جہر کا حکم (۴) شادی کے لئے زکوٰۃ کی رقم (۵) وراثت کے مسائل۔
جمعہ کی نماز کے آداب میں یہ کہا جاتا ہے کہ امام منبر سے جب اتر جائے تب مصلی کھڑے ہوں مگر اس پر عمل کرنے کی وجہ سے یہ قوی اندیشہ رہتا ہے کہ دوسرے لوگ آگے بڑھ کر اگلی صف میں ہم سے پہلے پہنچ جائینگے تو اس صورت میں کیا خطبہ ختم ہوتے ہی اٹھ کر اگلی صف کی طرف بڑھ سکتے ہیں ؟ عبدالماجد، ممبئی
باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: شریعت نے آداب ومستحبات کی رعایت کو بھی پسندیدہ اور اس کی خلاف ورزی ناپسندیدہ امر قرار دیا ہے۔ مسجد میں بطور خاص وقار اور سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی دھینگا مستی وغیرہ سے بچنا چاہئے۔ پہلی صف کی فضیلت مسلم مگر اصولاً یہ ان کا حق ہے جو پہلے سے آکر یہاں بیٹھ جائیں، البتہ صف بندی کے وقت کچھ جگہ خالی ہو تو جو قریب ہیں سنجیدگی کے ساتھ آگے چلے جائیں، بعد میں پہلی صف کے لئے نامناسب جد وجہد ایک لایعنی امر ہے لہٰذا صحیح طریقہ یہی ہے کہ جب امام منبر سے نیچے آجائے اور نمازی صفوں میں کھڑے ہونے لگیں تو جسے جہاں بآسانی جگہ ملے وہاں کھڑا ہوجائے، پھر اگر پہلی صف میں جگہ مل گئی تو اس کا نصیب تاہم جو پہلی صف کی فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں پہلے آکر وہاں بیٹھ جانا چاہئے واللہ۔ اعلم وعلمہ اتم
قرأت میں غلطی ہوجائے تو
اگر امام صاحب نماز میں قرات کے دوران ایسی غلطی کریں ، فاسقون کی جگہ فائزون پڑھ دیوے تو کیا نماز فاسد ہوجائے گی؟ سمیع اللہ، اتراکھنڈ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: نماز میں قرآن کریم کا صحیح طور سے پڑھنا مطلوب ہے۔ ہر لفظ کو صحیح مخرج سے حتی الامکان صفات کی رعایت کے ساتھ ادا کیا جائے لیکن عام طور سے عوام اس پر قادر نہیں ہوتے اس بناپر اس مسئلے میں قدرے گنجائش بھی ہے۔ فقہاء نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے اس کے مطابق تلفظ اور اعراب کی ایسی غلطی جس سے معنی میں کوئی فساد نہ پیدا ہو اس پر نماز کے فساد کا حکم نہ ہوگا۔ اگر چہ عام آدمی بھی اس کا مکلف ہے کہ صحیح قرآن پڑھنا سیکھے، ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ یا ایک کلمے کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ دیا تو اگر وہ الفاظ اور کلمات قرآن کریم میں دوسری جگہ موجود ہیں اور ان سے معنی میں تغیر فاحش پیدا نہیں ہوا تب بھی نماز فاسد نہ ہوگی لیکن جہاں معنی بالکل بدل جائیں جیسے کافرون کی جگہ مومنون اور فاسقون کی جگہ فائزون اس میں تغیر فاحش پیدا ہوجانے کی وجہ سے نماز فاسد قرار دی جائےگی البتہ اگر غلط پڑھنے کے بعد دوبارہ صحیح پڑھ لے تو نماز ہوجائےگی۔ ( کذا فی الہند یہ ) واللہ اعلم وعلمہ اتم
سری نمازوں میں جہر کا حکم
اگر کوئی شخص سری نماز میں مثال کے طور پر عصر کی نماز میں صرف الحمد لله رب کہے تو کیا سجدۂ سہو لازم ہوگا؟
عبدالرحمٰن، بھیونڈی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: جن نمازوں میں جہر یعنی بآواز بلند قرأت کاحکم ہے ان میں جہر اور جن میں سر یعنی آہستہ قرأت کا حکم ہے ان میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ سہواً اس کی خلاف ورزی کی صورت میں سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے اور سجدۂ سہو نہ کیا جائے تو نماز ناقص شمار ہوتی ہے۔ سجدۂ سہو کتنے جہریا سر پر واجب ہوتا ہے اس کی مقدار ہے ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں جسے فقہاء قدر مایجوز بہ الصلاة سے تعبیر کرتے ہیں۔ کسی نے جہری نماز میں سرا اس سے کم پڑھا یا سری نماز میں جہرا اس سے کم پڑھا تو اس پر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا لہذا اگر سری نماز میں صرف الحمد للہ رب جہرا پڑھا ہو تو سجدہ سہو لازم نہ ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
شادی کے لئے زکوٰۃ کی رقم
ایک آدمی بہت زیادہ قرضدار ہے، اس کے پاس اور کمانے والے بھی ہیں لیکن قرضہ سے نہیں نمٹ پا رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے۔ اگر کوئی آدمی اس کو زکوٰۃ کا پیسہ دے تو کیا وہ یہ رقم استعمال کرسکتا ہے؟ ظفر اقبال، بہار
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: جس کے پاس بقدر نصاب سونا چاندی، نقد رقم یا مال تجارت ہو وہ صاحب نصاب کہلاتا ہے اور اس پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے۔ اگر وہ مقروض ہے تو دیکھا جائےگا کہ قرض کی ادائیگی کے بعد بقدر نصاب مال باقی رہتا ہے یا نہیں۔ اگر قرض کی رقم وضع کرنے کے بعد بھی اتنا مال باقی رہتا ہے جو بقدر نصاب ہو تو اس پر باقی مال کی زکوٰۃ واجب ہوگی اس لئے وہ مستحق زکوٰۃ نہ ہوگا لیکن قرض اتنا زیادہ ہے کہ اسے وضع کرنے کے بعد کچھ بھی نہیں بچتا یا جو بچتاہے وہ نصاب سے کم ہے تو صاحب نصاب نہ ہوگا اور اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر قرض واقعی اتنا زیادہ ہے تو اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
وراثت کے مسائل
میرے چچا لاولد تھے۔ ان کے بڑے بھائی اور دو بہنیں تھیں جن کا انتقال ان کی زندگی میں ہو گیا تھا۔ چچی کا انتقال بھی ان کی حیات میں ہی ہو گیا تھا۔ چچا کے بڑے بھائی کے چار لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ درج بالا مسئلے میں میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ کیا اس میراث میں چچا کی بہنوں کی اولادوں کا بھی حصہ ہوگانیزاس میراث میں بڑے بھائی کی لڑکیوں کا بھی حصہ ہوگا؟ اس سلسلے میں ایک سوال اور ہے کہ میری والدہ کے چار لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں جن میں سے دو لڑکے اور ایک لڑکی کا انتقال میری والدہ کی زندگی میں ہو گیا تھا۔ اس مسئلے میں میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ عبداللہ، مرادآباد
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: مرحوم کے تمام بہن بھائی اور ان کی اہلیہ کا انتقال مرحوم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا تواگر بھائی کی اولاد نرینہ ہو تو عصبہ ہونے کی بنا پر یہ تمام بھتیجے وارث ہوں گے۔ اگر چار بھتیجے ہوں تو حقوق متقدمہ کے بعد ترکہ کی تقسیم چار سہام سے ہوگی لہٰذا ہر لڑکے کو ایک ایک حصہ ملےگا ؛ بھتیجیاں ذوی الارحام میں سے ہیں، یہ اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ نہیں بنتیں اس لئے صورت مسئولہ میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ بہنوں کی اولاد بھی ذوی الارحام میں سے ہے اس لئے عصبات کی موجودگی میں ان کا بھی ترکہ میں کوئی استحقاق نہیں۔ (۲)آپ کی والدہ کی جو اولاد ان کی وفات کے وقت موجود ہوگی وہی ان کی شرعی وارث ہوگی لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کہ ایک لڑکی اور دو لڑکے ان کی زندگی ہی میں انتقال کرچکے ہیں اور صرف دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں ان کی وفات کے وقت حیات ہیں، اس صورت میں ترکہ نو سہام میں منقسم ہوکر ایک ایک ہر لڑکی کو اور دو دو ہر لڑکے کو ملے گا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم