’تعلق بالقرآن کی جمالـیاتی اساس‘‘ بظاہر غیر دلچسپ اور خشک موضوع معلوم ہوتا ہو مگر اس پر غور کیا جائے تو دل کو چھونے والے بڑے عمدہ پہلو سامنے آتے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 16, 2025, 5:01 PM IST | Abdul Haseeb Bhatkar | Mumbai
’تعلق بالقرآن کی جمالـیاتی اساس‘‘ بظاہر غیر دلچسپ اور خشک موضوع معلوم ہوتا ہو مگر اس پر غور کیا جائے تو دل کو چھونے والے بڑے عمدہ پہلو سامنے آتے ہیں۔
’’جو چیز بھی اُس نے بنائی خوب ہی بنائی۔ ‘‘ (السجدہ:۷)
’’اُن میں تمہارے لئے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لئے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ ‘‘ (النحل:۶)
’’بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
(مسند احمد:۳۶۰۰)
’’قرآن اور جمالیاتی اساس‘‘ ایک اہم موضوع ہے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے جمالیات Aesthetic sense کیا ہے اورقرآن مجید کیوں اس کو اپنا حصہ بناتا ہے، اس پر تمہیداً کچھ باتیں عرض کروں گا۔
تصور جمال انسان کے اندر اِن چھ بنیادی تصورات میں سے ایک ہے جو اپنی بنیادمیں Innate (اندرون میں داخل) ہیں۔ اگر فلسفیانہ کانٹ کی اصطلاح میں کہا جائے تو یہ Innate ہیں اور مذہبی اصطلاح میں کہا جائے تو فطری ہیں۔ آپؐ نے فرمایا : بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ چونکہ انسان میں اللہ نے اپنی صفات کا پرتو ڈالا ہے اس لئے حسن و جمال کی ستائش انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جمالیات کا احساس یعنی خوبصورتی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی طرح انسان کے مقصد ِوجود کے حوالے سے حسن یا جمال کو دیکھیں تو سورہ ملک کی آیت’’وہی ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا کہ دیکھے تم میں کون حسین، خوبصورت عمل کرتا ہے‘‘ کی روشنی میں مولانا فاروق خان صاحبؒ فرماتے ہیں کہ اللہ ایمان والوں سے صرف نیک عمل نہیں بلکہ حسین عمل دیکھنا چاہتا ہے۔ الفاظ پر غور فرمائیے۔ نیک سے زیادہ حسین عمل۔ اسی لئے آپ دیکھیں کہ قرآن میں نیک عمل کے لئے حَسَنَۃٌ یا حَسَنَاتٌ کا لفظ کہیں اسم اور صفت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جس میں حَسَنَۃٌ کہیں ظاہری حسن تو کہیں ظاہری اور باطنی حسن دونوں کیلئے آتا ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ نیکی ظاہری اور باطنی حسن کے بغیر ادھوری ہے یا جو لفظ جمال کے معنیٰ مفردات القرآن میں حسن ِ کثیر کے ہیں یعنی وہ خوبی جو نفس یا عمل میں پائی جائے وہ خوبی دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے، اسی پہلو سے اللہ جمیل ہے۔
خدا کے خیر کثیرہ کا فیضان تمام مخلوقات کو پہنچتا ہے۔ انسان میں حسن کے احساس کو شعور میں منقلب ہونے کیلئے خارج کی دنیا اور اس سے حاصل ہونے والے تجربات ناگزیر ہیں۔ انسان جب عقل کی سرگرمی خارج کی دنیا میں انجام دیتا ہے تو فہم اور تصور پیدا ہوتے ہیں اور جب جمال ان تصورات کو اپنی مِلک میں لیتا ہے تو ان ادراکات کو حسنِ ذہنی اور حسنِ ادراک بناتا ہے۔ سورہ نور میں ام المومنین حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے میں مسلمانوں کا ایک گروہ شامل ہوا تو قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے: ’’ ایسا کیوں نہیں ہواکہ تم کہتے یہ ایک بہتانِ عظیم ہے۔ ‘‘ دیکھئے کس طرح قرآن نے خارج کی دُنیا میں ہونے والے واقعہ سے پیدا ہونے والے خیال یا ظن کو حسنِ ظن میں تبدیل کیا ہے!
دور جدید نے Perception میں شک کو پہلی بنیاد بنایا ہے جو بدظنی پیدا کرتا ہے مگر قرآن جمالیاتی ذوق پیدا کرکے اعتماد اور حسنِ ظن کو پہلی بنیاد بناتا ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھیں تودورِ جدید کی منطق نے علم کو تصور کہہ کر خارج سے تصدیق پانے کے بعداسے علم کہا ہے یہ تعریف بہت تخریبی ہے۔ اسے اپنانے کی وجہ سے ہمارا پورا وجود حیوانی بن کررہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں ذوق بالکل آخر دم پر رہ گیا ہے اور شعور بھی رینگنے والا کیڑا بن گیا ہے۔ یہ صرف جمالیات ہے جو باہر کی دنیا کو اندر کی دنیا سے معنٰی دیتا ہے اور اندر کی دنیا باہر کی دنیا کو اس کی حقیقت فراہم کرتی ہے اس لئے جمالیاتی تناظر کے بغیر علم ناقص ہے۔ جمالیاتی ذوق یا شعور کی یہی خوبی ہے کہ وہ جب اخلاقی شعور کے ساتھ ملتا ہے تو اخلاق کوحس اخلاق میں بدل دیتا ہے۔ یہی شعور جب اعمال کے ساتھ ملتا ہے تو عمل کوحسنِ عمل میں بدل دیتا ہے اور یہی جمالیاتی احساس جب فنون لطیفہ یا فائن آرٹس کے ذریعہ اپنا اظہار کرتا ہے تب کلام کو حسنِ کلام میں اور آواز یا صوت کو حسنِ صوت میں بدل دیتا ہے اور انسان کے خیالات کو اچھے شعر میں ڈھال دیتا ہے اور مصور کا قلم ایک تصویر کھینچ دیتا ہے۔ فائن آرٹس، کرافٹ کے طور پر تو الگ چیزہے لیکن فنونِ لطیفہ انسان کی فطرت میں اس طرح راسخ یا ودیعت ہے کہ بچہ بھی چند لکیریں کھینچ کراپنی اس حِس کا اظہار کرتا ہے۔ آدمی میں سُر اور تا ل کی یہ آواز کہاں سے نکلتی ہے وہ نہیں جانتا لیکن کہیں اور نہیں تو غسل خانہ میں گنگنا ضرور لیتا ہے۔
اگرہم غور کریں تو انسانی ذہن کی جتنی Faculties ہیں اس کو قرآن نے لفظ میں قدرتِ ادا، حسنِ تعبیراور زورِ بیان سے اس طرح جمالیاتی تعلق پیدا کیا کہ ذہن کی تسکین خوبصورت یا بد صورت کے ذریعہ کی، عقلی ذہن کا اطمینان صحیح یا غلط کے فرق سے واضح کیا تو اخلاقی ذہن کو مفید اور غیر مفید کی تقسیم میں تسکین کی۔ تو مذہبی ذہن کو حق و باطل / حلال و حرام کے احکامات سے کی، وجودِ حیوانی Biobeing میں موجود جبلتوں کی Vitality کو صحیح رُخ عطا کیا۔ Sociobeing کے اعتبار سے انسانوں سے رشتوں ، تعلق اور کثرت میں وحدت کے اصول کی طرف رہنمائی کی گئی ہے اگر ہم غور کریں تو ذہن کی ہر فیکلٹی اپنی طرف انسان کے فیصلوں کو متاثر کرتی ہے اور اس کے نتائج بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور یہ تمام فیکلٹیز میں اتفاقِ رائے پیدا ہو جائے تو یہ ذہانت کی کنجی ہے۔ انسان کو کسی بھی نقطۂ نظر پر پہنچنے کیلئے ان تمام زاویوں سے ذہن کو گزارنا ہوتا ہے تب جمالیات اسے اپنی تحویل میں لے کر دوسرے زاویوں میں رہ جانے والے نقص کو دور کرتی ہے۔ جمالیاتی ذوق کی تحویل کے بغیر Perception، معنی اور فیصلے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اگر کسی بھی علم و عمل سے حسن کو منہا کردیا جائے تو اس خلا ء کو منطق یا عقل سے نہیں بھرا جاسکتا اور انسانوں کے لئے اس میں کشش نہیں پیدا ہوگی۔ حاضر علم سے چھٹکارا پاکر نیا علم حاصل کرنا بہت پر لطف ہوتا ہے اگر ہم شخصیت کی تعمیر اٹھان کے ساتھ یا گہرائی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں تو جمالیاتی شعور کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جمالیات کو ایک اور پہلو سے دیکھیں تو کوئی بھی شئے اپنا وجود یا موجود ہونا ثابت کردے تب بھی ایک مزید وصف یا کوالیٹی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہے کشش۔ یہ کائنات اگر اپنے صانع یا بنانے والے کی طرف عقل کی رو سے دلیل ہے تو اس کا ایک جمالیاتی Perception بھی ہے جو ہمیں اپنے صانع کی طرف کھینچ لینے کا ذریعہ ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے’’ اللہ نے جو چیز بھی بنائی خوبصورت بنائی۔ ‘‘ دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے ’’ہم نے رونق دی آسماں کو اور ایک رونق ستارے ہیں۔ ‘‘ اس کائنات کو دیکھیں، اس میں جگہ جگہ حسین تصویر کشی ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ کو دیکھیں، انسانوں کو دیکھیں، ہر پہلو سے جائزہ لیں تنوع اور حسن پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں کی ہے حتیٰ کہ ایک موذی جانور سانپ کو دیکھیں، قدرت نے اپنی صناعی کا کیا بے مثل نمونہ اس کی کھال پر نقش کردیا ہے، آدمی حیران ہوجاتا ہے اور اس کے اندر ایک کشش پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے قرآن نازل کیا تو وہ سادہ نثر میں بھی کوئی کتاب نازل کرسکتا تھا لیکن قرآن کے ہر لفظ کے ساتھ مخصوص جمالیاتی تعلق پیدا کیا اور اس لفظ کو اتنی شدت کے ساتھ احساس بنا دیا کہ اس کے بعد جمالیاتی اظہار کے نمائندہ شاعروں کو اپنا شعری تخیل، اپنا شعری اظہار کمتر لگنے لگا۔ وہ سورہ کوثر نازل ہونے کے بعد خانۂ کعبہ سے اپنا کلام اتارنے پر مجبور ہوگئے۔ سید قطب شہید ـؒ نے قرآن کے فنی محاسن میں فرمایا: ’’نزولِ قرآن کے ابتدائی دور میں جب شریعت نازل نہیں ہوئی تھی، کوئی پیشین گوئی نہ تھی، اس وقت جس چیز نے مشرکین کو مسحور کیا وہ قرآن کا جمالیاتی اظہار اور توحید تھی جیسے ولید نے کہا ’’یہ ایک جادو ہے جو چلاآرہا ہے۔ ‘‘ دراصل جمالیات عقل کو شاداب رکھتی ہے اور تخلیقی ذہن پیدا کرتی ہے اور عقل کے حاصلات کو پرانا نہیں ہونے دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پرانا نہیں ہوتا ہے۔
بیشتر الہامی کتابوں کے ساتھ ہمیں یہی معاملہ نظر آتا ہے، زبور کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ سازوں کے ساتھ گائی جاتی تھی۔ آپ زبور کو نکالیں تو اس کے ہر حصہ پر لکھا ہوتا ہے کہ داؤد نے یہ مضمور بر مغنی کے فلاں ساز کے ساتھ گایا تھا اس لئے و ہ اس کو مؤثر کردیتا تھا اور یہ دراصل جمالیاتی Perception کی ناممکن، حد تک مکمل تسکین کا سامان تھا۔ اسی لئے کوئی مذہبی Discourseیعنی اسلام ہو یا غیر اسلام بلکہ مذہب کو ہٹادیں تو کوئی بڑا نظریاتی Discourseیا ایسی تھیوری یا ایسا اصول جس سے انسانی زندگی کے تمام اجزاء مکمل طور پر بیان ہوجائیں تب بھی وہ Discourse چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی جمالیاتی اساس نہ پیدا کرے تو وہ انسانوں کیلئے کشش نہیں پیدا کرے گا۔ اس لئے کوئی بھی پروگرام یا نظریہ جب تک جمالیاتی احساس نہیں رکھے گا اس میں اثر پذیری ہمیشہ کم رہے گی۔
ایک اور پہلو سے دیکھیں تو انسانی حسن دیکھنے اور محسوس کرنے کا صحیح ذوق قرآن ہی عطا کرتا ہے۔ دورجدید میں حسن جمال کی میزبانی ہماری جبلتوں کے حوالے کررکھی ہے اس لئے جمال کی تعبیر نے اپنے اظہار کو بدصورت اور غیر مفید بنا رکھاہے، جمال اخلاق کے بغیر ادھوا اور ناقص ہوتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک حسین چیز جبلت کو پیاس ودیعت کرتی ہے اور یہ پیاس ہماری روح کی تسکین کا سبب بنتی ہے۔ اگر ذہن یا جبلت میں تصادم پیدا کردیا جائے تو ذہن تو بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور جبلت پستی کی طرف لے جاتی ہے۔ جیت ہمیشہ جبلت یا پستی کی ہوگی۔ پستی کی کشش بلندی سے زیادہ ہوتی ہے۔ لوگ گرتے آسانی سے ہیں بلند مشکل سے ہوتے ہیں۔ (مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے)