Inquilab Logo Happiest Places to Work

کبھی سوچا ہے کہ گھر کیسا ہو، معاشرہ کیسا ہو اور اسلام ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟

Updated: August 16, 2025, 5:18 PM IST | Professor Abdul Qayyum

زندگی کے ہر موڑ پر اور عمر کے ہر دَور میں سیرت نبویؐ سے رہنمائی اشد ضروری ہے، اگر ہم اپنے معاشرہ کی تشکیل انہی خطوط پر کر پائیں جو ہمیں سیرت النبیؐ مہیا کرتے ہیں تو یقین جانئے کہ ہمارا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

Obedience to the Holy Prophet (PBUH) is obedience to Allah Almighty, and guidance and guidance is attained only through obedience to him. Photo: INN
آنحضرت ﷺ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور صرف آپؐ کی اطاعت و فرمانبرداری سے ہدایت و رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ تصویر: آئی این این

سیدالمرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، احمدمجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی جامع الصفات ذات بابرکات کو اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کیلئے مکمل اسوہ اور پاکیزہ نمونہ قرار دیا ہے: ’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسولؐ اﷲ (کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔ ‘‘  
(الاحزاب:۲۱)
  آنحضرت ﷺ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور صرف آپؐ کی اطاعت و فرمانبرداری سے ہدایت و رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ آپؐ کے بغیر اعلیٰ اخلاق اور عمدہ کردار کا تصور پیدا نہیں ہوسکتا۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کے مکارم اخلاق اور اوصاف حمیدہ کی بدولت بنی نوع انسان کو اخلاقی روشنی اور روحانی نور میسر آسکتا ہے اور یہی مفہوم قرآن مجید کے اس اعلان کا ہے: ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ۔ ‘‘ (القلم:۴) یہ حقیقت بھی جانی بوجھی ہے کہ آپؐ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل و تتمیم بھی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اور عمر کے ہر دور میں آپؐ کی سیرت ِ طیبہ سے رہنمائی اشد ضروری ہے۔ انفرادی اور اجتماعی، معاشی اور سیاسی، ملی اورمعاشرتی، فوجی اور شہری ہر قسم کے معاملات و مسائل میں سیرت النبی ؐ ہمارے لئے چراغ راہ ہے۔ 
 اگر ہم اپنے معاشرہ کی تشکیل انہی خطوط پر کر پائیں جو ہمیں سیرت النبیؐ مہیا کرتے ہیں تو ہمارا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے اور ہر شخص کو سکونِ قلب میسر آسکتا ہے اور عدم اطمینان اور عدمِ اعتماد کی موجودہ فضا ختم ہوسکتی ہے۔ انفرادی بے چینی، اجتماعی اضطراب اور عدم تحفظ کا احساس اس وقت تک ہمارے اعصاب پر برابر سوار رہے گا جب تک ہم سرکار دو عالم، رحمۃ للعالمین ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور سیرت ِ طیبہ ؐ کو اپنی ذات پر اور اپنے معاشرہ میں نافذ اور ہر صورت میں لازم نہیں کرلیتے۔ 
  معاشرہ کا نقطۂ آغاز گھر ہے اور گھر سے معاشرے کی تشکیل کا عمل شروع ہوتا ہے۔ گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے، وہ ایک شوہر ہے جو اپنی رفیقۂ حیات کی عزت و آبرو اور عفت و عصمت کا پاسبان ہے، وہ ایک بیٹا ہے جو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہے اور ان کے بڑھاپے کا سہارا اور ان کی اُمیدوں کا آسرا ہے، وہ ایک باپ ہے جو اپنی اولاد کا کفیل و ضامن، ان کی تعلیم و تربیت کا نگراں اور ان کے دین اور عقیدے کا محافظ اور مربی و معلم ہے۔ 
  اولاد سے محبت و الفت ایک فطری تقاضا ہے لیکن رحمۃ للعالمینؐ نے اس فطری تقاضے میں جو حسن اور دلفریبی پیدا کردی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ پیکر رافت و رحمت ﷺ محبت و شفقت سے محبوب نواسے حضرت حسنؓ کا منہ چوم رہے تھے۔ حضرت اقرع بن حابسؓ تمیمی پاس بیٹھے تھے۔ بنوتمیم کے اس سردار نے یہ دیکھ کر تعجب سے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میرے دس بیٹے ہیں ، میں نے تو کبھی کسی کو اس قسم کا پیار نہیں دیا اور نہ کسی کا منہ چوما ہے۔ رحمۃ للعالمینؐ نے فرمایا: ’’مَنْ لا يَرْحَمُ لا يُرْحَمُ‘‘ (جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ) (بخاری) آپؐ نے اس مختصر جواب میں محبت و شفقت کا فلسفہ بیان فرمادیا اور بڑے لطیف انداز میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ اپنی اولاد سے محبت و شفقت رحمت کی علامت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی اور رحمتوں کے حصول کا ایک بہانہ اور ذریعہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں آپؐ نے بچوں کی جسمانی اور روحانی تعلیم و تربیت کے بدلے میں جنت کی بشارت بھی دی ہے۔ 
  گھر میں امن و سکون کا ماحول پیدا کرنے کیلئے لازم اور ضروری ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات نہایت خوشگوار ہوں ۔ وہ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے مزاج شناس ہوں ۔ شوہر کی ذمے داریاں زیادہ ہیں ۔ وہ اپنی رفیقۂ حیات کے ناموس و عزت کا پاسبان اور اس کے مال و جان کا محافظ ہے۔ اس لئے بیوی کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ قدر شناسی کا ثبوت دے اور شوہر کی دلداری اور خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ شوہر کو یہ اعلانِ نبویؐ سنایا گیا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہت اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کیلئے تم سب سے اچھا ہوں ۔ اس ایک جملے میں آپؐ نے گھریلو امن و سکون کا پورا فلسفہ بیان فرمادیا ہے۔ 
  گھریلو مسائل میں سے ایک مسئلہ بزرگوں اور خوردوں کے باہمی تعلقات کا ہے۔ یہ بھی ایک نازک مسئلہ ہے۔ عام طور پر بڑے حضرات چھوٹوں سے خفا ہوجاتے ہیں اور چھوٹے تو ہوتے ہی چھوٹے ہیں ، وہ بدتمیزی پر اتر آتے ہیں اور عزت اور بے عزتی کا سوال ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کو رحمۃ للعالمینؐ نے بڑی عمدگی اور خوبی سے حل فرمایا کہ ہماری ملّی اور دینی روایت یہ ہے کہ بڑوں کا احترام بہرحال کیا جائے اور چھوٹوں پر شفقت و رحمت ہمارا دینی خُلق ہے۔ اگر ہم ان ارشاداتِ عالیہ کو مشعل راہ بنالیں ، بزرگ حضرات چھوٹوں سے محبت و شفقت سے پیش آئیں ، اُن پر رحم و کرم کی نظر رکھیں اور چھوٹے اپنے بزرگوں کا پورا پورا ادب و احترام کریں تو ہمارا گھر اور معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔ 
  اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر توجہ نہ ہو ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہر طبقے کے والدین کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم و ہنر سے آراستہ ہوکر سکھ، چین اور عزت و آبرو کی زندگی بسر کرے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے اور یہ بات تو ہم میں سے اکثر کے مشاہدے میں آئی ہوگی کہ ایک نہایت غریب اور فقیر کا بیٹا اپنی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بڑی سے بڑی کرسی کی رونق بنا۔ یہی صورت خواتین میں نظر آتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل مسئلہ اولاد کی تعلیم و تربیت کا نہیں اس لئے کہ یہ مسئلہ شفقت پدری اور مہر مادری کے طفیل خودبخود حل ہوجاتا ہے۔ دراصل مسئلہ ماں باپ کی دیکھ بھال، ان کی ضرورتوں کا خیال اور ان کی آسائش و سہولت کے اہتمام کا ہے۔ 
  جب انسان جوان ہوکر عائلی زندگی بسر کرنے لگتا ہے تو اہل و عیال اور بیوی بچوں کی ضروریات اُسے پریشان کرنے لگتی ہیں ۔ پہلے اس کی توجہ اور محبت کا محور و مرکز والدین تھے۔ اب اواد اور رفیقۂ حیات پر اس کی توجہ اور محبت مرکوز ہوجاتی ہے۔ ایک والد کسی نہ کسی صورت میں اپنے چھ سات بچوں کی کفالت کا بوجھ خندہ پیشانی سے اٹھاتا ہے، دن رات محنت و مشقت کرکے انہیں پروان چڑھاتا ہے لیکن پانچ چھ بچے ماں باپ کی کفالت کو اپنے لئے بوجھ تصور کرتے ہیں ۔ والدین کی قربانی اور ایثار کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں ۔ ان حالات سے معاشرے میں بددلی، عدم اعتماد، احسان فراموشی اور بے مروتی کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ اس صورت ِ حال کا سدباب کرنے کیلئے قرآن مجید میں والدین سے حسن سلوک کرنے کی بڑی تاکید فرمائی گئی چنانچہ وبالوالدین احساناً کا درس دیا گیا۔ اس سے بھی ذرا آگے قدم بڑھایا اور فرمایا کہ ان کی دلجوئی اور دلداری کو ہر بات پر مقدم رکھا جائے یہاں تک کہ عالم پیری میں ان کے ناگوار طرز عمل کو بھی خندہ پیشانی سے گوارا کیا جائے۔ ان سے نرمی سے بات کی جائے، ان کے سامنے اونچی آواز سے بولنےسے منع کردیا، ترش روئی سے پیش آنے سے روک دیا اور ان کے لئے دل آزار کلمات کے استعمال کی ممانعت کردی۔ فرمایا: ’’انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ ‘‘ (الاسراء:۲۳) 
 بات یہیں ختم نہیں کردی گئی۔ والدین کی نافرمانی سے سختی سے روکا گیا۔ رحمت ِ عالم ﷺ نے والدین کی نافرمانی یعنی حقوق الوالدین کو اکبرالکبائر میں شمار کیا ہے۔ اکبرالکبائر میں پہلا درجہ الاشراک باللہ کا اور اس کے بعد حقوق الوالدین یعنی والدین کی نافرمانی اور مخالفت کا ہے۔ 
 والدین سے نیکی کرنے کی تاکید کے سلسلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت مشہور ہے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! کون سا عمل افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بروقت نماز ادا کرنا۔ عرض کیا، پھر؟ آپؐ نے فرمایا: والدین سے نیک سلوک کرنا۔ 
 گھریلو امن و سکون اور ذہنی آسائش اور قلبی اطمینان اس بات پر منحصر ہے کہ بوڑھے والدین کی دیکھ بھال اور خدمت میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہ ہونے پائے۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ صلہ رحمی کے نتیجے میں رزق میں فراخی اور کشائش ہوتی ہے اور عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
 ’’جو اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز کر دی جائے، اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کیا کرے۔ ‘‘ ( صحیح بخاری)
 معاشرہ کے عناصر ترکیبی میں دوسرے درجے پر ہمسائے اور پڑوسی آتے ہیں ۔ گھر کے اندر پرسکون فضا اور پرامن ماحول پیدا کرنے کے بعد رحمۃ للعالمینؐ چاہتے ہیں کہ گھر کے باہر بھی ایسا ہی خوشگوار اور دل پسند ماحول پیدا ہوجائے تاکہ معاشرے کا ہر عنصر خوشگوار زندگی بسر کرسکے۔ امت کا غم کھانے والے سیدالمرسلین خاتم النبیین ؐ کو ہر فرد کا کتنا خیال تھا اور ہماری بہبودی کتنی عزیز تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ، رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ حضرت جبریل ؑ مجھےہمسایوں کے بارے میں مسلسل اور پیہم وصیت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ ہمسائے کو بھی وارثوں میں شامل کرلیا جائے گا۔ (بخاری) 
 آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرے۔ آپؐ نے پڑوسی کے حقوق میں یہ بات بھی شامل فرما دی اور اتنی تاکید کے ساتھ کہ تین مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ وہ شخص مومن کہلانے کا قطعاً حق نہیں رکھتا جس کا پڑوسی اس کے غیظ وغضب، مکر و فریب اور ایذا و تکلیف سے محفوظ نہیں ۔ (متفق علیہ) معاشرتی روابط کے سلسلے میں اس سے بہتر تعلیم و تربیت کہیں او رمل سکتی ہے؟ 
 ہمارے ہادی و رہنما تو رحمۃ للعالمین ؐ ہیں ۔ آپؐ کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا کہ ایک مکان کے باسی تو پیٹ بھر کر کھائیں اور رات بھر خوب مزے سے سوئیں اور ساتھ والے مکان میں رہنے والے بھوکے ہی رات بسر کریں ۔ آپؐ نے اس صورت ِ حال کو اسلام اور ایمان کے سراسر منافی قرار دیا۔ فرمایا ’’جس کا پڑوسی رات کو بھوک رہا وہ ایمان کی دولت سے محروم ہوگیا۔ ‘‘  (بخاری) 
 یہ چونکا دینے والا فرمانِ نبویؐ ہمارے لئے تازیانۂ عبرت ہے۔ معاشرہ کی حالت سنوارنے اور ایک دوسرے کا دم بھرنے اور ضرورتوں کا خیال رکھنے کیلئے اس سے زیادہ سخت حکم کیا ہوسکتا ہے؟ یہ تو پیٹ کے تقاضے پورے کرنے کے سلسلے میں فرمایا، دوسری حدیث میں ہمسایوں کے جذبات اور احساسات کا خیال ر کھنے کیلئے آپؐ نے یوں رہنمائی فرمائی کہ سالن اور کھانا پکاتے وقت ہمسایوں کو نظرانداز نہ کرو، کچھ انہیں بھی بھیج دو۔ گنجائش نکالنے کیلئے سالن میں پانی زیادہ ڈالنے کی ترغیب بھی دلائی اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ہمسائے کو کچھ بھیجنے کا ارادہ نہیں تو پھر کوشش کرو کہ ہنڈیا اور کھانوں کی خوشبو ہمسائے کے گھر تک نہ جانے پائے۔ ایک حدیث میں یہ تلقین فرمائی کہ جب گھر میں کوئی پھل وغیرہ لاؤ تو ہمسائے کو بھی شریک کرو اور اس کے بچوں کیلئے بھی کچھ پھل بھیج دو۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر پھل کے چھلکے وغیرہ گھر کے اندر رکھو، باہر نہ پھینکو تاکہ غریب ہمسائے کے بچے چھلکے دیکھ کر ترسنے نہ لگ جائیں ۔ سبحان اللہ! انسانی جذبات کا احترام کس خوبی سے ملحوظ خاطر ہے۔ بظاہر یہ چھوٹی باتیں نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں اعلیٰ اقدار اور بلند اخلاق کی بنیاد ہیں۔ (باقی آئندہ ہفتے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK