Inquilab Logo Happiest Places to Work

جب اللہ کا خوف دل میں ہوتا ہے…

Updated: August 16, 2025, 5:26 PM IST | Maulana Muhammad Ahmed Pratapgarhi | Mumbai

ہمارا دین ہر طرح کامل ہوچکا ہے اور اس کے تمام شعبوں کی تکمیل ہوچکی ہے۔ عقائد، عبادات، معاشرت، معاملات اور اخلاق، دین کے یہ پانچ اہم جز ہیں اور شریعت میں جس طرح عقائد و عبادات کی اہمیت ہے اسی طرح معاملات کی صفائی کا بھی اہتمام ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی خصوصی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ہمارا دین ہر طرح کامل ہوچکا ہے اور اس کے تمام شعبوں کی تکمیل ہوچکی ہے۔ عقائد، عبادات، معاشرت، معاملات اور اخلاق، دین کے یہ پانچ اہم جز ہیں اور شریعت میں جس طرح عقائد و عبادات کی اہمیت ہے اسی طرح معاملات کی صفائی کا بھی اہتمام ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی خصوصی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ اگر کسی نے چھ (۶) رتی مال دوسرے کا ناجائز طریقے سے لے لیا یا غصب کرلیا تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز سات سو نمازیں چھین کر صاحب ِ حق کو ادا کردیں گے۔ معاملات میں صفائی بڑی زبردست چیز ہے، اس لئے لازم ہے کہ ہمارے آپس کے معاملات شریعت کے مطابق ہوں۔ نہ ہم کسی کا حق ماریں نہ کسی کا مال بغیر اجازت صرف کریں اور اس کا اہتمام اسی وقت ہوسکے گا جب اللہ کا خوف دل میں ہو۔ اصل چیز خوف ِ خدا ہے۔ جب اللہ کا خوف دل میں ہوتا ہے تبھی معاملات کی صفائی کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور اخلاق و معاشرت کو درست کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ 
  اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت جب دل میں آجاتی ہے تو آدمی کے لئے جان و مال سب کچھ قربان کردینا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ محبت ہی کا کرشمہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے سب کچھ قربان کردیا۔ ہم ان کے حالات میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ کیسے تھے اور ان کا مقام کیا تھا؟ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے سب کچھ قربان کردیا اور حقیقی محبت کا نمونہ پیش کردیا۔ محبت تو محبوب کی مرضی پر مرمٹنے کا نام ہے جس کا اصلی رنگ صحابہ کرام ؓ ہی نے پیش کیا ہے۔ مسلمان کی اصلی شان کیا ہونی چاہئے؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پیش نظر رکھئے۔ اللہ تعالیٰ حضور اقدس ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
 ’’فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (جمیع مخلوقات میں ) سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ ‘‘ (الانعام: ۱۶۲۔ ۱۶۳)
 مسلمان وہی ہے جو اللہ ہی کے لئے جئے اور اللہ ہی کے لئے مرے، من مانی زندگی چھوڑ دے، اللہ کا خوف پیدا کرے، اللہ کا ذکر کرے اور اللہ کی محبت قلب میں پیدا کرے۔ جانتے ہیں یہ سب چیزیں کہاں سے حاصل ہوں گی اور یہ دولت کہاں ملے گی؟ اللہ والوں کے پاس جانے سے اور اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے سے یہ سب کچھ حاصل ہوگا۔ بزرگان دین کی صحبت کیمیائی اثر رکھتی ہے، اسی بنا پر اکابر علماء، بزرگان دین کے پاس جاتے تھے اور اپنے قلوب کا علاج کراتے تھے اور شفا پا جاتے تھے۔ ان کے قلوب پاک و صاف ہوجاتےتھے۔ وہ اللہ والے ہوجاتے تھے اور اللہ کے دوست بن جاتے تھے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے دلو ں میں جو امراض ہیں ان کی ہم فکر کریں اور اللہ والوں کے پاس جا کر ان کا علاج کریں۔ آپ جانتے ہیں اللہ کے اولیاء کون ہیں ؟ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں :
 ’’خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے، (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے، ان کے لئے دُنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حسن ِمطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔ ‘‘ (یونس: ۶۲؍ تا ۶۴)
  اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے اولیاء وہ لوگ ہیں جن کا ایمان کامل ہے، وہ اللہ سے ڈرتے ہیں، ان کی زندگی تقویٰ کی زندگی ہے، کبائر (بڑے گناہ) سے بالکل اجتناب کرتے ہیں، صغائر (چھوٹے گناہ) سے بھی بچتے ہیں، اگر ان سے خطا ہوجاتی ہے تو سچی توبہ کرتے ہیں، اللہ سے معافی مانگتے ہیں، روتے اور گڑگڑاتے ہیں۔ 
 توبہ کی حقیقت کیا ہے؟ اس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں، حالانکہ توبہ کی منزل بڑی سخت منزل ہے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ جیسے بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے توبہ کی گھاٹی کو بہت سخت پایا۔ سچی توبہ بہت مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کے بعد اپنی زندگی کو تبدیل کردے، عمل صالح اختیار کرے، اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے اور اپنی نظر کو، اپنی پسند کو، اپنی رائے کو چھوڑ دے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کا خوف اپنے دل کے اندر پیدا کرے، تھوڑا وقت نکال کر کبھی کبھی کسی اللہ والے کی مجلس میں جائے، ان کی صحبت میں بیٹھے، پھر خود ہی دیکھ لے کہ اس کے دل کی دنیا بدلی ہے یا نہیں ؟ آج ہمارے دل میں آخرت کا یقین نہیں، خدا کے سامنے پیشی کا استحضار نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں :
 ’’اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ‘‘  (الحشر:۱۸)
 یہ صرف زبان سے کہنے سننے کے لئے نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ کیفیت اور حال طاری ہوجائے کہ اللہ کے سامنے جانا اور اس زندگی کا جواب دینا ہے۔ ہم کچھ نیکی کرلیں، قیامت میں نیکیاں ہی کام آئیں گی اور کوئی چیز کام نہ آئے گی، اوامر کی پابندی اور نواہی سے اجتناب، یہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت ہے اور ایمان والوں کو بھی اسی کا حکم ہے۔ (روح البیان)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK