Inquilab Logo

غزہ کی ناکہ بندی کے پندرہ سال

Updated: June 29, 2022, 11:15 AM IST | Pravez Hafeez | Mumbai

غزہ کی ناکہ بندی کا سب سے خراب اثر بچوں پرپڑا ہے جن کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ سیو دی چلڈرن نام کے بین الاقوامی ادارے کے ایک حالیہ سروے میں یہ المناک حقیقت سامنے آئی کہ غزہ کے ۸۰؍ فیصد بچے شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہیں اور پچاس فیصد بچوں کے ذہن میں کبھی نہ کبھی خودکشی کا خیال بھی آیا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ء۲۰۲۰ء کے اوائل میں کورونا نے لاک ڈاؤن جیسی نئی اصطلاح سے دنیا کو متعارف کروایا تھا۔عالمی وبا کو پھیلنے سے روکنے کی خاطر کہیں چند ہفتے تو کہیں چند ماہ تک نقل و حرکت پر عائد کردہ پابندی نے عام آدمی کی زندگی جہنم بنادی۔ اب آپ ذرا تصور کیجئے غزہ پٹی کے ان بیس لاکھ سے زیادہ باشندوں کی حالت زار کا جنہیں پچھلے پندرہ برسوں سے لاک ڈاؤن کا عذاب جھیلنا پڑرہا ہے اور جنہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ اس قید سے مستقبل قریب میں رہائی ممکن نہیں ہے۔ بحیرۂ روم کے کنارے ۳۶۵؍ مربع کلو میٹر پر محیط غزہ کبھی ایک خوبصورت ساحلی شہر ہوا کرتا تھا۔لیکن طویل ناکہ بندی کے سبب اب اس کے گلے میں دنیا کی سب سے بڑی اوپن ائیر جیل کا طوق لٹک رہاہے۔   غزہ مصر کا علاقہ تھا جس پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔ لیکن ۲۰۰۵ء میں اسرائیلی حکومت نے وہاں تعینات فوج ہٹالی، غیر قانونی طور پر بسائے گئے آٹھ ہزار یہودیوں کو نکال لیا اور غزہ کے تسلط کے خاتمہ کااعلان کردیا لیکن اقوام متحدہ ابھی بھی غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقہ تصور کرتی ہے کیونکہ اس پورے علاقے پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔۲۰۰۶ءمیں جب غزہ میں پارلیمانی انتخابات کرائے گئے تو حماس کے ہاتھوں فتح پارٹی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل اورامریکہ اس غیر متوقع نتیجہ کیلئے تیار نہیں تھے۔حالانکہ بین الاقوامی آبزرورز کی نگرانی میں کرائے گئے یہ انتخابات بالکل صاف ستھرے تھے لیکن چونکہ اسرائیل اور امریکہ کے من پسندفلسطینی لیڈر محمود عباس کی پارٹی انتخاب ہارگئی اس لئے انہوں نے جمہوری طور پر منتخب کی گئی حماس (جسے وہ دہشت گرد تنظیم سمجھتے تھے) کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد پر روک لگا دی۔    حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد تل ابیب نے غزہ کو دشمن علاقہ قرار دے کر جون ۲۰۰۷ء میں اس پر شدید ترین پابندیاں عائد کرکے اس کی مکمل ناکہ بندی کردی۔غزہ میں ایک ائیر پورٹ بھی ہوا کرتا تھا جسے بیس سال قبل اسرائیل نے بمباری کرکے تباہ کردیا تھا۔ فضائی رابطہ پہلے ہی سے منقطع تھا،اب غزہ کا باقی دنیا سے سڑ ک اور سمندر سے بھی رابطہ کاٹ کر رکھ دیا گیا اورانسانوں اور سرو سامان کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی لگادی گئی۔  صہیونی طاقتوں نے بیس اکیس لاکھ فلسطینیوں کو پندرہ برسوں سے ساری دنیا سے الگ تھلگ کرکے رکھ دیا ہے۔اس ظالمانہ ناکہ بندی کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں فلسطینی باشندے صرف باقی دنیا سے ہی نہیں بلکہ مغربی کنارہ میں رہائش پذیر اپنے فلسطینی بھائیوں سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں۔ حماس کو اقتدار سونپنے کی وجہ سے غزہ کے عوام کو اس جان لیوا ناکہ بندی کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے اکیس لاکھ لوگ جن میں سے نصف کے قریب پندرہ سال سے کم عمر کے بچے ہیں،پانی، غذا، بجلی اور دواؤں کی مستقل فراہمی کے بغیر ہر روز اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے مجبور ہیں۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے مطابق غزہ  کے ۸۰؍  فیصد باشندوں کو چوبیس گھنٹوں میں محض آٹھ سے دس گھنٹوں کے لئے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔حماس کی انتخابی فتح کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے بمباری کرکے غزہ کے طاقتور پاور پلانٹ کو تباہ کردیا تھا تب سے بجلی کی یہ قلت جاری ہے۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے مطابق ۹۴؍فیصد  غزہ کے باشندوں کا خیال ہے کہ بجلی کی قلت ان کی دماغی صحت پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے۔ طویل اسرائیلی محاصرے نے غزہ کی معیشت مکمل طور پر تباہ کردی ہے۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق آج غزہ  کے ۶۰؍فیصد باشندے خط افلاس کے نیچے رہتے ہیں اور ۸۰؍فیصد فلسطینیوں کا گذارہ بین الاقوامی امداد پر ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ اگر ناکہ بندی عائد نہیں کی گئی ہوتی تو غزہ میں غریبی کی شرح ۶۰؍ فیصد نہیں۱۵؍فیصدہوتی۔ ۲۰۲۰ء میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ناکہ بندی کی جو معاشی قیمت غزہ کو ادا کرنا پڑی ہے وہ ۱۷؍  ارب ڈالر کے قریب ہے۔شہر میں کل کارخانے اور تعمیرات مکمل طور پر ٹھپ پڑجانے کی وجہ سے نصف آبادی روزگار کے ذرائع سے محروم ہوچکی ہے۔ جابرانہ اسرائیلی احکامات کی وجہ سے غزہ کے کسان اپنے کھیتوں میں کاشت کاری اور مچھیرے سمندر میں مچھلیوں کا شکار آزادنہ طور پر نہیں کرسکتے ہیں۔
  غزہ کی ناکہ بندی کا سب سے خراب اثر بچوں پرپڑا ہے جن کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ سیو دی چلڈرن نام کے بین الاقوامی ادارے کے ایک حالیہ سروے میں یہ المناک حقیقت سامنے آئی کہ غزہ  کے ۸۰؍ فیصد بچے شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہیں اور پچاس فیصد بچوں کے ذہن میں کبھی نہ کبھی خودکشی کا خیال بھی آیا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ان بچوں کے خوف،  اداسی، صدمہ اورپژمردگی کے احساسات میں اضافہ ہوا ہے۔  اسرائیل جغرافیائی،سیاسی اور اقتصادی ناکہ بندی سے غزہ کے باشندوں کو ملنے والی سزاکو ناکافی سمجھتا ہے اسی لئے دو تین سال میں ایک بار وہ اس کھلی جیل پر آسمان سے آگ کی بارش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔۲۰۰۸ء ،۲۰۱۲ء، ۲۰۱۴ء اور ۲۰۲۱ءکی جنگوں میں اسرائیلی فضائیہ کی اندھادھند بمباریوں میں غزہ میں سیکڑوں رہائشی مکانات کے ساتھ ساتھ ہسپتال، اسکول، پل اور سڑکیں بھی تباہ کردی گئیں۔ چونکہ تعمیراتی سازو سامان کے داخلے پر پابندی ہے اس لئے آج بھی غزہ میں جابجا منہدم عمارتوں کے ملبے بکھرے ہوئے ہیں۔برطانوی تنظیم کونسل فار عرب برٹش انڈرسٹینڈنگ کے ڈائریکٹر کرس ڈوئل غزہ کے انسانی المیے کے لئے حماس کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے حال میں کہا ہے کہ حماس کی حکومت ترقی پسند نہیں بلکہ استبدادی اور آمرانہ حکومت ہے اور اس کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی خراب ہے۔’’ غزہ کے لوگ حماس کی ناقص حکومت اور اسرائیل کی تباہ کن ناکہ بندی کی دوہری سزا بھگت رہے ہیں۔‘‘ سیو دی چلڈرن نے اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی اٹھانے اور فلسطین پر اسرائیلی تسلط ختم کرنے کیلئے فوری اقدام کرے۔ ناکہ بندی کے پندرہ سال مکمل ہونے پر آکسفیم انٹرنیشنل  نے جو غزہ کے محصور باشندوں کو امداد فراہم کرتاہے،سول سوسائٹی کے اشتراک سے’’غزہ کو کھول دو‘‘ نام کی ایک تحریک شروع کی ہے۔ آکسفم کا دعویٰ ہے کہ غزہ کے باشندے پندرہ برسوں سے جیسے غیر انسانی حالات میں جی رہے ہیں ان کا کوئی قانونی یااخلاقی جواز نہیں ہوسکتا ہے اسی لئے غزہ کا محاصرہ بلا شر ط فوراً ختم کیا جانا چاہئے۔n

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK