Inquilab Logo

غزہ میں ۷؍ لاکھ افراد بھکمری کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں: عالمی رپورٹ

Updated: April 26, 2024, 4:07 PM IST | Haigue

خوراک کے بحران پر عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا کے ۵۹؍ ممالک کے ۲۸۲؍ ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ تعداد جنگ زدہ غزہ میں سب سے زیادہ ہے۔ عالمی ادارے نےامداد کی کمی کو غذائی قلت کی بڑی وجہ بتائی۔

Palestinians can be seen struggling for Food. Image: X
غزہ میں فلسطینیوں کو بھوک کیلئے جدوجہد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر: ایکس

خوراک کے بحران پر عالمی رپورٹ کے مطابق، ۵۹؍ ممالک میں تقریباً ۲۸۲؍ ملین افراد نے گزشتہ سال  غذا کی کمی کا سامنا کیا تھا۔ جنگ زدہ غزہ وہ خطہ ہے جہاں لوگوںکی بڑی تعداد فاقہ کشی کرنے پر مجبو رہے۔ بدھ کو اقوام متحدہ ( یو این) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ۲۰۲۲ءکے مقابلے میں آج ۲۴؍ ملین زیادہ لوگوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں جنگ زدہ غزہ اور سوڈان قابل ذکر ہیں۔ خوراک کے بحران کے شکار ممالک کی تعداد کو بھی بڑھا دیا گیا ہے جن کی نگرانی کی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے معاشیات کے چیف میکسیمو ٹوریرو نے کہا کہ ۵؍ ممالک میں ۷؍ لاکھ ۵؍ ہزارافرادبھوک کے ۵؍ ویں مرحلے میں ہیں، جو کہ اعلیٰ ترین سطح ہے، جو بین الاقوامی ماہرین کے مطابق  ۲۰۱۶ءمیں عالمی رپورٹ شروع ہونے کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ۲۰۲۳ء ہیومن رائٹس رپورٹ: ہندوستان نے امریکی رپورٹ کو’’جانبدرانہ‘‘ قرار دیا

انہوں نے مزید بتایا کہ ’’بھوک کا سامنا کرنے والوں میں سے ۸۰؍ فیصد سے زیادہ یعنی ۷؍ لاکھ ۵۷؍ ہزارافراد غزہ میں ہیں۔ جنوبی سوڈان، برکینا فاسو، صومالیہ اور مالی میں سے ہر ایک کی نمائندگی کرنے والے ہزاروں افراد کو بھی تباہ کن بھوک کا سامنا ہے۔رپورٹ کے مستقبل کے نقطۂ نظر کے مطابق، غزہ میں تقریبا ۱۱؍ لاکھ افراد، جہاں اسرائیلی جارحیت  اپنے ۷؍ ویں مہینے میں ہے، اور جنوبی سوڈان میں ۷۹؍ ہزار افراد ۵؍ ویں مرحلے میں ہونے اور جولائی تک بھوک کا سامنا کرنے کا امکان ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ہیتی میں جاری تنازعے خوراک کی عدم تحفظ کو بھی جاری رکھے گا جہاں گینگ دارالحکومت کے بڑے حصے پر قابض ہے۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیوغطریس نے رپورٹ کو انسانی ناکامیوں کا شاخسانہ قرار دیا اور کہا کہ ’’دنیا میں بہت سارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ گزشتہ ۱۲؍مہینوں میںہونے والے  تنازعات نے سنگین عالمی صورتحال کو مزید پیچیدہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: مودی نے راہل گاندھی کو ’نامدار‘ اور خود کو ’کامدار‘ قراردیا

انہوں نے محصور غزہ میں تنازعے پر روشنی ڈالی کیونکہ محصور خطہ میں تباہ کن بھوک کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اس رپورٹ میں سوڈان کے سالہا سال پرانے تنازعے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں  بھوک اور غذائی قلت کے ظالمانہ اثرات کے سبب دنیا کا سب سے بڑا اندرونی نقل مکانی کا بحران ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ۳۹؍ممالک اور خطوں میں ۳۶؍ملین سے زائد افراد کو بھوک کی شدید ایمرجنسی کا سامنا ہے، جو کہ ۴؍ مرحلے میں قحط کی سطح سے ایک قدم نیچے ہیں۔ تاہم، سوڈان اور افغانستان میں اس قسم کی تعداد ایک تہائی سے زیادہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۲۲ءسےاس میں ایک ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو پی ایف) کے معاشیات کے سربراہ عارف حسین نے کہا کہ ۲۰۱۶کے بعد سے ہر سال ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو انتہائی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور یہ تعداد کورونا سے پہلے کی تعداد سے دوگنا ہیں۔
انتونیو غطریس نے رپورٹ کے نتائج پر فوری ردعمل کا مطالبہ کیا۔انہوں نے زور دیا کہ فنڈنگ بھی ضروریات کے مطابق نہیں ہو رہی ہے۔ ڈبلیو ایف پی کے چیف حسین نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ہمارے پاس امداد اور رسائی ہونی چاہئے ۔یہ دونوں چیزیں خوراک کے شدید عدم تحفظ سے نمٹنے کیلئے ضروری ہیں۔ ‘‘واضح رہے کہ یہ رپورٹ فوڈ سیکوریٹی انفارمیشن نیٹ ورک کی اہم ترین  اشاعت ہے جو ۱۶؍شراکت داروں کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے جن میں اقوام متحدہ کی ایجنسیاں، علاقائی اور کثیر القومی ادارے، یورپی یونین، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی، تکنیکی تنظیمیں اور دیگر شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK