Inquilab Logo

مسئلۂ فلسطین کا دو مملکتی حل ناگزیر ہے

Updated: April 26, 2024, 1:38 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

حماس نے امریکہ کو منافق اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ یہ غلط بھی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ فلسطین کو تقسیم کرنے کی قرار داد پاس کرسکتا ہے تو مملکت فلسطین کے قیام کی قرار داد کیوں نہیں پاس کرسکتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ابتدا میں  تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسرائیل اور ایران نہ صرف یہ کہ ایٹمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں  بلکہ ایک اور عالمی جنگ ناگزیر ہے مگر جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسرائیل کے فوجی ترجمان نے اعلان کیا کہ ۳۰۰؍ سے زائد ڈرون اور میزائیلیں  داغی گئیں  جن میں  سے ۹۹؍ فیصد کو ہوا میں  ہی ناکارہ بنا دیا گیا۔ مطلب یہ کہ ایرانی حملے سے اسرائیل کو بہت معمولی نقصان ہوا۔ جمعہ ۱۹؍ اپریل کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا، ۳؍ ڈرونز کو مار گرانے کی تصدیق تو ایران نے کی البتہ کسی کے مارے جانے یا ایٹمی تنصیبات میں  سے کسی کو نقصان پہنچنے کی سختی سے تردید کی۔ امریکی ذرائع نے بھی کہا کہ حملہ انتہائی محدود پیمانے پر کیا گیا تھا۔ عالمی ایٹمی ایجنسی نے بھی کہا ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات میں  سے کسی کو کوئی نقصان نہیں  ہے۔ یہ بات بھی محتاج تصدیق نہیں  رہ گئی ہے کہ اسرائیل اور ایران دونوں  ملکوں  نے کسی نہ کسی سطح پر امریکہ کو پیشگی اطلاع دیدی تھی کہ وہ حملہ کرنے والے ہیں ۔ ٹائمز آف انڈیا (ممبئی ۱۶؍ اپریل ۲۰۲۴ء) نے ’’ایران-ایک المیہ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اداریے میں  اس موقف کا اظہار کر دیا تھا کہ ایران جدید مغربی ایشیائی طاقت ہوسکتا تھا مگر غیر ملکی مداخلت اور آیت اللہ (صاحبان) نے اس کو تباہ کر دیا۔ یہ ٹائمز آف انڈیا کی رائے ہے جس سے اتفاق ضروری نہیں ، راقم الحروف ایران کے آیت اللہ صاحبان اور مذہبی قیادت کو اس ملک کے لئے مفید سمجھتا ہے۔ ان پر ایران کو تباہ کرنے کا الزام نہیں  لگایا جاسکتا، ہاں  ان کی ہر پالیسی کو فتویٰ بھی نہیں  سمجھا جاسکتا۔ اس سے اختلاف ممکن ہے۔
 اسی دن ٹائمز کے اسی صفحے پر سومناتھ مکھرجی کا بھی ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’نورا کشتی، ویسٹ ایشین اسٹائل‘‘ اور اس مضمون کی ضمنی سرخی میں  ہی یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ ایران کے حملے کے بعد تیل کی قیمتیں  گر گئیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ ایرانی امریکہ اور اسرائیل کے رابطے میں  تھے لہٰذا عالمی معاشی درد سر یا مندی کا امکان نہیں  ہے۔ ۱۶؍ اپریل کے ہی نوبھارت ٹائمز میں  رہیس سنگھ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں  انہوں  نے لکھا ہے کہ، ’’یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ اسرائیل اس (ایران کے) حملے کے لئے تیار تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں  کے حوالے سے بلوم برگ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایران اسرائیل کے اندر بیلسٹک میزائیل یا ڈرون سے حملہ کرسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیل کے میزائل شکن دفاعی نظام نے ۹۰؍ فیصد حملوں  کو ناکام بنا دیا۔ اس دوران ایسی خبریں  بھی گشت کرتی رہیں  کہ اسرائیل عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑچکا تھا مگر ایرانی حملے کے بعد اس کے پرانے ہمنوا دوبارہ اس کی طرف راغب ہو رہے ہیں  اور اب وہ عالمی سطح پر حلیف ممالک کی نئی صف بندی (گلوبل کولیشن) کے منصوبے کو کامیاب بنانے میں  لگا ہوا ہے۔ یہی بات کئی مضامین میں  بھی دہرائی گئی ہے۔
 اسی دوران الجزائر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں  جس کے ۱۵؍ اراکین ہیں  یہ قرار داد پیش کی تھی کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت عطا کی جائے۔ ۱۲؍ رکن ممالک نے قرار داد کے حق میں  ووٹ دیا۔ برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ نے ووٹنگ میں  حصہ نہیں  لیا مگر امریکہ نے اس قرار داد کو ویٹو کر دیا۔ روس، مصر، سعودی عرب، پاکستان اور فلسطین نے امریکہ کے ایسا کرنے کی سخت مذمت کی ہے مگر امریکہ کا موقف ہے کہ وہ دو مملکتی حل کے اپنے موقف پر اب بھی قائم ہے مگر اس کی سوچ یہ ہے کہ یہ کام دونوں  ملکوں  کی مذاکرات سے ہو، اقوام متحدہ کے ذریعہ نہیں ۔ حماس نے امریکہ کو منافق اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں  سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ یہ غلط بھی نہیں  ہے۔ اقوام متحدہ فلسطین کو تقسیم کرنے کی قرار داد پاس کرسکتا ہے تو مملکت فلسطین کے قیام کی قرار داد کیوں  نہیں  پاس کرسکتا۔ ۱۸؍ اپریل کے نوبھارت ٹائمز میں  انگلینڈ کے کنگس کالج میں  پروفیسر ہرش وی پنت نے بھی یہی لکھا ہے کہ ’’اسرائیل الگ تھلگ پڑتا جا رہا تھا اب وہ اپنے معاون ملکوں  کے ساتھ نئی پہل قدمی کرسکتا ہے۔‘‘
 اسرائیل اور اس کے ہمنوا تو ایک خاص منصوبے کے مطابق کام کر رہے ہیں  نظام قدرت بھی اپنا کام کر رہا ہے۔ بنیامین نیتن یاہو کے خلاف ایک طرف تو درون اسرائیل ہی نفرت اور احتجاج بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف چلی اور میکسیکو کے عالمی عدالت سے رجوع کرنے اور اس کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے سرگرم ہونے کے سبب عالمی فوجداری عدالت کے وارنٹ جاری کرنے اور نیتن یاہو کے گرفتار کئے جانے کا خطرہ بھی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے جنوبی افریقہ نے درخواست دی تھی کہ غزہ میں  اسرائیل کے ذریعہ قتل عام اور نسل کشی کئے جانے کی مکمل تفتیش کی جائے۔ مگر اسرائیل اور نیتن یاہو کے مغربی ہمنوا بھی پوری طرح سرگرم ہیں ۔ حیرت تو اس پر ہے کہ ایرانی ڈرون اور میزائیل کو مار گرانے والے ملکوں  میں  اردن کا بھی نام ہے۔ اس نے وضاحت کی ہے کہ اس کی فضاؤں  میں  مشتبہ پروازیں  نظر آئیں  تو اس نے انہیں  مار گرایا اس وضاحت کے باوجود ایران مخالف خیمے میں  اس کا نام شامل ہے۔ اسرائیل غزہ کو قبرستان بنانے اور یہاں  کے اسپتالوں  کو تباہ کرنے کے بعد غزہ سے مجبوراً بھاگ کر رفح کے پاس پناہ لینے والوں  پر بھی بمباری کر رہا ہے ایک ہی حملے میں  ۱۸؍ بچوں  کے شہید ہونے کی خبریں  شائع ہورہی ہیں ۔ فوری ضرورت یہ ہے کہ غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کو جو ضروریات زندگی کو ہی نہیں  ہوا اور پانی کو بھی ترس رہے ہیں  انسانی بنیادوں  پر امداد پہنچائی جائے۔ سعودی عرب اور جرمنی نے اس سمت میں  عملی پیش رفت کی ہے مگر امریکہ یہی نہیں  کہ فلسطینیوں  کے مفاد کے خلاف کام کررہا ہے بلکہ اس نے اسرائیل کو ۱۷؍ بلین ڈالر کی اضافی فوجی امداد دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ادھر روس ایران کو جدید ترین بمبار طیارہ دینے پر آمادہ ہوا ہے۔
 دوسری فوری ضرورت یہ ہے کہ فلسطین میں  مملکت فلسطین قائم کی جائے۔ روس، چین، پوپ اور ہندوستان تک اس کے داعی ہیں  مگر عملاً اس کی کوئی صورت نظر نہیں  آرہی ہے۔ دنیا اس حقیقت کو کیوں  نہیں  محسوس کرتی کہ امریکہ جس قسم کی مذاکرات پر اصرار کر رہا ہے دنیا اس کا حشر دیکھ رہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے مار مار کر عربوں  سے جس قسم کے معاہدوں  پر دستخط کروائے تھے وہ پائیدار امن کے ضامن ہو بھی نہیں  سکتے تھے۔ موجودہ جنگ اور غزہ کے لوگوں  کی قربانیوں  کا اتنا نتیجہ تو برآمد ہوا کہ اب دنیا مسئلۂ فلسطین کے پائیدار حل کی بات اور اسرائیلی یرغمالوں  کو رہا کرانے میں  اسرائیلی حکومت کی ناکامی کے خلاف خود اسرائیلی مظاہرے کر رہے ہیں ۔ عجب نہیں  کہ وہ دو مملکتی حل پر بھی اصرار کریں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK