Inquilab Logo Happiest Places to Work

ذات پر مبنی مردم شماری کا پہلا امتحان بہار کے اسمبلی انتخابات میں ہوگا

Updated: May 12, 2025, 1:31 PM IST | Shankar Arni Mesh | Mumbai

اپوزیشن کا مذاق اُڑاتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ ’’میرے لئے ہندوستان میں صرف۴؍ ذاتیں ہیں، خواتین، نوجوان، کسان اور غریب‘‘ اس طرح کا موقف دکھانے کے بعد ذات پرمبنی مردم شماری سے متعلق بی جے پی اپنے ’یوٹرن‘ کو کیا نام دے گی؟

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

۲۰۲۳ء میں تین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات جیتنے کے بعد، وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی میں بی جے پی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے، ذات پر مبنی مردم شماری کیلئے اپوزیشن کے دباؤ کا مذاق اڑایا تھا اور اسے ملک کو تقسیم کرنے کی ایک کوشش قرار دیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ’’میرے لئے ہندوستان میں صرف۴؍ ذاتیں ہیں، خواتین، نوجوان، کسان اور غریب۔ ‘‘ اس طرح کا موقف دکھانے کے بعد ذات پرمبنی مردم شماری پر مودی حکومت کی حالیہ تبدیلی نے اس کے سیاسی ارادے پر سوال اٹھائے ہیں۔ صرف مودی ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے تمام بڑے لیڈروں نے اس کی کھل کر مخالفت کی تھی اوراس مطالبے کو سماج کو تقسیم کرنے کی سازش کے طور پر پیش کیا تھا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دو قدم اور آگے بڑھ کر ہندو برادری کو متحد کرنے کیلئے ایک نفرت انگیز نعرہ’بٹو گے تو کٹوگے‘ دیا تھا۔ 
اس سے بھی پہلے ۲۰۲۱ءمیں مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں ذات پر مبنی مردم شماری کی کسی بھی تجویز کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ اب ایسے میں بی جے پی کی سیاسی امور کی کابینہ کمیٹی (سی سی پی اے) کی حالیہ میٹنگ کے بعد حکومت کے اس اعلان نے کہ آنے والی مردم شماری میں ذات پات کے اعداد و شمار کو شامل کیا جائے گا، لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ راہل گاندھی کے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے پر بی جے پی لیڈروں نےحکومت کے اس اعلان کو ’سرجیکل اسٹرائیک‘ قرار دیا ہے۔ 
لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ بی جے پی، جو ایک طویل عرصے سے اس معاملے پر تذبذب کا شکار تھی، نے اب ذات پات کی مردم شماری کرانے پر رضامندی کیوں ظاہر کی ہے؟ اس فیصلے سے بی جے پی کس سیاسی فائدے کی توقع کر رہی ہے؟ کیا یہ پسماندہ ذاتوں کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے ایک نئے دور کا اشاریہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا یہ سماج وادی پارٹی اورآر جے ڈی جیسی منڈل دور کی پارٹیوں کو اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گا؟
بی جے پی کی۲۰۱۴ء کی جیت کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے روایتی برہمن بنیا ووٹر کی بنیاد سے آگے بڑھ گئی تھی۔ سوشل انجینئرنگ کے ذریعے اس نے او بی سی، دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ ایک وسیع سماجی اتحاد بنالیا تھا۔ لیکن۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں، آئین میں تبدیلی کے خوف سے بہت سی پسماندہ ذاتیں بی جے پی کو چھوڑ کر ’انڈیا‘ اتحاد کے ساتھ چلی گئی تھیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور ہندوتوا پر بھروسہ کرنے کے باوجود، بی جے پی۳۰۳؍ سیٹوں سے گھٹ کر۲۴۰؍ پر آکر ٹھہر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ من مانی کرنے والی بی جےپی اس مرتبہ جنتا دل (متحدہ) اور تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) جیسے اتحادیوں پر منحصر ہوگئی۔ اتر پردیش میں، اکھلیش یادو کی تیز رفتار ’او بی سی۔ دلت ریاضی‘ نے مودی کو پیچھے چھوڑ دیا، جنہیں بی جے پی نے سب سے بڑے اوبی سی لیڈر کے طور پر پیش کیا تھا۔ بی جے پی کو راجستھان اور مہاراشٹر میں بھی بڑا جھٹکا لگا۔ 
اگرچہ بی جے پی نے ہریانہ، مہاراشٹرا اور دہلی کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن پارٹی کے اندرحکمت عملی بنانے والوں کو تشویش تھی۔ اسی درمیان کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس کے وزرائے اعلیٰ نے ذات پر مبنی سروے پر عمل درآمد شروع کر دیا تھا، جس سے بی جے پی کی او بی سی بنیاد کے ختم ہو جانے کا خطرہ لاحق تھا، جو پارٹی نے سوشل انجینئرنگ کے ذریعے بہت مشکل سے بنایا تھا۔ 
خیال رہے کہ آخری مرتبہ ملک گیر سطح پر ذات پرمبنی مردم شماری ۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے مردم شماری تو ہر ۱۰؍ سال پر ہوتی رہی لیکن ذاتوں کی گنتی نہیں کی گئی۔ ۲۰۱۱ء میں لالو پرساد یادو جیسے لیڈروں نے منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے پر ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کیلئے دباؤ ڈالا تھا اور پرنب مکھرجی کی قیادت میں وزراء کے ایک گروپ نے بھی اس کی سفارش کی تھی۔ ا س کے بعد حکومت نے سماجی و اقتصادی کے ساتھ ہی ذات کی مردم شماری کیلئے فیصلہ کیا تھا لیکن اس کے نتائج ظاہر نہیں کئے گئے اور بعد میں مودی حکومت نے اس رپورٹ کو عام نہیں کیا۔ ۲۰۲۴ء کے انتخابی نتائج ظاہر ہوئے تو بی جے پی کے پیروں تلے سے کافی زمین کھسک گئی تھی۔ اس نتیجے کے بعد بی جے پی کیلئے انتباہی علامات واضح ہو گئی تھیں۔ 
’سی ایس ڈی ایس‘ کے اعداد و شمار کے مطابق، بہار میں این ڈی اے نے کرمی اور کوئیری پر مشتمل او بی سی ووٹ کا۱۲؍ فیصد کھو دیا (۲۰۱۹ء کے مقابلے) جبکہ’ انڈیا‘ اتحاد نے ۹؍ فیصد کا فائدہ اٹھایا اور وہ بھی پوری طرح سے این ڈی اے کیقیمت پر۔ دیگر او بی سی ذاتوں میں، این ڈی اے کا نقصان۲۱؍ فیصد تھا۔ دُسادھ، پاسی اور جاٹو جیسے دلت گروپوں میں، این ڈی اے کو۱۹؍ فیصدکا نقصان ہوا، جبکہ انڈیا اتحاد کو۲۸؍ کا فائدہ ہوا۔ اتر پردیش میں، این ڈی اے نے کرمی، کوری ووٹوں میں سے۱۹؍ فیصد اور دیگر او بی سی کے۱۳؍ فیصد ووٹ گنوائے، جبکہ انڈیا اتحاد کو بالترتیب۲۰؍ اور۱۶؍ فیصدکا فائدہ ہوا۔ 
ان اعداد و شمار نے اس بات کی تصدیق کی کہ بی جے پی نے گزشتہ ایک دہائی میں جو سماجی اتحاد بنایا تھا، وہ ٹوٹنے لگا ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی ترتیب دینے والوں نے محسوس کیا کہ منڈل اور کمنڈل کی سیاست کو یکجا کرنا اب اختیاری نہیں رہا، بلکہ لازمی ہوگیا تھا، لہٰذا، ذات پر مبنی مردم شماری کی اجازت دینے کا فیصلہ بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل ایک حسابی سیاسی چال تھی۔ اس سے بہار میں این ڈی اے کو فائدہ ہونے کی امید ہے، جہاں جے ڈی (یو) کے نتیش کمار ذات پر مبنی سروے کرنے والے پہلے لیڈر تھے اور انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی) اور مہادلت کی خاطر ریزرویشن کیلئے زور دیتے تھے۔ ۴۳؍ فیصد ووٹ بینک کے ساتھ یہ ایک بڑا گروپ ہے جس کا فائدہ بی جے پی بھی اٹھانا چاہتی ہے۔ 
ذات پرمبنی مردم شماری کے ساتھ این ڈی اے خوش حال او بی سی گروپوں میں اپنی اپیل کو مضبوط کرنے کی امید رکھتا ہے – جن میں سے بہت سے لوگ خود کو پسماندہ محسوس کرتے ہیں۔ یوپی اور بہار جیسی ریاستوں میں، موریہ اور کشواہا جیسے پسماندہ گروہ، خوش حال اور غالب یادوؤں کو تیزی سے چیلنج کر رہے ہیں۔ اس طرح ایک نئی قسم کی بااختیار بنانے کی سیاست شروع ہو سکتی ہے، جس میں چھوٹے او بی سی گروپ اپنی اصل تعداد کے تناسب سے نمائندگی کا مطالبہ کریں گے۔ تاہم یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اقدام کئی دیگر سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ حکومت کیلئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ مرکزی او بی سی فہرست کا استعمال کرے یا ریاستوں کے ذریعہ ترتیب دی گئی مخصوص فہرستوں کو بنیاد بنائے جو مختلف ریاستوں میں مختلف ہیں۔ ایک اور مخمصہ یہ بھی ہے کہ کیا اعلیٰ ذاتوں کو ایک گروہ کے طور پر شمار کیا جائے یا انہیں بھی الگ الگ کیا جائے جیسا کہ بہار نے اپنے سروے میں کیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک متبادل، الگ الگ سیاسی اور انتظامی نتائج لاتا ہے۔ 
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بار ذات کی مردم شماری کے اعداد و شمار جاری ہونے کے بعد، حکومت کو او بی سی میں ذیلی زمرہ بندی کے مسئلے کو بھی حل کرنا ہوگا۔ روہنی کمیشن اسی مسئلے سے نمٹنے کیلئے قائم کیا گیا تھا تاکہ کم بااثر او بی سی گروپوں کی نشاندہی کی جا سکے اور یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ سرکاری ملازمتوں تک بہتر رسائی حاصل کر سکیں۔ اگرچہ کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی لیکن حکومت نے اسے کبھی جاری نہیں کیا کیونکہ اسے احتجاج کا خدشہ تھا۔ 
مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بہار میں یادوؤں نے او بی سی کوٹے سے غیر متناسب فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر بی جے پی کم طاقتور او بی سی گروپوں کو متحد کر نے میں کامیاب ہوتی ہے، تو اس سے تیجسوی یادو کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن دوسری طرف یوپی، جھارکھنڈ کے ساتھ ہی جنوبی ہندوستان میں، جہاں کرمی (بی جے پی کے ساتھ رہنے والا ایک او بی سی گروپ) غالب ہیں، کوٹے کی دوبارہ تقسیم سے بی جے پی کی موجودہ حمایت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 
یہی وہ وجوہات ہیں، جس نے مودی حکومت کو روہنی کمیشن کی رپورٹ کو خفیہ رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ ایک مرتبہ ذاتوں کے اعداد و شمار جاری ہوگئے تو’ ری اسٹرکچرڈ کوٹہ‘ کی مانگ میں شدت پیدا ہوجائے گی اور جسے روکا نہیں جاسکے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں اس سے بی جے پی کے روایتی اعلیٰ ذات کے رائے دہندگان کے بھی اس سے ٹوٹ کر الگ ہوجانے کا خطرہ ہے۔ تاہم، ابھی کیلئے، حکومت پسماندہ ذات کے ووٹوں پر اپنی گرفت کو خطرے میں ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے، خاص طور پر وہ کانگریس کے ساتھ ہی آر جے ڈی اور سماجوادی پارٹی کی بڑھتی طاقت سے خوف زدہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK