آج گاندھی جی کا ایک سو چونواں یوم پیدائش ہے۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ کے اس عرصے میں گاندھی جی کی قدرومنزلت بھی ہوئی اور ان کی مخالفت بھی ہوئی۔
EPAPER
Updated: October 02, 2023, 1:24 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
آج گاندھی جی کا ایک سو چونواں یوم پیدائش ہے۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ کے اس عرصے میں گاندھی جی کی قدرومنزلت بھی ہوئی اور ان کی مخالفت بھی ہوئی۔
آج گاندھی جی کا ایک سو چونواں یوم پیدائش ہے۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ کے اس عرصے میں گاندھی جی کی قدرومنزلت بھی ہوئی اور ان کی مخالفت بھی ہوئی۔ یہ سلسلہ باپو کی حیات میں بھی جاری تھا اور آپ کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔ ان کے مداحوں میں وہ جو بے حد مخلص ہیں ان کی عقیدت میں کبھی کمی نہیں آئی مگر وہ جن کا اخلاص کم یا مشکوک تھا، ان کی زندگی میں گاندھی کو یاد کرنا رسم بن گیا۔ انہوں نے ۲؍ اکتوبر اور ۳۰ ؍جنوری کو گاندھی کیلئے مخصوص کرکے خود کو باقیماندہ ۳۶۳؍ دن کیلئے فارغ کرلیا۔ مذکورہ دو قسم کے لوگوں میں پہلی قسم کے لوگ آٹے میں نمک برابر اور دوسری قسم کے لوگ بڑی تعداد میں ہیں ۔ انہی کی وجہ سے گاندھی جی اپنے ہی دیس میں رفتہ رفتہ اجنبی ہوتے چلے گئے۔ عقیدت برائے نام رہی، اپنائیت بالکل ختم ہوگئی۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس تیسری قسم کے لوگوں کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو کل بھی گاندھی کے مخالف تھے اور آج بھی ہیں ۔ کل ان کی مخالفت اتنی شدید نہیں تھی جتنی آج ہے مگر اس قبیل کے لوگوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ کبھی کھل کر کچھ نہیں کہہ پاتے۔ کہہ بھی نہیں سکتے۔ ان کا انداز چھپ چھپ کر یا سامنے آکر فوراً چھپ جانے جیسا ہے۔
غور کیجئے تو ایک چوتھی قسم بھی ہے لوگوں کی۔ اس قسم کے لوگ گاندھی کی تعظیم بھی کرتے ہیں اور گاندھی کی تحقیر بھی۔ کہنے سننے کی حد تک یہ لوگ گاندھی کی پرتیما پر سر بھی جھکاتے ہیں اور ان کی سمادھی پر گلہائے عقیدت بھی نچھاور کرتے ہیں مگر ان کے عمل میں گاندھی جی کہیں نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اہنسا وادی گاندھی کے دیس میں ہنسا کا بازار بار بار گرم ہوتا ہے اور بعض اوقات ایک بار تشدد کی آگ بھڑکی تو مہینوں سرد نہیں ہوتی۔ ادھر چند مہینوں سے منی پور میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ ہندوستان کو گاندھی کے اہنسا وادی ملک کی حیثیت سے جاننے والے بیرونی ملکوں کے شہری منی پور کے حالات کے بارے میں سنتے ہونگے تو کیا سوچتے ہونگے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
گاندھی کے اس دیس میں یہ چار قسم کے لوگ ہیں جن میں تین قسم کے لوگوں کو ایک طرف رکھا جاسکتا ہے اور پہلی قسم کے لوگوں کو دوسری طرف، جو سچے اور پکے گاندھی وادی ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، سچے پکے گاندھی وادیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، اس کے باوجود گاندھی کی شخصیت اور تعلیمات کا حال یہ ہے کہ ان میں عوام کی دلچسپی کم نہیں ہوتی بالخصوص اقوام عالم میں ۔ اس کا ایک حالیہ ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ماہ جب امریکی صدر جو بائیڈن ہندوستان آئے تھے تب انہوں نے ہند امریکہ تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ ہند امریکہ شراکت کی جڑیں گاندھی جی کی ان تعلیمات میں پیوست ہیں جن میں اعتماد اور امانت داری کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ جو بائیڈن کانفرنس کیلئے آئے تھے، شرکت کرکے چلے جاتے، گاندھی جی کے تذکرہ کی ضرورت انہیں کیوں پیش آئی؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کم از کم وہ لوگ تو بالکل نہیں جانتے جو گاندھی کے دیس میں گوڈسے کے پجاری ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جب بھی گاندھی کا ذکر خیر ہوتا ہے ان لوگوں کی حالت یقینی طور پر غیر ہوتی ہوگی کہ گاندھی بغیر پروپیگنڈے کے زندہ ہیں ۔ یہی گاندھی کی طاقت ہے جو وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتی۔