Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاندھی جی کے خیالات اور آج کے حالات

Updated: May 12, 2025, 12:30 PM IST | Professor Sarwar Al Huda | Mumbai

گاندھی جی نے جو کچھ بھی لکھا وہ ’’گاندھی ساہتیہ‘‘ کی شکل میں محفوظ ہے۔ آج بھی ادب کے شائقین اور گاندھی کےمعتقدین اِس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ مطالعہ گاندھی جی کے افکار و نظریات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

کئی دنوں سے ’’گاندھی ساہتیہ‘‘ کا ساتواں حصہ مطالعے میں ہے۔ گاندھی ساہتیہ کے کئی حصے ہیں۔ اس حصے کی خاص بات یہ ہے کہ گاندھی جی نے مختلف اوقات میں اپنے معاصرین کے سلسلے میں اظہار خیال کیا ہے۔ اسی لیے اس جلد کا نام ’’میرے معاصرین‘‘ رکھا گیا ہے۔ وشنو پربھا کر نے اس جلد کو مرتب کیا ہے اور رائے بھی دی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے بتا دوں کہ وشنو پربھاکر (۲۱؍ جون ۱۹۱۲ء تا ۱۱؍ اپریل ۲۰۰۹ء) ہندی کے مشہور ادیب اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے کہانیاں بھی لکھیں، ناول بھی، ڈرامے بھی لکھے اور سفرنامے بھی۔ اُن کی تحریروں میں وطن دوستی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ ہریانہ سے ساہتیہ اکادیمی کا انعام پانے والے وہ پہلے ادیب تھے۔ مجھے اُن کی اس کتاب کے مطالعہ کی تحریک کتاب ہی سے ملی۔ سیاسی اور سماجی صورتحال کے بارے میں اتنا کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے کہ اس میں کوئی اضافہ ممکن نہیں۔ حالات پر نگاہ رکھنے والے لوگ حالات کو بدلنے کی آرزو کر سکتے ہیں مگر صرف آرزو سے کیا ہوتا ہے۔ جب صورتحال کو تبدیل ہونے میں وقت نہ لگے اور اس کے پیچھے انسانی زندگی کی بے حرمتی ہو تو ایسے میں فطری طور پر گاندھی جی کا خیال آتا ہے۔ خیال کا آنا ہی کافی نہیں یا سوچ لینا ہی کافی نہیں بلکہ عملی سطح پر اس کا ثبوت فراہم کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم انسانی اقدار کا احترام کرتے ہیں۔ احترام کا مطلب تعصب اور تنگ نظری سے بلند ہونا ہے۔ تہذیبی زندگی میں کچھ الفاظ اتنے بنیادی ہیں کہ انہیں استعمال کیے بغیر ہم اپنی بات ٹھیک سے کہہ نہیں پاتے۔ انہی الفاظ میں کشادہ ذہنی، کشادہ نظری اور انسانی اقدار کا احترام بھی ہے۔ انہیں سنتے اور پڑھتے ہوئے کتنا وقت گزر گیا اور صورتحال ہے کہ تبدیل نہیں ہوتی۔ گاندھی جی کے خیالات جو ان کے معاصرین کے سلسلے میں ہیں ان کی طرف دھیان کا جانا تاریخ سے موجودہ وقت کیلئے کچھ سیکھنا اور حاصل کرنا ہے۔ مشکل وقت میں گاندھی جی کی طرف دیکھنا ہماری تاریخی اور تہذیبی ضرورت ہے۔ 
انسانی اقدار کے احترام کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ انسان ہماری محبت کا مستحق ہے۔ گاندھی جی کی ان تحریروں کا روشن پہلو یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق شخصیات سے ہے۔ گاندھی جی نے کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے جو بہت مشہور نہیں ہیں۔ مولانا حضرت موہانی کی وطن پرستی اور کھری شخصیت کی تعریف کے بعد گاندھی جی لکھتے ہیں : 
’’مولانا صاحب کا کہنا ہے کہ جنگ کے وقت جو کچھ کیا جائے سب ٹھیک اور مناسب ہے۔ موپلوں میں مذہب کے لیے ہی یہ سنگرام کیا ہے اور اس لیے موپلوں کے اوپر اسی طرح کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا حسرت موہانی کے نقط نظر میں مذہب کے نام پر غیر مذہبی کردار بھی مذہبی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، اس تعلق سے میں نے مختلف مسلمانوں سے بھی بات چیت کی ہے۔ وہ بھی مولانا صاحب کے خیال سے متفق نہیں ہیں۔ میں اپنے مالا بار کے ساتھیوں سے یہی کہوں گا کہ وہ مولانا کی بات نہ سنیں۔ اگر مذہب کے بارے میں ان کا اس طرح کا خیال ہے پھر بھی ہندو مسلم اتحاد اور قومیت کا ان سے بڑھ کر کٹر حمایتی دوسرا نہیں ہے۔ ان کا دل ان کے شعور سے کہیں بڑا ہے۔ پر اس وقت غلط راستے پر جا رہا ہے۔ ۱۹۲۱ء میں موپلا کی بغاوت ہوئی تھی۔ مالا بار اس وقت کرناٹک کا حصہ ہے۔ جس تاریخ کو خلافت تحریک کی حمایت بھی حاصل تھی۔ مرکز میں کسان بھی تھے مسلمان بھی اور انگریز بھی۔ اسے تحریک آزادی سے وابستہ کر کے دیکھا ہے۔ 
مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گاندھی جی مولانا حسرت موہانی سے اختلاف کے باوجود انہیں ہندو اور مسلمان کا کٹر حمایتی مانتے تھے۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو کسی شخص یا خیال کو اس کے اصل اور مجموعی سیاق میں دیکھنے کا شعور پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ہماری تہذیبی تاریخ میں سیاست کا ایک خاص عمل دخل ہے لہٰذا گاندھی جی کے ان خیالات کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کسی ایک روش یا رویے کو دیکھ کر اس کے بارے میں انتہا پسندانہ رخ اختیار کرنا ناانصافی ہے۔ خواجہ عبدالمجید کے بارے میں گاندھی جی لکھتے ہیں : ’’ خواجہ عبدالمجید آج مجھ سے میٹھا جھگڑا کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے ٹرسٹی ہیں۔ ان کے پاس کافی بڑی جائیداد ہے پھر بھی ان کا من تو فقیر ہے۔ میں جب وہاں جاتا تھا انہی کے یہاں کھانا کھاتا تھا۔ اس زمانے میں سوامی ستدیو میرے ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے ہماچل کا سفر کیا تھا۔ ایشور نے آج ان کی آنکھیں چھین لی ہیں۔ اس وقت وہ بہت کام کرنے والے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں تیرے ساتھ سفر کرونگا پر (مگر) تو‘ مسلمانوں کے ساتھ کھاتا ہے تو میں تو نہیں کھاؤں گا۔ یہ سن کر خواجہ صاحب نے کہا کہ اگر ان کا مذہب ایسا کہتا ہے تو میں ان کے لیے الگ انتظام کروں گا۔ خواجہ صاحب کے دل میں یہ نہیں آیا کہ یہ سوامی گاندھی کے ساتھ آیا ہے تو کیوں نہیں میرے یہاں کھایا۔ پرانے دن پھر واپس آئیں گے جب ہندو مسلمانوں کے دلوں میں ایکتا تھی۔ خواجہ صاحب اب بھی قومی مسلمانوں کے صدر ہیں۔ دوسرے بھی جو قومی جذبہ رکھنے والے مسلمان لڑکے ان دنوں علی گڑھ سے نکلے تھے وہ آج جامعہ کے اچھے اچھے طالب علم اور کام کرنے والے بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب ریگستان میں جزیرہ کی طرح ہیں۔ خواجہ صاحب ایسے ہی ہیں کہ ان کو کوئی مار ڈالے گا تو بھی ان کے منہ سے بددعا نہیں نکلے گی. ایسے لوگ بھلے ہی تھوڑے ہیں پر ہمیں تو اپناپن قائم رکھنا ہی چاہیے۔ ‘‘
گاندھی جی کے ان خیالات کا زمانہ تحریک آزادی کا زمانہ تھا۔ ان کی نگاہ اپنے وقت کے نوجوانوں کو کتنی محبت اور گہرائی کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ سوامی ستدیو کے تعلق سے بظاہر ایک چھوٹی سی بات کا ذکر آیا ہے مگر وہ اپنے وقت کے ساتھ بہت دور تک نکل آئی ہے۔ ستدیو کے خیال کا احترام گاندھی جی کو بھی ہے اور خواجہ عبدالمجید کو بھی۔ یہی وہ خوبصورتی ہے جس سے ہماری تہذیبی تاریخ روشن ہے۔ گاندھی جی نے اگر یہ بات نہ لکھی ہوتی تو زیادہ امکان اس بات کا تھا کہ یہ بات ہمیں کبھی معلوم نہ ہوتی۔ عبدالمجید خواجہ جامعہ کے بنیاد گزاروں میں ہیں۔ وہ جن نوجوانوں کا ذکر کر رہے ہیں ان کا رخ علی گڑھ سے جامعہ کی طرف ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK