• Tue, 04 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گنگارام گاونکر مالونی تھیٹر کا مرکزی کردار تھے

Updated: November 03, 2025, 6:25 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

مشہور ڈراما نگار گنگارام گاونکرگزشتہ دنوں انتقال کرگئے ،وہ مراٹھی اسٹیج کے ان فنکاروں میں تھے جنہوں نے ’مالونی بولی‘ کو تھیٹر کی دنیا میں باوقار مقام دلایا۔ ان کے تحریر کردہ کئی ڈرامے مقبول ہوئے، تاہم ’وسترہرن‘ وہ شاہکار تھا جس نے انہیں مراٹھی ر نگ منچ کا بنیادی کردار بنادیا

Actors can be seen in a scene from the play `Vastharana` by renowned playwright Gangaram Gaonkar (inset). Photo: INN
مشہور ڈراما نگار گنگارام گاونکر (انسیٹ) کے ڈرامے ’وسترہرن ‘ کے ایک منظر میں اداکاروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این
مراٹھی ڈراما اور تھیٹر کی عظیم شخصیات میں سے ایک معروف ڈراما نگار گنگا رام گاونکر گزشتہ دنوں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ ۸۶؍ برس کے تھے اور گزشتہ چند روز سے علیل تھے۔ ان کے انتقال سے مراٹھی تھیٹر نے ایک ایسے فنکار کو کھو دیا ہے جس نے مہاراشٹر کےدیہی مزاج، لوک روایت اور زبان کی مٹی سے جڑی خوشبو کو اسٹیج پر زندہ کیا۔ ان کے مشہور ڈرامے ’’وسترہرن‘‘ نے انہیں مراٹھی تھیٹر کے مرکزی منظرنامے کا ایک انتہائی اہم کردار بنادیا تھا۔گاونکر نے اس ڈرامے میں اساطیر، موسیقی اور مالونی کھڑی بولی کو اس خوبصورتی سے برتا کہ یہ ڈراما دیہی کوکن کی جیتی جاگتی جھلک بن گیا۔ اس ڈرامے کی کہانی ایک پرسکون کوکنی گاؤں کے کرداروں کے ذریعے انسانی کمزوریوں اور معصومیت کو ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ گنگارام گاونکر نے اس ڈرامے میں’’پلے وِداِن پلے (داستان در داستان )‘‘تکنیک کا بہترین استعمال کیا جس کی وجہ سے اس کے مزاحیہ رنگ میں مزید چمک اور کشش پیدا ہوئی۔
مشہور ڈراما نگار گنگارام گاونکر۔ تصویر: آئی این این
 
گاونکر کا سفر کسی عام فنکار جیسا نہیں تھا۔ وہ مہاراشٹر کے ساحلی خطے کوکن کے ذیلی خطے مالون سے تعلق رکھتے تھے، جہاںسمندر کی لہروں کے ساتھ زندگی کی تیز و مدھم لہریں بھی بہتی ہیں۔ اسی خطے کی مالونی بولی(جو کوکنی اور مراٹھی کا مرکب کہی جاسکتی ہے)، لوک کہانیاں، محاورے اور گیت ان کے فن میں رَچ بس گئے۔ مٹی کی خوشبو رکھنے والی  بہترین زبان اور روزمرہ کے کرداروں کی شوخ و شنگ معصومیت نے ان کے تمام ڈراموں خصوصاً ’’وسترہرن‘‘ میں ایک غیرمعمولی زندگی پھونکنے کا کام کیا ہے۔
مراٹھی تھیٹر کےاسکالرارون نائک کے مطابق۱۹۸۰ء سے ۲۰۲۵ء تک وسترہرن کے ۵۳؍سو سے زائد شوز اس بات کا ثبوت ہیں کہ گاونکر ایک غیر معمولی ڈراما نگار تھے۔ ارون نائک کے مطابق ان کا شہرہ آفاق ڈرامامراٹھی کے صف اول کے ڈراما نگار وجے تندولکر کے کلاسیکی ڈرامے’’گھاسی رام کوتوال‘‘ اور ’’تماشہ‘‘ کے درمیان ایک خوبصورت توازن قائم کرتا ہے۔ اس ڈرامے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مچھندر کامبلی کے فرزند پرساد کامبلی کے مطابق اس ڈرامے نے۱۹۸۰ءکی دہائی میں مہاراشٹر کی عوامی زندگی کو اس کے اصل رنگوں، موسیقی اور زبان کے ساتھ پیش کرکے ہر طبقے کو متاثر کیا۔ مالونی زبان کے جملے، برجستہ مکالمے اور لوک رچنا نے ڈرامے کو ایک الگ توانائی بخشی۔گاونکر کی زندگی بھی کسی ڈرامے سے کم نہ تھی۔ وہ مالون سے آکر دیوا(ضلع تھانے) کی جھوپڑیوں میں پلے بڑھے، تھیٹر کے پردے کے پیچھے مزدوری کی اور پھر ایم ٹی این ایل میں ملازمت کی۔ ابتدا میں وسترہرن کو ممبئی کی واڑیوں میں پیش کیا گیا جہاں کوکن سے آنے والے افراد کی بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔ بعد ازاں مچھندرکامبلی نے اس ڈرامے کو اس کی اصل مالونی صورت میں بڑے پیمانے پر ملک بھر میں پیش کیا اور یہیں سے اس ڈرامے اور گاونکر کی شہرت نے عروج حاصل کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ۲۰۰۹ء میں اس کے۵؍ ہزار ویں شو کے ٹکٹ ۱۲؍ ہزار روپے تک بلیک میں فروخت ہوئے تھے اور آڈیٹوریم میں ہر شو کے لئے زائد کرسیاں لگانی پڑی تھیں۔گاونکر نے بعد میں اپنی کامیابی پر مبنی کتاب ’’وایا وسترہرن‘‘ بھی تحریر کی اور ’’دوغی‘‘، ’’ وَر بھیٹو نکا ‘‘ اور’’ وَن روم کچن‘‘ جیسے ڈرامے بھی لکھے جو شہری زندگی کی رفتار ، اس کے کرب اور بھاگ دوڑ پر مبنی ہیں۔ان کی تخلیق کردہ دنیا اب بھی زندہ ہے، ہنستی ہے، بولتی ہےاور ان کے اسٹیج پر پھر سے قدم رکھنے کا انتظار کر رہی ہے۔
گنگا رام گاونکر کا انتقال ۸۶؍ برس کی عمر میں ممبئی کےایک اسپتال میں ہوا جہاں وہ مختصر علالت کے بعد زندگی کی بازی ہار گئے۔ وہ اپنے بعد مراٹھی کا ایک بھرپور ادبی ورثہ، محبت کرنے والے شاگرد اور خاندان چھوڑ گئے ہیں۔ مگر ان سب کے درمیان ان کی اصل شناخت وہ تھی جو اسٹیج کی روشنیاں ان کے نام سے پہچانتی تھیں یعنی ان کا شاہکار ڈراما ۔وسترہرن کو ہم صرف ڈراما نہیں بلکہ کونکن کی دھڑکن کہہ سکتے ہیں۔ اس میں ایک عام گاؤں دکھایا گیا ہے جہاںشریر لوگ بھی پیارے لگتے ہیں ،فارغ بیٹھے لوگ بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، بھلے لوگ اپنی سادگی سے دل جیت لیتے ہیں اور وہ تائی اور کاکا جن کی زبان نہیں رکتی، ہنسی اور بحث دونوں کو یکساں جنم دیتے ہیں۔
جب وسترہرن کی ۸۰ء کی دہائی میں بڑے پیمانے پر نمائش شروع ہوئی تو یہ صرف مراٹھی سامعین تک محدود نہیں رہا۔ اس کی خوش مزاجی، مقامی بولی کی چاشنی اورکرداروں کی زندگی سے جڑی سچائی نے اسے ہر طبقے تک پہنچا دیا۔ یہ ڈرامہ یاد دلاتا ہے کہ زندگی کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو، انسان مشکل وقت میں بھی مسکراہٹ ڈھونڈ لیتا ہے چاہے وہ کونکن کی بستی ہو یا ممبئی کے باندرہ کرلا کمپلیکس کا کارپویٹ ٹاور ۔ گنگارام گاونکر کی زندگی اور ادبی سفر دونوں جدو جہد سے پُر رہے۔یہی محنت اور مشاہدہ ان کے کرداروں میں اتنی اصل زبان اور سچائی پیدا کرنے کی بنیاد بنا۔ 
اگر گاونکر ڈرامے کے خالق تھے تو مچھندر کامبلی اس کے بنیادی اداکار تھے۔ انہوں نے اس ڈرامے کو مکمل مالونی شناخت کے ساتھ اسٹیج پر اس طرح پیش کیا کہ وہ عام ڈراما نہیں بلکہ کونکن کی اجتماعی یاد بن گیا۔ مچھندر کامبلی جو’بابلیا ‘ کے نام سے مشہور ہوئے مراٹھی تھیٹر اور فلموں کی قد آور شخصیت تھے۔ گنگا رام گاونکر کا یہ ڈراما اتنا مشہور ہوا کہ کئی اہم شخصیات بھی اس کی مداح تھیں۔ ملک کی مایہ ناز گلوکارہ لتامنگیشکرنے اس کے ۸۰۰؍ویں شو میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی تھی ۔ان کی بہن آشا بھوسلے، سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی، بال ٹھاکرے اور جارج فرنانڈس سمیت کئی بڑے نام مسلسل اس ڈرامے کی ستائش کرتے رہے اور ذاتی طور پر بھی اسے ان سبھی نے دیکھااور سراہا۔ 
(ہندوستان ٹائمز کے شکریہ کے ساتھ ) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK