Inquilab Logo Happiest Places to Work

اساڑھ لگ گیا تھا، ساون بھی گزرنے کو تھا لیکن بادل روٹھے ہوئے تھے

Updated: July 13, 2025, 2:58 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

گنے کی فصل کو زندہ رکھنے کیلئے کنوئوں سے پُر چلا کر (بیلوں کے ذریعہ پانی نکالنے کا قدیم طریقہ)کسی طرح اس کی سینچائی کی جارہی تھی۔ گرمی سے لوگ تڑپ رہے تھے۔

As the rainy season begins, farmers in the village become active and the fields start to turn green. Photo: INN.
بارش کا موسم شروع ہوتے ہی گاؤں میں کسان سرگرم ہوجاتے ہیں اور کھیتوں میں ہریالی نظر آنے لگتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

اُس روز آسمان میں بادل کا نام و نشان نہیں تھا۔ جولائی کے مہینے میں مئی جون جیسی گرمی تھی۔ سورج کی تپش ایسی تھی کہ کھیت میں کام کرنا تو دور چند منٹ وہاں کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ کھیت میں کام کرنے کیلئے نکلے کسان ایک ایک کرکے سبھی باغ میں جمع ہو گئے تھے۔ جہاں چار کسان جمع ہو جائیں تو وہاں شروع ہو جاتی ہیں نئی پرانی باتیں ۔ اُس روز کئی برس پہلے کی گرمی موضوع بحث تھی۔ اُس سال سخت گرمی اور بارش نہ ہونے سے لوگ بیماریوں کی زد میں آرہے تھے۔ انسانوں سے زیادہ مویشیوں کی حالت ابتر تھی۔ پالتو جانوروں کا تو اس کا مالک کسی طرح چارے پانی کا انتظام کردیا کرتا تھا لیکن آوارہ مویشیوں کا نہ تو پیٹ بھرتا، نہ ہی ان کی پیاس بجھتی تھی۔ آس پاس کے تال تلیا ں سب سوکھ گئے تھے۔ زمین پر کہیں سبزہ باقی نہیں تھا، ہر طرف دھول اُڑ رہی تھی۔ گھاس پھوس اور پیڑ پودے سب مرجھا گئے تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ سورج سے شعلے نکل رہے ہوں اور زمین کی گھاس جل رہی ہو۔ 
گنے کی فصل کو زندہ رکھنے کیلئے کنوئوں سے پُر چلا کر (بیلوں کے ذریعہ پانی نکالنے کا قدیم طریقہ)کسی طرح اس کی سینچائی کی جارہی تھی۔ گرمی سے لوگ تڑپ رہے تھے۔ ہفتے میں ایک بار نہانے والے کنویں کے پاس لوٹا بالٹی لئے دن بھر بدن تر کیا کرتے تھے، ایسالگتا تھاکہ جان جانے اور چوٹ لگنے کا خطرہ نہ ہو تو وہ کنویں میں چھلانگ ہی لگا دیں ۔ پانی دیکھتے ہی انسان تو انسان مویشی بھی نہانے کیلئے مچل اُٹھتے تھے۔ گھر سے نکل کر دس قدم بھی چلئے تو ایسا لگتا تھا کہ چکرا کر گر جائیں گے۔ گرمی کے سبب سطح آب بھی گھٹنے لگی تھی۔ اساڑھ لگ گیا تھا، ساون بھی گزرنے کو تھا لیکن بادل ایسے روٹھے کہ آسمان میں کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ برادران وطن کی خواتین بارش کیلئے طرح طرح ٹوٹکے کررہی تھیں، لیکن موسم پر کوئی اثر نہیں تھا۔ خواتین جب مایوس ہوتیں تو کہتیں ’’ہم لوگوں کے کرم خراب ہیں دَئو(خدا)ہم سے ناراض ہیں۔ ‘ ‘بارش کا انتظار کرتے کرتے دھان کی بیہن (نرسری ) بھی سوکھنے لگتی تھی، کچھ محنت کش کسان کنویں کے پانی سے کھیت بھر کر دھان کی تھوڑی بہت روپائی کر لئے تھے، اُن کو فکر تھی کہ اگر ایسا نہیں کرتے تو سال بھر کھائیں گے کیا ؟ شدت کی گرمی میں دھان کی روپائی کے دوران دیر تک کھیت میں ٹھہر پانا مشکل تھا چنانچہ ان کیلئے گھر سے بار بار گُڑ اور ٹھنڈا پانی بھیجا جاتا تھا۔ دھوپ کی شدت کے سبب کھیت کا پانی بھی اُبل جاتا تھا اور اُس میں روپے گئے دھان مرجھانے لگتے تھے۔ 
بارش کیلئے ایک طرف پوجا پاٹھ تھا تو دوسری طرف نماز استسقاء کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ اللہ کے بندے کھلے آسمان اور تپتی زمین پر سجدہ ریز تھے۔ دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے اپنے پروردگار سے گڑ گڑا رہے تھے۔ بے زبان مویشیوں کا واسطہ دے کر بارش کی بھیک مانگ رہے تھے۔ رب کریم نے اپنے بندوں کی سن لی۔ ایک روز صبح سے پُروا ہوا چلنے لگی آسمان پر بادل چھانے لگے۔ بادلوں کو دیکھ کر سب خوش ہو رہے تھے۔ پُروائی نے گرمی سے راحت دی اور ایک امید بھی بڑھا دی۔ نصف شب گزری تھی کہ موٹی موٹی بوندیں پڑنے لگیں، جو لوگ گھر کے باہر اور چھتوں پر سوئے ہوئے تھے وہ بستر سمیٹ کر اندر آ گئے۔ رات کو موسلا دھار بارش ہوئی۔ صبح پیڑ پودے بارش سے نہا کر کھل اُٹھے۔ سوکھی فصلوں میں جان آ گئی۔ چرند پرند سب چہکنے لگے۔ گھر میں آلو پیاز کٹنے لگی، پکوڑے تلے جانے لگے۔ مہوا کے ٹھکوا اور آم کے اچار سے دستر خوان سج گیا۔ اس طرح سبھی لوگ پہلی بارش سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ویسے بھی ایام بارش کسانوں کی چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ اُس روز وہ اپنی مڑہی یا چھپر میں چادر تان کر سوتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اُس وقت جس کے پاس ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر ہوتا تھا وہ ایسے موسم میں کوئی پرانا گانا لگاکر چادر تان کر لیٹ جاتا ...شاید اُن کو گانے کی دھن پر نیند آتی تھی۔ ہاں تو اُس روز جو بارش شروع ہوئی تو یہ سلسلہ ہفتے بھر چلا۔ کبھی کم کبھی زیادہ بارش ہوتی رہی۔ لمبے انتظار کے بعد ہونے والی بارش سے لوگ خوب لطف اندوز ہوئے گویا ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے علاقے میں جشن منایا جارہا ہو۔ 
بارش رُکنے کے ساتھ ہی کسان کھیتی کے کام میں مصروف تھے کہ ایک روز پھر موسم نے کروٹ لی اور جو بارش کا سلسلہ شروع ہوا وہ اگلے دن بھی جاری رہا۔ دیکھتے دیکھتے کئی دن نکل گئے لیکن بارش کی بوندیں رُکنے کا نام نہیں لےرہی تھیں۔ کئی دنوں کی موسلا دھار بارش سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ جدھر دیکھئے بس پانی ہی پانی نظر آرہا تھا۔ دھان کے جو پودے بڑے ہو گئے انہیں کم نقصان پہنچالیکن جو چھوٹے تھے وہ ڈوب گئے تھے۔ کئی دن تک گنے کے کھیت میں پانی لگنے سے وہ جھک کرگرنے لگے تھے۔ لوگوں کے کمزور گھربھی ڈھہ رہے تھے۔ جس طرح بارش کیلئے پوجا پاٹھ اور نماز و دعا کا اہتمام کیا گیا تھا اب اسی طرح اُس کے رُکنے کیلئے بھی سب اپنے رب سے التجا کررہے تھے۔ کئی روز بعد بارش رُکی، آسمان صاف ہوا اور چمکتی ہوئی دھوپ نکل آئی۔ چنانچہ ہفتوں سے گھروں میں دُبکے کسان اب کھیتوں کی طرف نکل کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK