پہلے گائوں میں بچے اسکول جانے سے جی چُراتے تھے۔ اسکول کا ٹائم ہوتے ہی وہ کہیں اِدھر اُدھر نکل جاتے۔ وہ اس انتظار میں بھی رہتے کہ گھر کا کوئی فرد ان کو کوئی کام بتا دے تو وہ اسکول جانے سے بچ جائیں ۔
EPAPER
Updated: October 12, 2025, 1:05 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
پہلے گائوں میں بچے اسکول جانے سے جی چُراتے تھے۔ اسکول کا ٹائم ہوتے ہی وہ کہیں اِدھر اُدھر نکل جاتے۔ وہ اس انتظار میں بھی رہتے کہ گھر کا کوئی فرد ان کو کوئی کام بتا دے تو وہ اسکول جانے سے بچ جائیں ۔
پہلے گائوں میں بچے اسکول جانے سے جی چُراتے تھے۔ اسکول کا ٹائم ہوتے ہی وہ کہیں اِدھر اُدھر نکل جاتے۔ وہ اس انتظار میں بھی رہتے کہ گھر کا کوئی فرد ان کو کوئی کام بتا دے تو وہ اسکول جانے سے بچ جائیں ۔ جیسے جیسے اسکول جانے کا وقت قریب آتا وہ کسی غیر ضروری کام میں مصروف ہو جاتے۔ گھر کے بزرگ اگر کھیت میں کسی کام میں لگے ہوتے وہ وہاں پہنچ کر ان کے کام میں مدد کرنے کی کوشش کرتے، حالانکہ وہ یاد دلاتے کہ بیٹاتمہارا تو اسکول جانےکا وقت ہو گیا ہے۔ یہ کام میں کر لوں گا، تم جائو اسکول جانے کی تیاری کرو۔ ایسے میں وہ بچہ اپنی کوشش میں ناکام نظر آتا اور منھ بنائے گھر کو واپس آ جاتا۔ اسکول جانے سے بچنے کیلئے جب سب تدبیر ناکام ہو جاتی وہ کسی طرح بستہ کندھے پر رکھ کر اسکول کی طرف آہستہ آہستہ قدموں سے نکلتا اور بستہ راستے میں کہیں چھپا کر وہ مویشیوں کی چرا گاہ کی طرف چلا جاتا۔ وہاں دن بھر بھینس بکریاں چرایا کرتا تھا۔ گائوں کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا۔ وہاں موجود بزرگ اس کو سمجھاتے بھی تھے کہ’ ’ بچہ پڑھ لکھ لو، نہیں تو زندگی بھر یہی بھینس اور بکریاں چرانی پڑیں گی۔ ابھی تو بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن بعد میں پچھتائو گے، تب پچھتاوا کچھ کام نہ آوے گا۔ ‘‘ بچپن میں بزرگ کی وہ نصیحت انہیں کہاں سمجھ میں آتی۔ وہ تو کبھی اس جانور کے پیچھے دوڑتے اور کبھی کھیتوں کی طرف جانے والے مویشیوں کو ہانکتے۔ بزرگ کی باتوں کو وہ ہوا میں اُڑا دیتے۔
ہمارے گائوں کا ایک قصہ مشہور ہے۔ پڑوس میں رہنے والے ایک صاحب جو اَب معمر ہو چکے ہیں۔ اپنے بچپن میں وہ بھی اسکول جانے سے بھاگتے تھے۔ گھر والوں کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسکول سے واپس آجاتے۔ تمام کوششوں کے بعد گھر والے تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ کندھے پر اسکول کا بستہ رکھنے کے بجائے انہیں بھینس چرانے کی لاٹھی رکھنا زیادہ پسند تھا۔ چنانچہ وہ صبح صبح گھر کے سارے مویشیوں کو جنگل کی طرف لے کر نکل پڑتے تھے۔ ایک روز وہ اپنے مویشی لے کر آرہے تھے۔ سڑک کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ ان کے استاذ کا اُدھر سے گزر ہوا۔ وہ اسکول نہیں گئے تھے، ان کو ماسٹر صاحب سے کسی طرح کا خوف نہیں ہوا......بے ساختہ بول پڑے... ماسٹر صاحب ذراوہ کھیت میں چررہی میری بکریاکو ہانک دیجئے ...اتنا سننا تھا کہ ماسٹر صاحب آگ بگولہ ہو گئے...غصے میں بولے ...مردود تجھے زندگی بھر یہی بھینس بکریاں چرانی پڑیں گی۔ تجھے معلوم نہیں تو کسے حکم دے رہا ہے۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی ...ان صاحب کی زندگی بھینس بکریاں چرانے میں ہی گزری۔
اب چھوٹے چھوٹے اسکولوں میں ٹیلی فون ہے اور موبائل ہے۔ اس وقت یہ سب ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر بڑی کلاس کے بچے اکثر اسکول نہ جاکر کہیں کرکٹ کھیلنے نکل جاتے تھے۔ املی، بیر اور آنولے کے باغوں کا رُخ کرتے یا کسی کے کھیت سے گنا چرا کر وہیں چبانےبیٹھ جاتے تھے۔ ایسے بچے بھی تھے جو نہر کے کنارے کٹیا چھپا کر رکھ دیتے تھے اور اسکول کیلئے نکلتے تو وہاں مچھلیاں پھنسانے بیٹھ جاتے۔ جب خاطر خواہ مقدار میں مچھلیاں پھنس جاتیں تووہیں نہر کے کنارے بھون کر کھاتے بھی تھے۔ اس وقت گائوں کے اسکولوں میں یونیفارم نہیں ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ بچے عام کپڑے پہن کر اسکول جاتے تھے۔ اس طرح ان کی پہچان بھی نہیں ہو پاتی تھی کہ وہ طالب علم ہیں۔ چھوٹے قصبوں اور بازاروں میں تو سنیما ہال ہوتا نہیں تھا۔ اُس وقت ہمارے یہاں تحصیل علاقہ میں ایک صاحب نے ’ وی سی آر‘ لگا رکھا تھا۔ یہاں وہ بچے پہنچتے تھے جنہیں گھر سے پاکٹ خرچ ملتا تھا۔ وہ کالج جانے کے بجائے ۵؍ روپے دے کر فلم دیکھنے پہنچ جاتے تھے۔ یہ پانچ روپیہ وہ اپنے کئی روز کے خرچ میں سے بچا کر جمع کرتے تھے۔ اس وقت گائوں سے جو بچے کالج پڑھنے جاتے تھے، انہیں پاکٹ خرچ ملا کرتا تھا۔ کسانوں کے بچے نقد رقم کی جگہ اناج ساتھ لاتے اور بازار میں اسے فروخت کرکےنقد رقم حاصل کرتے تھے۔
چھوٹی کلاس کے بچوں کا اسکول گائوں ہی میں ہوتا تھا تو اسکول سے بچنے کیلئے مویشی چرانے نکل پڑتے تھے۔ شاید انہیں طلبہ سے متاثر ہو کر لالو یادو نے اپنے دور حکومت میں ۱۹۹۲ء میں بہار میں ’چرواہاودیالیہ‘ کھولا تھا۔ اُس وقت یہ اسکول خوب سرخیوں میں رہا۔ یہاں صبح مویشی چرانے والے بچے آتے، وہ اپنے مویشیوں کو چرنے کیلئے چھوڑ دیتے اور اسکول میں موجود ماسٹر صاحب انہیں پڑھاتے تھے۔ دوسری طرف اسکول ہی کے ایک کونے میں خواتین پاپڑاور اچار بنانے کی ٹریننگ حاصل کرتی تھیں۔ اس طریقہ تعلیم پر لالو یادو کی ستائش بھی ہوئی اور وہ ہدف تنقید بھی بنے تھے۔ پہلے سال اسکول خوب چلا لیکن دوسر ے سال ٹیچروں نے آنا بند کر دیا اور اس کے بعد بچوں نے بھی اسکول آنا چھوڑ دیا۔ خیر آج بھی گائوں میں اسکول سے جی چُرانے والے بچوں کی بڑی تعداد ہے، وہ ہر روز اسکول نہ جانے کا بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔