زبان جھوٹ بولتی ہے، مگر زبان پر کھانے کے حوالے سے ’’حلال سرٹیفکیٹ‘‘ کا اصرار ہوتا ہے۔ کاروبار سود، دھوکہ، فریب، رشوت اور سودے بازی سے آلودہ ہوتا ہے، مگر کھانے کی میز پر’’حرام کا لقمہ نہ آئے‘‘ کا دعویٰ قائم رہتا ہے…
EPAPER
Updated: December 05, 2025, 5:48 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
زبان جھوٹ بولتی ہے، مگر زبان پر کھانے کے حوالے سے ’’حلال سرٹیفکیٹ‘‘ کا اصرار ہوتا ہے۔ کاروبار سود، دھوکہ، فریب، رشوت اور سودے بازی سے آلودہ ہوتا ہے، مگر کھانے کی میز پر’’حرام کا لقمہ نہ آئے‘‘ کا دعویٰ قائم رہتا ہے…
انسان کی زندگی ایک سفر ہے خواہشات، محرّکات، تجربات اور فیصلوں کا سفر۔ مگر المیہ یہ ہے کہ انسان کا یہ سفر اکثر اس سمت میں بڑھنے لگتا ہے جہاں خواہش منطق کو شکست دیتی ہے، ماحول ضمیر کو خاموش کر دیتا ہے اور عادتیں برائی کو ایک قابلِ قبول معمول میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ ابتدا میں جرم چھوٹا، لرزہ خیز اور قابلِ نفرت محسوس ہوتا ہے؛ مگر جب وہ بار بار اختیار کیا جائے تو نفس اسے ایک مخصوص داخلی جواز عطا کر دیتا ہے جہاں برائی برائی نہیں لگتی اور گناہ ایک عرفی اور سماجی جواز کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔یہ کیفیت کوئی معمولی زوال نہیں؛ یہ ضمیر کی موت ہے وہ ضمیر جو کبھی سرگوشی میں پکارا کرتا تھا: ”یہ غلط ہے، رک جاؤ!“ مگر جب انسان خود ساختہ خواہشات کی غلامی میں بہت آگے نکل جاتا ہے تو سرزنش سننے کی طاقت بھی نہیں رہتی۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان اپنے عمل کو دلیل کے بجائے خواہش سے تولتا ہے اور حلال وحرام کا معیار اصول اور وحی نہیں بلکہ ذاتی پسند اور وقتی جذبات بن چکے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ آج انسان خود اپنے اندر دو دنیاؤں کا باسی بن چکا ہے: ایک وہ دنیا جو اسے پسند ہے، اور دوسری وہ جو حقیقت ہے۔ مگر وہ پہلی دنیا کو حق سمجھ بیٹھا ہے اور دوسری سے نظریں چرانا ہی اسے آسان لگتا ہے۔ یہ رویہ صرف عملی زوال نہیں، بلکہ ضمیر کی شکست ہے۔
اگر واقعی کسی غلط تعلق کو ’’حلال‘‘ سمجھ لیا گیا ہے، تو پھر اس تعلق میں چھپنے کا خوف کیوں؟ اگر موسیقی کو زندگی کا حسن سمجھ لیا گیا ہے، تو اذان کی صدا اسے گونگا کیوں کر دیتی ہے؟ کیا یہ اعتراف نہیں کہ دل اب بھی ایک دوسری آواز کا احترام کرتا ہے، وہ آواز جو دل کو جھنجھوڑتی ہے کہ دنیا کے سب ترانے ایک طرف، اور خدا کی پکار ایک طرف۔ اگر تنگ لباس ہی فیشن ہے، اگر یہ محض تہذیب اور اظہارِ ذات ہے، تو پھر اپنی بہن بیٹیوں کے تنگ لباس سے شکایت کیوں؟ یہی لباس نماز کے وقت بےچین کیوں کرتا ہے؟ اگر کسی چیز کا وجود اللہ کے سامنے شرمندگی کا باعث ہو تو کیا واقعی وہ قابلِ فخر ہے؟اگر گالی صرف مذاق ہے، ثقافت ہے، معمول ہے تو پھر کسی کی زبان جب ماں باپ تک پہنچے تو دل زخمی کیوں ہوتا ہے؟ یہی وہ لمحہ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان کے اندر اب بھی حرمت باقی ہے مگر حرمت دوسروں کے لئے نہیں، صرف اپنی ذات تک محدود ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ انسان غلطی کرتا ہے، غلطی تو فطرت کا حصہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ انسان غلطی کو غلط مانتا ہے یا اسے دلیلوں کے پردے میں مقبول اور معتبر بنانے لگتا ہے؟ کیونکہ جس دن انسان گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیتا ہے، اس دن صرف ایک گناہ نہیں ہوتا۔ ایک پوری اخلاقی دنیا مر جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک عجیب غلط فہمی پروان چڑھ چکی ہے کہ حلال و حرام کا تعلق صرف گوشت، دودھ، مرغی، غذا اور مشروبات تک ہے۔ گویا اخلاقیات، تعلقات، کاروبار، زبان، کردار، نیتیں اور معاملات اس دائرے سے باہر ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ: زبان جھوٹ بولتی ہے، مگر زبان پر کھانے کے حوالے سے ’’حلال سرٹیفکیٹ‘‘ کا اصرار باقی ہوتا ہے۔ کاروبار سود، دھوکہ، فریب، رشوت اور سودے بازی سے آلودہ ہوتا ہے، مگر کھانے کی میز پر’’حرام کا لقمہ نہ آئے‘‘ کا دعویٰ قائم رہتا ہے۔رویّوں میں کینہ، حسد، غیبت اور تکبر موجود ہوتا ہے، مگر پلیٹ میں حرام کا پتا تک نہ ہو تو ہم مطمئن ہوتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ یہ ایک فکری سقوط ہے اور شاید شرک کی جانب ایک زینہ بھی، کیونکہ ہم نے حلال کو ایک شئے کا درجہ دے دیا ہے، نظام کا نہیں۔
اگر محض خوراک کو حلال و حرام کی بنیاد سمجھ لیا جائے تو پھر: ظلم حلال ہے؟ دھوکہ حلال ہے؟ کردار کی بددیانتی حلال ہے؟ نیت کی خرابی حلال ہے؟ تعلقات میں بے وفائی حلال ہے؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر مسئلہ خوراک کا نہیں، فریم ورک کا ہے۔
اسلام میں حلال ایک زندگی کا فلسفہ ہے، وہ فلسفہ جو ہر عمل سے پہلے انسان سے سوال کرتا ہے: ’’کیا یہ عمل اللہ کے معیارِ پاکیزگی پر پورا اترتا ہے؟‘‘ اور حرام صرف ایک ممنوع چیز نہیں بلکہ ہر وہ رویّہ، سوچ، فیصلہ اور جذبہ ممنوع ہے جو انسانی حرمت کو مجروح کرے، روح کو آلودہ کرے، عدل کے توازن کو بگاڑے اور انسان کو نفس کا غلام بنا دے۔ اگر خدا نے انسان کو سوچنے کی قوت دی ہے، تو یہ قوت محض سوال پوچھنے کے لئے نہیں بلکہ حدود کو پہچاننے، خیر و شر کو تمیز کرنے اور عمل کی بنیاد بنانے کے لئے ہے۔ عقل کہتی ہے ’’سچ وہ ہے جو ہر جگہ سچ رہے؛ صرف حالات بدلنے سے تبدیل نہ ہو۔‘‘ اور شریعت کہتی ہے: ’’حلال وہ ہے جو ہر حالت میں نفس کو اللہ کی اطاعت کے قریب کرے؛ اور حرام وہ ہے جو ہر صورت میں اسے اپنے رب سے دور کرے۔‘‘
مسئلہ یہ نہیں کہ دنیا میں حرام زیادہ ہے یا حلال کم؛ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری فکر محدود ہو گئی ہے اور ہمارے ضمیر کا آئینہ دھندلا ہوچکاہے۔ حلال و حرام صرف پلیٹ میں نہیں ذہن میں، کردار میں، ارادے میں، رویوں میں، رشتوں میں اور زندگی کے ہر موڑ پر موجود ہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ’’میں کیا کھا رہا ہوں؟‘‘ بلکہ اصل سوال یہ ہونا چاہئے کہ ’’میں کیا بن رہا ہوں؟‘‘
یہ سوالات ہر زندہ ضمیر انسان کو خود سے کرنا چاہئے: کیا ہم وہ لوگ بن چکے ہیں جو ہر چیز کو خواہشات کے ترازو میں تولتے ہیں؟ کیا ہم نے حیا کو پرانا لباس اور ضمیر کو خاموش گواہ بنا دیا ہے؟ کیا ہم نے جنت کو بدلے میں لمحاتی جذبات، وقتی لذت اور دنیاوی تاثر کے سپرد کر دیا ہے؟
اگر ایسا ہے تو مسئلہ معاشرت کا نہیں، انسان کے اندر کا زوال ہے۔ اصل بیداری تب آئے گی جب انسان یہ سوال خود سے پوچھنے کی ہمت پیدا کرے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں کیا یہ واقعی درست ہے؟ یا صرف مجھے اچھا لگ رہا ہے؟ کیونکہ اسی سوال سے فیصلہ ہوگا کہ انسان دنیا کا غلام ہے یا اپنے رب کا بندہ ہے۔