• Sun, 28 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دسمبر کی سردی میں زندگی کی تمام تر رونقیں الائو کے پا س جمع ہو جاتی ہیں

Updated: December 28, 2025, 1:30 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

دسمبر کی سرد اور طویل راتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سورج نہ نکلنے سے دن بے رونق ہے۔ لوگ الائو کے پاس بیٹھنے یا لحاف میں دُبکنے پر مجبور ہیں۔

Sitting by the bonfire not only warms the body but also enlightens the mind and spirit. Photo: INN
الاؤ کے پاس بیٹھ کر صرف جسم کو حرارت نہیں پہنچائی جاتی بلکہ ذہن و دماغ بھی روشن کئےجاتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

دسمبر کی سرد اور طویل راتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سورج نہ نکلنے سے دن بے رونق ہے۔ لوگ الائو کے پاس بیٹھنے یا لحاف میں دُبکنے پر مجبور ہیں۔ شہروں میں بسنے والی خلق خدا رضائی، کمبل سوئٹر، شال اور کوٹ میں ملبوس سردی سے لطف اندوز ہو تی ہے تو وہیں گائوں کا ایک کسان اس سخت سردی میں کندھے پر پھاوڑا رکھے سردی سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ گیہوں کی سنچائی کیلئے نہر کا چکر لگا رہا ہوتا ہے، یہ دیکھنےکیلئے کہ نہر میں پانی آیا کہ نہیں۔ 
دسمبر کی سردی کا عالم یہ ہے کہ وہ میدان جہاں بچے دن بھر کرکٹ کھیلتے تھے سب خالی پڑے ہیں۔ درختوں سے اوس (شبنم)کی موٹی موٹی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔ انسان تو کیا جانور بھی ان کے سائے سے اب بھاگ رہے ہیں۔ دسمبر کی مفلوج کر دینے والی سردی میں زندگی کی تمام تر رونقیں الائو کے پا س جمع ہو گئی ہیں۔ جی ہاں ...الائو کے گرد جمع گائوں کے بچے اب یہاں چکن روسٹ بناتے ہیں ۔ آپس میں چندہ کرکے اس طرح کی پارٹیاں کرنا اب معمول بنتا جارہا ہے۔ پہلے الائو میں شکرقند، آلو اور مٹر کی پھلیاں بھونی جاتی تھیں اب یہاں چکن تیار ہوتا ہے۔ 
چکن روسٹ اور تمام تر چائنیز فوڈ آنے کے بعد بھی سردیوں میں ساگ لوگوں  کی پہلی پسند ہے۔ سرسوں کا ساگ اس موسم میں روٹی اور چاول کے ساتھ خوب پسند کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اکیلی بوئی جانے والی فصل کو ’فردا‘ کہتے ہیں لیکن اس طرح کی کھیتی کم ہی ہوتی ہے۔ یہاں ’سہ فصلی‘ کھیتی (ایک فصل کے ساتھ دوسری بھی شامل ہو) کا چلن ہے۔ اسی طرح ’آگاہی‘ فصل بھی ہوتی ہے جس کی بوائی قبل از وقت کر دی جاتی ہے، جیسے دھان کی فصل کو جلدی جلدی کاٹ کر اُس کی نمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’لاہی‘(سرسوں ) بو دی جاتی ہے۔ اِسی فصل کو اگر وقت پر بوتے ہیں تو اسے سرسوں کہتے ہیں اورجب اس کی بوائی قبل از وقت کر دی جاتی ہے تو یہ ’آگاہی‘ فصل ’لاہی‘ کہلاتی ہے۔ 
 یہ سب کسانوں کے ذریعہ صدیوں پہلے دیئے گئے نام ہیں ۔ جو آج بھی اُسی نام سے پکارے جا رہے ہیں، شہروں کی طرح ان کے نام تبدیل نہیں ہو رہے ہیں۔ اب یہ کہ حکمرانوں کو کوئی مشورہ نہ دے دے اور عجب نہیں کہ وہ فصلوں کے سیزن ’ربیع‘ اور ’خریف‘ کا نام تبدیل کر دیں ۔ اور وہاں اب کوئی بڑا ادیب فردا، آگاہی اور سہ فصلی کا لفظی معنی نہ نکالنے لگے کیونکہ یہ کسانوں نے اپنے سمجھنے کیلئے نام رکھے تھے اوروہ معمولی کسان تھے، ماہر لسانیات نہیں۔ 
اِس وقت کھیتوں میں خوب ’لاہی ‘ بوئی گئی ہے۔ اس کی بوائی کے وقت کسان ذرا بھی کنجوسی نہیں کرتے، خوب جم کر بیج بوتے ہیں۔ اب جب یہ فصل تیار ہونے لگتی ہے تو مویشیوں کیلئے چارے کی شکل میں اور کسانوں کے دستر خوان پر ساگ کی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ کہرا اور بدلی والے موسم میں جب دوپہر کو دھوپ نکلتی ہے تو لڑکیوں کا گروپ کھیتوں میں پہنچ جاتا ہے اوریہاں سرسوں کا ساگ اور بتھوا کو بڑی تعداد میں نکالا جاتا ہے۔ پھر کسی کے گھر میں سرسوں کا ساگ تیار ہوتا ہے تو کوئی اس کا ’سگ پہتا‘ بناتا ہے۔ سردیوں میں گائوں کے لوگ گیہوں کی روٹی کی جگہ باجرے کی روٹی پسند کرتے ہیں۔ یہ بہت مقوی ہوتی ہے اور جسم میں گرمی بھی پہنچاتی ہے۔ اس کو گوبھی کی سبزی کے ساتھ کھانے میں مزہ دو بالا ہو جاتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ باجرے کی روٹی کے سامنے کلچہ اور گوبھی کی سبزی کے سامنے گودے کی نہاری کا ذائقہ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ 
کسان کھیتی بڑی حکمت و تدبیر سے کرتا ہے۔ سرسوں کی بوائی کے دوران اضافی بیج ایک مقصد کے تحت بویا جاتا ہے۔ اس سے ایک تو مویشیوں کے چارے کا انتظام ہو جاتا ہے اور لوگوں کو کھانے کیلئے ساگ دستیاب ہو جاتا ہے۔ اس طرح جب کھیت سے یہ اضافی پیڑ نکل جاتے ہیں تو باقی رہ جانے والی سرسوں میں خوب دانے پڑتے ہیں ، اس طرح فصل اچھی ہو جاتی ہے۔ اس موسم میں آپ کسی کے بھی کھیت سے سرسوں، بتھوا وغیرہ لے لیں وہ کبھی آپ کو منع نہیں کرےگا۔ 
ساگ پکانے کا اپنا طریقہ بھی ہے۔ بڑی سی لوہے کی کڑاہی میں چولہے پر ڈھیر سارا لہسن اور مرچ کا تڑکا لگا کر اسے بہت تسلی کے ساتھ دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ جب ساگ کا پانی سوکھ جاتا ہے تو سمجھئے یہ پک کر تیار ہو گئی ہے۔ گائوں کے بزرگ کہتے ہیں کہ جب کڑاہی سے چھن چھن کی آواز آنے لگے تو سمجھئے ساگ اب کھانے لائق ہو گیا ہے۔ 
سردیوں میں نہانا بھی بڑی ہمت کا کام ہے۔ ہمارے یہاں ایک چچا میاں تھے وہ دسمبر کی کڑاکے کی سردی میں پانی دیکھ کر دور بھاگتے تھے۔ وہ کہتے تھے کیا عید کی نماز پڑھنے جانا ہے جو اس سردی میں  نہائیں۔ کبھی ہمت کرکے غسل خانے میں داخل ہوتے تو فورا ً یہ کہہ کر باہر نکل آتے کہ ابھی تو بہت سردی باقی ہے پھر کبھی نہا لیں گے۔ بس جنوری، فروری بخیر وخوبی تمام ہو تو مارچ کہیں گیا نہیں۔ نہانے کا موسم تو وہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK