• Wed, 17 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: مٹی کے چولہے پر کھانا پکتا، تب کہیں جاکر دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی

Updated: December 16, 2025, 3:54 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

ایک وقت وہ تھا جب گائوں میںکم ہی لوگ صابن کے نام سےآشنا تھے ۔ نہانے ، کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے کیلئے دیسی طریقوں کا استعمال ہوتا تھا۔

Now you won`t see such stoves in homes, every home has gas connections. Picture: INN
اب گھروں میں اس طرح کے چولہے دیکھنے کونہیں ملیں گے، ہر گھر میں گیس کے کنکشن ہیں۔ تصویر: آئی این این
ایک وقت وہ تھا جب گائوں میںکم ہی لوگ صابن کے نام سےآشنا تھے ۔ نہانے ، کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے کیلئے دیسی طریقوں کا استعمال ہوتا تھا۔ اُس وقت جب کوئی پردیسی آتا تو وہ اپنے ساتھ صابن بھی لاتا تھا۔ جب وہ کنویں پر نہانے کیلئے صابن لے جاتا تو بچے صابن ہاتھ میں لے کر حیرت سے دیکھتے اور بار بار ناک کے پاس لے جا کر اس کی خوشبو لیتےتھے۔ اُس وقت گائوں کی خواتین بال دُھلنے کیلئے ملتانی مٹی کا استعمال کرتی تھیں۔ کپڑے دھلنے کیلئے ’ریہہ‘ کا ستعمال ہوا کرتا تھا۔’اوسر‘ میں خوب ’ریہہ‘ نکلتی تھی ۔(اوسر اسے کہتے ہیں جس زمین میں کچھ بھی پیداوار نہیں ہوتا ہے،یہیں سے ’ریہہ‘ نکلتی ہے) یہ ’ریہہ‘ سفید پائوڈر کی طرح زمین سے ازخود نکلتی تھی۔اگر اسے پیکٹ میں پیک کر دیا جائے تو یہ بالکل ڈٹرجنٹ پائوڈر کی طرح معلوم ہوگی۔ اُس وقت گائوں دیہات کیلئے یہی ’ریہہ‘آج کے رِن اور سرف ایکسل کا کام کرتی تھی ۔ نصف گھنٹہ پانی میں بھگوکر کپڑادُھلئے تو گندے کپڑے کو چمکا دیتی تھی۔ گائوں کے دھوبی اپنے گدھوں پر اِس’ ریہہ‘ کو ڈھوکر ذخیرہ کرتے تھے اور سال بھر اسی سے کپڑے دھلا کرتے تھے ۔     
اب شہر اور دیہات میں کوئی خاص فرق نہیں رہ گیا ہے ۔ لیکن اُس وقت دیہی زندگی آسان نہیں تھی ۔ آج کا گائوں بھی تکنیک سے قدم ملا کر چل رہا ہے...جی ہاں...اب گائوں میںبھی بٹن دبانے سے پانی مل جاتا ہے ، لیکن وہ وقت کتنا مشکل اور محنت بھرا تھا جب گھر کی خواتین دور کنویں پر پانی بھرنے جاتی تھیں۔بعض علاقے ایسے تھے جہاں کا پانی کھارا ہوتا تھا ،وہ نہ کھانا پکانے میں استعمال ہو سکتا تھا ، نہ ہی پینے لائق ہوتا تھا۔ ایسے علاقوںمیں بسے لوگ دوسرے گائوں سے پانی لاتے تھے ۔اس کام کیلئے گھر کے ایک فرد کی باقاعدہ ڈیوٹی لگائی جاتی تھی۔ 
اُس وقت برتن دھلنےکیلئے بھی بڑے جتن کرنے پڑتے تھے۔ خاص کر تَوے اور کڑاہی صاف کرنا آسان کام نہیں تھا ۔آج کی طرح برتن دھلنے والے صابن اور پائوڈر نہیں تھے۔ چنانچہ برتن صاف کرنےکیلئے گھر کے باہر درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا گڑھا بنایا جاتا تھا، اس میں پانی بھر دیا جاتا۔ گڑھے میں آم کے چھلکے ، گٹھلی  اورلیمو جیسے کھٹے پھل و چھلکے ڈال دیئے جاتے تھے۔ اس پانی سے دھلنے کے بعد برتن چمک جاتا تھا۔آج تو گھر گھر گیس سلنڈر کا انتظام ہے۔ اُ س وقت خواتین اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں ۔ باغوں سے لکڑی جمع کی جاتی ، مٹی کےچولہے پر کھانا پکتا، تب کہیں جاکر دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی ۔ چولہے پر کھانا پکنے سے لوہے کے برتن کافی جل جاتے تھے توان کو صاف کرنا دیسی نسخے کے بغیر مشکل تھا ۔ بانس کی پتیاں اور پُوال آج کے ’کاتھے‘ کا کام کرتے تھے۔ ندی کے کنارے آباد گائوں میں کپڑے دھلنے ، برتن صاف کرنے اور نہانے کی بڑی آسانی تھی ورنہ  ایک بندہ گھر کے سارے بچوں کے نہانے کیلئے کنویں پر پانی بھرتے بھرتے تھک جاتا تھا ۔ عید بقرعید کے موقع پر کئی کئی لوگ کنویں پر پانی بھرنے کی ڈیوٹی دیتے تھے تب کہیں جاکر بچوں اور خواتین کے نہانے کیلئے پانی کا انتظام ہو پاتا تھا ۔ گرمی کے دنوں میں اُن کسانوں کیلئے بڑی مشکل ہوتی تھی جو مویشی پالتے  تھے ۔ مئی جون میں جب تال تلیا سوکھ جاتے تو بس کنواں ہی ایک سہارا ہوا کرتا تھا ۔تپتی دھوپ میں کنویں سے مویشیوں کی چرہی تک پانی لانے والا پسینے سے نہا لیتا تھا۔ اسِ مشقت بھرے کام میںاُس کے خود کے تو ہونٹ خشک ہو جاتے تھے البتہ وہ اپنے مویشیوں کا گلا تر کر دیتا تھا۔
بالوں کو زیادہ چمکیلا ، صاف اور ملائم بنانے کیلئے خواتین ’کھلی‘ کا بھی استعمال کیا کرتی تھیں۔ سرسوں کا تیل پیرنے کے بعد جو فضلہ نکلتا ہے اسے ’کھلی ‘ کہتے ہیں۔ بالوں میں استعمال کے علاوہ’کھلی‘ کو پانی میںبھگو کرچارے کےساتھ مویشیوں کو کھلایا جاتا ہے ۔مویشیوں کی یہ پسندیدہ غذا ہے، جیسےدال کے ساتھ اگر دیسی گھی مل جائے تو لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ملتانی مٹی ، کھلی سے ترقی کرتے ہوئے دور آیا ’سہاگن صابن ‘ کا ،ایک زمانے میں اس کی بھی بڑی دھوم تھی ، یہ خواتین کا پسندیدہ صابن ہوا کرتا تھا ۔ اُ س وقت نہانے کیلئے بڑی تعداد میں ہرے، نیلے اور مٹ میلے ایسے ہی بہت سے بغیر نام والے صابن آیا کرتے تھے ۔ ان میں خوشبو برائے نام ہوتی تھی۔ نیم کا صابن خارش کے شکار افراد کیلئے خاص طور سے منگایاجاتا تھا ۔ گرمی میں صابن کی فروخت بڑھ جاتی تھی۔ مواضعات کے کسان فصلیں جب بنئے کو فروخت کرتے تھے تو اس کے عوض میں بڑی تعداد میں صابن خرید لیا کرتے تھے۔گھر میںصابن آنے کے بعد بچے دن میں کئی کئی بار نہایا کرتے تھے ۔ اب تو گائوں میں بھی طرح طرح کےشیمپو اور صابن دستیاب ہیں،لیکن اب ان کے مضر اثرات سے لوگ ایک بار پھر پرانے اور دیسی طریقے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اب خواتین بالوں کو دلکش بنانے کیلئے ملتانی مٹی ، ریٹھا اور آنولے کی مدد لے رہی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK